میں نے چار دوست قبر میں اتارے ہیں

جاسم محمد

محفلین
میں نے چار دوست قبر میں اتارے ہیں
12/09/2020 ابو نائل



جولائی کے آخر میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کا زیادہ تر حصہ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ ہو نے والے امتیازی سلوک کے بارے میں ہے۔ اس کے علاوہ انڈ و نیشیا، بنگلہ دیش، کرگستان، ازبکستان بلغاریہ اور یو کے کے حالات پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔ اور ان حالات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے جن کا سامنا پاکستان میں شیعہ احباب اور مسیحی اور ہندو برادری کو کرنا پڑتا ہے۔ اس غیر سرکاری گروپ میں مختلف پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں بہت سے مسائل کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر ڈالی گئی ہے۔

جب اس رپورٹ کو منظر عام پر آئے ڈیڑھ ماہ ہو گیا تو پاکستان میں اس کا رد عمل ظاہر ہونا شروع ہوا۔ سب سے پہلے ”نیو نیوز“ چینل نے اس رپورٹ پر ایک پروگرام نشر کیا۔ اس پروگرام میں اوریا مقبول جان صاحب اور وفاقی وزیر علی محمد خان صاحب نے بھی شرکت کی اور خاص طور پر یہ نکتہ بار بار بیان کیا گیا کہ اس رپورٹ میں پاکستان پر الزامات تو لگائے گئے ہیں لیکن پاکستان کی حکومت کا موقف سنا ہی نہیں گیا اور علی محمد خان صاحب نے فرمایا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ ریاست نے کسی مذہبی اقلیت پر ظلم کیا ہو۔ پاکستان انسانی حقوق پر عمل کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان کی ریاست ایک ذمہ دار اور پر امن ریاست ہے۔ اور وزارت خارجہ اس رپورٹ کا جواب دے گی۔ اس کے بعد یہ خبر شائع ہوئی کہ پنجاب اسمبلی نے اس رپورٹ کے خلاف قرارداد منظور کی ہے کہ اس رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ قادیانیوں پر ریاست کی سرپرستی میں مظالم کیے جا رہے ہیں اور پاکستان سے اس کا موقف نہیں لیا گیا۔ اور یہ رپورٹ پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے۔

سب سے پہلے تو اس پہلو کو لیتے ہیں کہ یہ رپورٹ پاکستان کی خود مختاری کے خلاف سازش ہے۔ شاید اس لئے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران نے اس معاملے میں کیوں دخل اندازی کی؟ یہ ایک نقطہ نظر ہو سکتا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران اسی پنجاب اسمبلی میں متعدد ممالک میں ہونے والے واقعات کے خلاف قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ ان ممالک میں بھارت سویڈن اور فرانس بھی شامل ہیں۔ تو کیا یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب اسمبلی ان ممالک کی خود مختاری کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ اعتراض درست نہیں ہو گا کیونکہ اگر پنجاب اسمبلی کے اراکین یہ محسوس کرتے ہیں ان ممالک میں بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں تو وہ اس کی مذمت کر سکتے ہیں۔ لیکن پھر یہی حق برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران کو بھی دینا پڑے گا۔

یہ شکوہ بھی بار بار کیا جا رہا ہے کہ یہ رپورٹ تیار کرتے ہوئے پاکستان کی حکومت سے ان کو موقف دریافت نہیں کیا گیا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر کسی ممبر پارلیمنٹ نے پاکستان کا موقف دریافت کرنا ہے تو وہ پاکستانی سفارت خانہ یا وزارت خارجہ سے رابطہ کرے گا۔ لیکن وزارت خارجہ نے تو چپ سادھ رکھی ہے۔ ان کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا جا رہا۔

اور یہ اس گروپ کی پہلی رپورٹ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی یہی گروپ اسی موضوع پر رپورٹیں شائع کر چکا ہے۔ اور یہ رپورٹیں ان کی سائٹ پر موجود ہیں۔ کیا پاکستان کی وزارت خارجہ ان سب سے لا علم تھی کہ انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اور تو اور آج سے چار سال قبل یعنی 11 فروری 2016 کو برطانوی پارلیمنٹ میں اسی موضوع پر بحث ہوئی تھی۔ جو نکات اس رپورٹ میں بیان کیے گئے ہیں چار سال قبل یہی نکات کئی ممبران نے برطانوی پارلیمنٹ میں بیان کیے تھے۔

کیا پاکستان کی وزارت خارجہ اس سے بھی لا علم رہی کہ اپنا موقف پیش نہیں کیا؟ گستاخی معاف یہ شکوہ تو بہت کیا جا رہا ہے کہ ہمارا موقف نہیں سنا گیا لیکن مذمت کی قرارداد منظور کرنے سے قبل کیا پنجاب اسمبلی نے احمدیوں کو یہ موقع دیا کہ وہ بیان کریں کہ انہیں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان کا موقف کیوں نہیں سنا گیا؟ کیا موقف سننا صرف برطانیہ کے ممبران پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ پنجاب اسمبلی اس ذمہ داری سے آزاد ہے۔

اب علی محمد خان صاحب کے اس دعوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ریاست کی سرپرستی احمدیوں پر کوئی ظلم ہوا ہو۔ کیا علی محمد خان صاحب تحقیقاتی عدالت کی اس رپورٹ سے بے خبر ہیں جو کہ 1953 کے فسادات کے بارے میں جاری کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے تعلیم بالغاں کے فنڈ سے خطیر رقم نکال کر ان اخبارات کو دی تھی جو کہ احمدیوں کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اور محکمہ اسلامیات نے ان علماء کو مالی مدد تھی جو کہ جگہ جگہ دورے کر کے لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔

کیا علی محمد خان صاحب اس بات کی تردید کر سکتے ہیں کہ 1974 میں پاکستان ایک فیڈرل سیکریٹری تجمل ہاشمی صاحب نے سعودی عرب میں رابطہ عالم اسلامی کی ایک قرارداد پر دستخط کیے تھے۔ اس قرارداد میں یہ مطالبات شامل تھے کہ احمدیوں کا مکمل اقتصادی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے۔ ان کی املاک ضبط کر کے ان کی مخالف مسلمان تنظیموں کو عطا کر دی جائیں۔ کیا یہ ظلم نہیں تو کیا ظلم کے سینگ ہوتے ہیں۔

کیا علی محمد خان صاحب جانتے ہیں کہ 1974 میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں ممبران اسمبلی نے یہ مطالبات بھی کیے تھے کہ جماعت احمدیہ کی تنظیم کو ختم کر دیا جائے۔ ان کی جماعت کی جائیدادوں کو ضبط کیا جائے۔ ان کو یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے جماعت کے امام کی بیعت کر سکیں۔ انہیں کلیدی اسامیوں سے ہٹایا جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کے بانی کے نام کے ساتھ اگر صاحب بھی لگایا جائے تو ہماری دل آزاری ہوتی ہے۔ آپ 3 اور 6 ستمبر کے درمیان کی کارروائی میں یہ تقاریر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اور اپریل 1984 میں ضیاء صاحب نے جو آرڈیننس جاری کیا تھا اس کا نام ہی ’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘ تھا۔

شاید علی محمد خان صاحب کو یہ علم نہ ہو کہ 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ نے ایک فیصلہ جاری کیا تھا جس میں یہ تبصرے کیے گئے تھے کہ احمدیوں کے نام کے ساتھ ”غلام مرزا“ یا ”مرزائی“ کے الفاظ شامل کر دینے چاہییں۔ یعنی اگر کسی احمدی کے کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے نام کا فیصلہ بھی ہائی کورٹ کرے گی۔ اور اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ احمدی اپنے لباس اور وضع قطع کے حساب سے مسلمانوں سے مختلف نظر نہیں آتے۔ اس رپورٹ میں اس فیصلے کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ کئی لوگ اس پورٹ کے نتائج کو غلط قرار دیں اور اس میں جو مختلف بیانات پر تبصرے کیے گئے ہیں ان سے بھی اتفاق نہ کریں۔ ہر ایک کو اپنی رائے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں بہت سے معین واقعات تفصیلات کے ساتھ درج کیے گئے ہیں۔ کیا حکومتی اراکین کے نزدیک یہ سارے واقعات جھوٹے ہیں؟ اس پر حکومت کی طرف سے کوئی معین موقف سامنے نہیں آیا۔

اراکین حکومت یہ یقین دلا رہے ہیں کہ پاکستان میں احمدیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن میں اس کا کیا کروں کہ اب تک چار احمدی دوست قبر میں اتار چکا ہوں۔ اور دوست سے مراد صرف وہ دوست ہیں جو یا تو ہاسٹل میں میرے روم میٹ رہے ہوں یا جس ادارے میں کام کرتا ہوں اس میں میرے رفیق کار رہے ہوں۔ یہ دوست کرونا کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ ان میں سے تین کے جسموں کو مذہبی منافرت کی بنا پر گولیوں سے چھلنی کیا گیا تھا اور ان میں سے ایک میرے رشتہ دار بھی تھے۔ اور چوتھے دوست کو بیوی سمیت گھر کے اندر پھانسی دی گئی تھی۔ شاید کچھ پڑھنے والے سوال کریں کہ پھر تم کس طرح بچ گئے؟

تو عرض یہ ہے کہ حملہ تو میرے پر بھی ہوا تھا لیکن خوش قسمتی سے جب میں حملہ آوروں کے سامنے آیا تو ان کے ہاتھ میں کوئی مہلک ہتھیار نہیں تھا۔ اس واقعہ کے تیس سال بعد جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میں ان کے ڈیسک کے نیچے کی الماری سے کاغذ نکال رہا تھا۔ ان میں سے ایک فائل پر میرا نام لکھا ہوا تھا۔ اس کے اندر ڈاکٹری اور پولیس رپورٹ تھی جس میں میرے زخموں کی تفصیلات تھیں۔ شاید میرے والد اس فائل کو دیکھ کر سوچتے ہوں کہ اگر ملک میں ہمارے خلاف نفرت انگیزی نہیں تھی تو بیٹا کالج نتیجہ پتہ کرنے گیا اور جسم پر چھتیس زخم لگوا کر کیسے واپس آیا؟
 
Top