میں سیاست میں کیسے آیا

الف نظامی

لائبریرین
میں سیاست میں کیسے آیا از حمید احمد سیٹھی
اگرچہ سیاست کے میدان میں ہم نووارد ہیں ممکن ہے لوگ حسد میں نوآموز بھی کہتے ہوں لیکن اپنی لیدر پراڈکٹس کی ایکسپورٹ کے حوالے سے ہماری یورپ میں بھی پہچان تھی۔ اپنے یہاں کی سرکار کی دی ہوئی ایکسپورٹ ٹرافیاں ہماری فیکٹری کے دفترمیں بکھری پڑی ہیں لیکن ہمیں شہر کے کاروباری لوگوں کے ہجوم میں محض یکے از ایکسپورٹرز سمجھا جاتا تھا۔ اگریورپ کے دو چارشہروں میں نام تھا تو جنگل میں مور ناچا والی مثل ہی ہوئی نا۔ اگرچہ بڑے سیاسی گھرانے میں رشتہ داری کی وجہ سے ہمیں کاروباری رکاوٹ کسی جگہ نہ آتی لیکن اخباروں میں ان اپنوں کی خبریں اور تصویریں دیکھ کر دل ضرور مچلتا۔ گزشتہ چند سالوں میں چین کی بنی پراڈکٹس نے ہمارے کاروبار پر بڑا منفی اثر ڈالا۔ ہمارے خواہش کرنے کی دیر تھی کہ ہمارے رشتہ داروں نے ضروری اشارے کردیئے۔ الیکشن بھی قریب تھے بس پھر کیا تھااسمبلی کی ممبرشپ ہی نہیں وزارت اور نظامت بھی ہماری جھولیوں میں پکے پکائے سیبوں کی طرح آگری۔ اب تو یہ ٹرافیاں عام سی چیز لگتی ہیں۔ پہلے تو فیکٹری کی گلی کے لوگ تک ٹھیک سے سلام نہیں کرتے تھے اب تو ٹھوکر میں زمانہ ہے شہر میں ہر طرف سے ہٹو بچوکی آوازیں آتی ہیں۔ آپ نے تمہید میں ٹھیک کہا کہ ہمارے بڑوں نے ساری عمر وردی میں رہ کر ملک کی خدمت کی اور اسی لباس میں جان کا نذرانہ بھی پیش کیا تو ہم کیوں ان کے نقش قدم پر نہ چلیں۔ دراصل ہم لڑنے کی بجائے مالی اور سیاسی طاقت سے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے فلسفہ اور حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم اپنے بزرگوں اور دنیا کے بہت سے دانشوروں سے سن اور سیکھ کر حقیقت کو پا گئے ہیں کہ توپ اور جہاز سے فتوحات وقتی اور ظاہری ہوتی ہیں اپنی ذاتی اور ملک کی معیشت مستحکم ہو تو آپ ووٹ سے لے کر دوسرے ملکوں کی بندرگاہیں تک خرید سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے سیاست کے ہتھیار سے لیس ہو کر سرحد پار ہی نہیں اندرونی دشمنوں اورمخالفوں سے نبرد آزما ہو کر مکمل فاتح کہلانے کو ترجیح دی ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں جواب دیتے ہوئے ہم ہم کہہ کر جمع کا صیغہ کیوں استعمال کر رہا ہوں۔ سیدھی سی بات ہے یہ صرف میں نہیں ہوں یہ ہم ہیں۔ میں خود تعلیم یافتہ نہ سہی لیکن بڑے بڑے تعلیم یافتہ انجینئرمیری فیکٹریوں میں ملازم ہیں۔ میراخیال ہے کہ محاورہ کچھ الٹ پلٹ ہو گیا ہے لیکن کوئی بات نہیں محاورے ہم جیسے امیر اورسیٹھ لوگوں کے آگے حقہ بھرتے ہیں اورپھر ہمارے بھیجے ہوئے مشروبات کے کریٹوں نے تو بڑے بڑے پتھر دلوں کو پانی کر دیا ہے۔ میرے پاس پیسہ بہت ہے جومیں نے افسروں اور بڑے لوگوں میں سربلندرہنے کے لئے پانی کی طرح بہایا لیکن جب بھی ان کے دفتروں میں ملاقات کے لئے گیا تو ہمیشہ تادیر باہر انتظار میں بیٹھایا گیا۔ میری برسوں کی دبی چنگاری نے ہوا پکڑی اور میں نے ایک الیکشن میں تجوریوں کے منہ کھول دیئے۔ پیسے نے چھوٹے موٹے مخالفین کو بلڈوزر کی طرح کچل کررکھ دیا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ جس طرح میں نے عمر کا بیشتر حصہ دولتمند ہونے کے باوجود لفافے دے دے کر گزارا۔ اب میں بھی ان کے دفتروں کا دروازہ جوتے کی ٹھوکر سے کھولوں۔ کئی بار الیکشن جیتا ہوں اور انہی صاحب لوگوں کو چکر لگوانے کا مزہ اڑایا ہے۔ سائلوں کو انتظار میں ذلیل کرنے کی لذت بھی عجیب نشہ ہے۔ میں آیا نہیں بلایا گیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈپٹی کمشنر صحیح معنوں میں حاکم ضلع کہلاتے تھے۔ انہوں نے مجھے بلا بھیجا اورکہا کہ عام انتخابات قریب ہیں جنرل صاحب کا حکم آیا ہے کہ ٹھیک قسم کے لوگوں کو ٹھونک بجا کر دیکھ کر پارٹی ٹکٹ دے کر ان کو الیکشن میں کامیاب کروا کر اسمبلی میں بھجوایا جائے۔ ڈی سی صاحب کی عنایت تھی کہ انہوں نے مجھ جیسے خاکسار تابعداور فرمانبردار کوچن کرمتوقع امیدواروں کے پینل میں ڈال دیا ورنہ میں تواس قابل نہ تھاکہ اپنے گھرسے بھی ووٹ کی توقع رکھتا۔ مردم شناس حاکم ضلع کو البتہ اپنے عرصہ تعیناتی میں مجھ سے کئی بارملنے کے بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ میں جناب عالی حضور بندہ پرور کے القاب صرف زبان سے ادا ہی نہیں کرتا دل و جان کی گہرائیوں سے ان کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں۔ اس پہلی لاٹری کے نکلنے کے بعدسے اب تک میں ہرحکو مت میں شامل اورہر حکومت کی سرپرستی میں چلنے والی پارٹی کاوفاردار رہاہوں۔ حاکم بدل جاتے ہیں حکومت کرنے والی پارٹیاں بدل جاتی ہیں۔ ڈی سی صاحبان DCO ہوگئے میں نے جو عہد اپنے محسن DCسے پچیس سال پہلے کیا تھا اب بھی اس پر قائم ہوں اور حاکموں کامنظو ر نظرہوں۔ آپ کے اس سوال کے جواب میں کہ میں سیاست میں کیسے آیا پہلے ہنسی آئی ہے اور پھر رونا۔ دونوں آپ کی عقل پر۔ یہ سوال ہی لغو ہے کیاآپ سے کسی نے آج تک پوچھا ہے کہ آپ پیدا کیسے ہوئے تھے؟ظاہر ہے مرغی کے انڈے میں سے تو نہیں نکلے تھے۔ ہمارے والدسیاستدان تھے۔ دادا صاحب سیاستدان تھے۔ ان کے بزرگ جاگیردارتھے۔ ہمارے خاندان نے اس ملک کے وجود میں آنے سے پہلے انگریز کے ساتھ مل کر ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ ہم جدی پشتی حکومت میں ہیں۔ یہ سیاست کیا ہوتی ہے گر پوچھتے ہو تو سنو یہ ہمارے گھر کی لونڈی ہے۔ دادا مرے تو ابا کے حرم میں آگئی۔ ابا حضور اللہ کو پیارے ہوئے۔ ہمارے بستر پر آگئی۔ جب ہم نہ ہوں گے تو ہمارا بڑا لڑکا اس سے کھیلے گا۔ بڑے کو اس کے ساتھ رغبت نہ ہوئی تو اس پر چھوٹے بیٹے کا حق ہوگا۔ ہماری وسیع اراضی ہیں۔ بے شمار ملازم ہیں جو ہماری خود کاشت زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ دراصل ہمارے کمین ہیں۔ ہماری اپنی خواتین پردے کی پابند ہیں لیکن اب پردے اور گارڈز کے ساتھ اکیلی سپرسٹوروں پر جاسکتی ہیں۔ ان کی غیرموجودگی میں ان کی خاص خادمائیں ہماری ضروریات کاخیال رکھتی ہیں۔ کچھ عوام کے ٹھیکیدار جاگیرداری ختم کرنے کی بکواس کرتے رہتے ہیں ہم نے کچھ رقبہ اپنے وفادار ملازموں کے نام منتقل کرکے روپیہ شہروں اور بیرون ملک بھجوا کر اورسول و فوجی بیوروکریسی میں رشتہ داریاں کرکے کسی ایسی ممکنہ کوشش کی پیش بندی کرلی ہوئی ہے۔ ہماری سیاسی تربیت والد صاحب کی بیٹھک ،ان کی زیرصدارت ہونے والے جرگوں اور یار دوستوں کی پرائیویٹ محفلوں میں ہو جاتی ہے۔اب بیشتر بیوروکریٹ جرنیل اورکارخانہ دارہماری لینڈ لارڈ کلب میں شامل ہیں۔ اب ڈر کا ہے کا۔
از روزنامہ جنگ
http://209.41.165.188/urdu/details.asp?nid=130532
 
Top