میں چھپائے تھا ایک یاد کے لمحوں کی پوٹلی

اساتذہ اکرام کے سامنے اصلاح کے لئے ایک غزل حاضر ہے .....

یوں زیست کے مزے لئے اس آشنا کے ساتھ
صد رنج و سو عذاب سہے ابتلا کے ساتھ

تائید میں اس نے میری کہا، اک عمر ہم رہے
پتھر انا کے ڈھوتے ہوئے ، فاصلوں کے ساتھ

میں نے چھپا کے رکھی تھی لمحوں کی پوٹلی
اس میں تھا وقت ، گزرا جو اس ماہ جبیں کے ساتھ

رخ پر اس کے مچلے تھیں زلفوں کی بدلیاں
مہتاب کھیلتا تھا اک کالی گھٹا کے ساتھ

بر لب دعا تھا میں اور اُس کو بھی جستجو
رشتہ تھا ، برگ صحرا کا جیسے گھٹا کے ساتھ

تب آتا لطف کاشف جب وہ ہم مشرب وفا
جاتا پلٹ کے گھر کو کچھ دور دے کے ساتھ


آپ کی آرا اور مشوروں کا منتظر رہونگا
شکریہ
کاشف
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خیالات تو اچھے ہیں کاشف، لیکن افسوس کہ قوافی موجود ہی نہیں، اس لئے یہ غزل ہی نہیں!!! صرف مطلع میں گمان ہوتا ہے کہ ابتلا، آشنا، رہنما، وغیرہ قوافی ہوں گے، لیکن آگے!!!
کئی مصرع تقطیع میں بھی نہیں آتے۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
میں تقطیع کر کے دکھائیں، ممکن ہے کچھ الفاظ کو غلط تلفظ کے ساتھ باندھا گیا ہو۔
 
جناب محترم الف عین صاحب
السلام عليكم
آپ کا بہت بہت شکریہ ...
واقعی .. میں نے مطلع کو صحیح نہیں باندھا ہے ..
اور جگہ بھی تصحیح کی اشد ضرورت محسوس ہوئی ..
انشا الله ... درست کرتا ہوں سب اغلاط کو ...
اس غزل میں مجھ پر روزہ سر چڑھ کر بولتا دکھایی دیتا ہے .. :-P
 
جناب محترم الف عین صاحب کی تبصرے کے بعد اب غزل
اب ایسے سامنے آئی ہے ....
مشوروں اور تبصروں سے نوازیےگا--


مستفعلن مفاعلتن فاعلن فعولن


اک عمرکے مزے لئے اس آشناکے ساتھ
صد رنج وسو عذا ب سہےابتلاکے ساتھ


تائید میں اس نےمیری کہا،اک عمرہم رہے
کچھ فاصلے سے، کھینچتےپتھر اناکے، ساتھ


میں یا د کی ، چھپا ئےہوں،وہ لمحوں کی پوٹلی
جس میں ہےوقت گز را،اس دل کشا کے ساتھ


رخ پرجواس کےمچلے تھیں زلفوں کی بد لیاں
مہتاب کھیلتاتھااک کالی گھٹاکے ساتھ


بر لب دعاکہ میں ہوں ، اور کوبہ کوہےوہ
ہے رشتہ،بر گ صحراکاجوہے گھٹاکے ساتھ


اک خا ر پھو ل سا،ہم مشرب و فا کھٹکتا
جا تا پلٹ جوگھرکو،کچھ دور آ کے ساتھ


کاشف مزا تب آ تا جب دوست بھی تیرا
پہچا نتا نہ تجھ کو، برسوں بھی،رہ کےساتھ



شکریہ
کاشف
 
آخری تدوین:
مقطع کچھ یوں پڑھا جایے --
کاشف مزہ تو آ تا جب دوست بھی وہ تیرا
پہچا نتا نہ تجھ کو، برسوں بھی، رہ کے ساتھ
 
آخری تدوین:
Top