محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
میں دریا ہوں میرے ساتھ چلو!
از نصیر احمد ناصر
کنارو! کھڑے کیا دیکھتے ہو
میرے ساتھ چلو
صدیوں کا ٹھہراؤ میرے سنگ بیتا ہے
تم بھی چلو
میرے پیدائشی ساتھیو!
تم وہ جڑواں ہو
جو کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے
تم سمجھتے ہو کہ میری وجہ سے
کتنا غلط سوچتے ہو
اے ایک دوسرے کو دور دور سے دیکھنے والو!
یہ میں ہی ہوں
جو تمہارے دوار آئے
دور دراز کے مسافروں کو باہم ملاتا ہوں
اور کشتیوں کو آرپار گزرنے دیتا ہوں
کس سفاکی سے وہ میرا سینہ چیرتی ہیں
آؤ میری لہروں سے اپنے مٹیالے، ریتیلے جسم رگڑو
میری گیلاہٹوں اور نرماہٹوں سے
پرلطف زمانوں کا ادراک کرو
میرا لمس ہر چھونے والے وجود کے لیے یکساں ہے
میں دائیں اور بائیں کی تخصیص نہیں رکھتا
آؤ میرے ساتھ چلو!
میں شہروں اور ملکوں سے گزرتا ہوں
سرحدیں میرا راستہ نہیں روکتیں
میرے پانیوں سے محبت کی داستانیں جنم لیتی ہیں
کتنے پُل میرے اوپر قائم ہیں
عقیدے مجھ میں اشنان کرتے ہیں
تہذیبیں میرے مرنے پر خودکشی کرلیتی ہیں
میں جغرافیے کا امین اور
تاریخ کا جشمِ دید گواہ ہوں
جلی ہوئی کتابوں، کٹی ہوئی لاشوں
اور آبادی کی ساری کیچڑ سے اٹ کر بھی چلتا رہتا ہوں
بہت بھر جاؤں
تو شاعروں کی آنکھوں اور نظموں سے رسنے لگتا ہوں
میں زندہ آثارِ قدیمہ ہوں
میں سندھو ہوں، ڈینیوب ہوں
لیکن جب دجلہ و فرات میں ڈھلتا ہوں
تو پیاس کا عظیم استعارہ بن جاتا ہوں
میرا کوئی ایک نام نہیں
میں وقت کا سیال سیاح ہوں
اور سنگلاخ سرزمینوں پر نت نئے ناموں سے سفر کرتا ہوں
رُکنا میری موت ہے
مجھے کسی میوزیم میں محفوظ
اور کسی یادگاری چیز میں مجسم نہیں کیا جاسکتا
میری تہہ میں چھپے دکھ کی بازگشتیں
ہواؤں کی طرح خاموش راستوں میں سنائی دیتی ہیں
اور میرے گیتوں کی صدائیں
قدیمی مقادس کی محراب دار غلام گردشوں میں
اور پشمینہ پوشوں، صومعہ نشینوں کے دلوں میں گونجتی ہیں
اے میری حفاظت پر معمور دائمی ساتھیو!
آرام سے چلو
مجھے کسی سے کوئی خطرہ نہیں
سوائے لگاتار بارشوں کے
جو کبھی کبھی مجھے غصے سے لبالب کردیتی ہیں
اور میں تمہارا حفاظتی حصار توڑ کر
بستیوں ، کھیتیوں، چراگاہوں
اور ہموار نشیبی علاقوں کی طرف جانکلتا ہوں
تمہارے ساتھ انہیں بھی ڈبو دیتا ہوں
لیکن دھوپ نکلتے ہی
اپنے راستے پر واپس آجاتا ہوں
اور تم پھر سے مجھے گھیرے میں لے لیتے ہو
عظیم بہادرو، مجھے تمہاری وفاداری پر کوئی شک نہیں
تم کٹ کر بھی مجھ میں گرتے ہو
ہم گردو!
میں ہمیشہ بلند و بالا شاداب پہاڑوں،
سوکھی چمڑی والی بوڑھی مرتفع سطحوں،
گھنے جنگلوں، میدانوں،
اور ریتیلے صحراؤں سے ہوتا ہوا
کھارے سمندر سے جاملتا ہوں
جہاں بھیگی ہوئی نمکین ہوائیں میرا استقبال کرتی ہیں
اور میرے پانیوں کی مٹھاس
جھاگ آلود کسیلی کڑواہٹ میں بدل جاتی ہے
اور تم دو جدائی زدہ، سدا کے فراقیے
مجھے وصالِ بحر میں چھوڑ کر
ایک مستقل الوداعی پوز میں استادہ ہوجاتے ہو
لیکن اب میں دیکھ رہا ہوں
عہد بہ عہد، سال بہ سال
میری آبی سطح گِر رہی ہے
اور میرا گلوکوز لیول خطرناک حد تک کم ہوتا جارہا ہے
بہتے بہتے میرا بہاؤہانپنے لگتا ہے
اور میں سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی سوکھنے لگا ہوں
اور کہیں کہیں تو
بڑھتی ہوئی کُروی حرارت نے
مجھے 15 زمین جانے پر مجبور کردیا ہے
اور تم بھی
ملاحوں، مچھیروں اور مچھلیوں کی فکرت میں
روز بروز مجھ سے پیچھے ہٹتے جارہے ہو
آب نشینو! میرا راستہ بھی عجیب ہے
ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف
کاش میں بھی آسمان کی طرف جاسکتا
تو بادلوں میں سے گزرتے ہوئے
ست رنگی کمان بن جاتا
میرے ساتھ تم بھی رنگوں میں لتھڑجاتے
بادلوں سے آگے، اور آگے
لاجوردی خلاؤں سے گزر کر
شاید ہم کسی ایسی دنیا میں پہنچ جاتے
جہاں اتنی آلودگی، اتنی گھٹن نہ ہوتی
جہاں یہ نسا جال نہ ہوتا
جہاں تم کھل کر سانس لے سکتے
اور میں بھی آسانی سے
رواں رہتا
اور وقت کی طرح سدا بہتا!
از نصیر احمد ناصر
کنارو! کھڑے کیا دیکھتے ہو
میرے ساتھ چلو
صدیوں کا ٹھہراؤ میرے سنگ بیتا ہے
تم بھی چلو
میرے پیدائشی ساتھیو!
تم وہ جڑواں ہو
جو کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے
تم سمجھتے ہو کہ میری وجہ سے
کتنا غلط سوچتے ہو
اے ایک دوسرے کو دور دور سے دیکھنے والو!
یہ میں ہی ہوں
جو تمہارے دوار آئے
دور دراز کے مسافروں کو باہم ملاتا ہوں
اور کشتیوں کو آرپار گزرنے دیتا ہوں
کس سفاکی سے وہ میرا سینہ چیرتی ہیں
آؤ میری لہروں سے اپنے مٹیالے، ریتیلے جسم رگڑو
میری گیلاہٹوں اور نرماہٹوں سے
پرلطف زمانوں کا ادراک کرو
میرا لمس ہر چھونے والے وجود کے لیے یکساں ہے
میں دائیں اور بائیں کی تخصیص نہیں رکھتا
آؤ میرے ساتھ چلو!
میں شہروں اور ملکوں سے گزرتا ہوں
سرحدیں میرا راستہ نہیں روکتیں
میرے پانیوں سے محبت کی داستانیں جنم لیتی ہیں
کتنے پُل میرے اوپر قائم ہیں
عقیدے مجھ میں اشنان کرتے ہیں
تہذیبیں میرے مرنے پر خودکشی کرلیتی ہیں
میں جغرافیے کا امین اور
تاریخ کا جشمِ دید گواہ ہوں
جلی ہوئی کتابوں، کٹی ہوئی لاشوں
اور آبادی کی ساری کیچڑ سے اٹ کر بھی چلتا رہتا ہوں
بہت بھر جاؤں
تو شاعروں کی آنکھوں اور نظموں سے رسنے لگتا ہوں
میں زندہ آثارِ قدیمہ ہوں
میں سندھو ہوں، ڈینیوب ہوں
لیکن جب دجلہ و فرات میں ڈھلتا ہوں
تو پیاس کا عظیم استعارہ بن جاتا ہوں
میرا کوئی ایک نام نہیں
میں وقت کا سیال سیاح ہوں
اور سنگلاخ سرزمینوں پر نت نئے ناموں سے سفر کرتا ہوں
رُکنا میری موت ہے
مجھے کسی میوزیم میں محفوظ
اور کسی یادگاری چیز میں مجسم نہیں کیا جاسکتا
میری تہہ میں چھپے دکھ کی بازگشتیں
ہواؤں کی طرح خاموش راستوں میں سنائی دیتی ہیں
اور میرے گیتوں کی صدائیں
قدیمی مقادس کی محراب دار غلام گردشوں میں
اور پشمینہ پوشوں، صومعہ نشینوں کے دلوں میں گونجتی ہیں
اے میری حفاظت پر معمور دائمی ساتھیو!
آرام سے چلو
مجھے کسی سے کوئی خطرہ نہیں
سوائے لگاتار بارشوں کے
جو کبھی کبھی مجھے غصے سے لبالب کردیتی ہیں
اور میں تمہارا حفاظتی حصار توڑ کر
بستیوں ، کھیتیوں، چراگاہوں
اور ہموار نشیبی علاقوں کی طرف جانکلتا ہوں
تمہارے ساتھ انہیں بھی ڈبو دیتا ہوں
لیکن دھوپ نکلتے ہی
اپنے راستے پر واپس آجاتا ہوں
اور تم پھر سے مجھے گھیرے میں لے لیتے ہو
عظیم بہادرو، مجھے تمہاری وفاداری پر کوئی شک نہیں
تم کٹ کر بھی مجھ میں گرتے ہو
ہم گردو!
میں ہمیشہ بلند و بالا شاداب پہاڑوں،
سوکھی چمڑی والی بوڑھی مرتفع سطحوں،
گھنے جنگلوں، میدانوں،
اور ریتیلے صحراؤں سے ہوتا ہوا
کھارے سمندر سے جاملتا ہوں
جہاں بھیگی ہوئی نمکین ہوائیں میرا استقبال کرتی ہیں
اور میرے پانیوں کی مٹھاس
جھاگ آلود کسیلی کڑواہٹ میں بدل جاتی ہے
اور تم دو جدائی زدہ، سدا کے فراقیے
مجھے وصالِ بحر میں چھوڑ کر
ایک مستقل الوداعی پوز میں استادہ ہوجاتے ہو
لیکن اب میں دیکھ رہا ہوں
عہد بہ عہد، سال بہ سال
میری آبی سطح گِر رہی ہے
اور میرا گلوکوز لیول خطرناک حد تک کم ہوتا جارہا ہے
بہتے بہتے میرا بہاؤہانپنے لگتا ہے
اور میں سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی سوکھنے لگا ہوں
اور کہیں کہیں تو
بڑھتی ہوئی کُروی حرارت نے
مجھے 15 زمین جانے پر مجبور کردیا ہے
اور تم بھی
ملاحوں، مچھیروں اور مچھلیوں کی فکرت میں
روز بروز مجھ سے پیچھے ہٹتے جارہے ہو
آب نشینو! میرا راستہ بھی عجیب ہے
ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف
کاش میں بھی آسمان کی طرف جاسکتا
تو بادلوں میں سے گزرتے ہوئے
ست رنگی کمان بن جاتا
میرے ساتھ تم بھی رنگوں میں لتھڑجاتے
بادلوں سے آگے، اور آگے
لاجوردی خلاؤں سے گزر کر
شاید ہم کسی ایسی دنیا میں پہنچ جاتے
جہاں اتنی آلودگی، اتنی گھٹن نہ ہوتی
جہاں یہ نسا جال نہ ہوتا
جہاں تم کھل کر سانس لے سکتے
اور میں بھی آسانی سے
رواں رہتا
اور وقت کی طرح سدا بہتا!