میڈیا آزاد ہے

پیمرا آرڈیننس اور صدارتی ریفرنس کے خلاف وکلاء اور صحافیوں کا ملک گیر احتجاج، مکمل عدالتی بائیکاٹ، مظاہرے اور ریلیاں​

کراچی، حیدرآباد،لاہور(اسٹاف رپورٹر، بیورو رپورٹ، نمائندگان جنگ)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کیخلاف صدارتی ریفرنس اور پیمرا کے ترمیمی آرڈیننس کے خلاف ملک بھر میں وکلاء اور صحافیوں نے احتجاج کیا، ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کئے، وکلاء نے عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ بھی کیا۔ چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی بار ایسوسی ایشن ، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور ملیر بار ایسوسی ایشن کے وکلاء نے جمعرات کو عدالتوں کا بائیکاٹ کیا، کراچی بار کے وکلاء نے جلوس نکالا، ایم اے جناح روڈ پر دھرنا دیا، بھوک ہڑتال کی اور حکومت کیخلاف نعرے لگائے۔

مکمل خبر یہاں
 
صحافیوں نے بھی پیمرا آرڈیننس چیلنج کر دیا​


اسلام آباد (مانیٹرنگ سیل) سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ جوشی کے ذریعے صحافیوں نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے جس میں پیمرا صدارتی آرڈیننس کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔

مکمل خبر یہاں
 
حکومت نے آزادی صحافت پر شب خون مارا، اپوزیشن رہنما​


اسلام آباد(نمائندہ جنگ)قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی طرف جا رہی ہے اور آمریت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ جمہوری قوتیں شدید مزاحمت کریں گی۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے عدلیہ کے خلاف کارروائی کرنے کے بعد پیمرا قوانین میں ترمیم کر کے آزادی صحافت پر شب خون مارا ہے جس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

مکمل خبر یہاں
 
150 واں کھلاڑی​
کالم نگار: سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان


صحافیوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک معتبر بین الاقوامی ادارے جس کا نام ہے (بارڈرز سے ماورا) نے پاکستان میں آزادی صحافت کی صورتحال پر ایک دلچسپ اور زور دار تبصرہ کیا ہے تبصرہ کسی لمبے چوڑے مقابلے ، کسی تفصیل یا تفہیم طلب تقریر کی صورت میں نہیں بلکہ یہ تبصرہ ایک معقول اور قابل اعتبار تحقیق کے بعد پوری دنیا کے تمام براعظموں میں واقع ترقی یافتہ، ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک کی تقسیم کے بغیر، کئے جانے والے سروے کا نتیجہ اور اس موضوع پر مختصر ترین تبصرہ ہے اور وہ یہ ہے۔ ”پاکستان آزادی صحافت کی دنیا میں ”اچھا ریکارڈ“ رکھنے والے ممالک کی فہرست میں 150ویں نمبر پر آتا ہے“۔ جس طرح اس وقت آپ کو یقین نہیں آ رہا ہے کہ آزادی صحافت جیسے نازک مگر بنیادی انسانی مسئلے پر یہ ننھا سا تبصرہ ختم ہو چکا ہے۔ بالکل اسی طرح پہلے پہل مجھے بھی یقین کرنے میں دیر لگی تھی مگر بظاہر بہت معصوم اور شارٹ تبصرے کے اندر مفہوم کی تلاش میں سرگردانی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس تبصرے میں تبصرہ در تبصرہ کئی دنیائیں موجود ہیں۔ اس تبصرے کاپہلا پردہ ہٹائیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم G-8ممالک، صنعتی ممالک، ترقی یافتہ ملکوں کا کلب، دنیا کی بڑی اور مکمل جمہوری نظام پر مبنی حکومت رکھنے والے ممالک کو جمع کریں 1تو ان کی تعداد ڈیڑھ سے دو درجن کے درمیان بنتی ہے پھر اس صف میں تیل پیدا کرنے والے ممالک بھی داخل کریں، عوام دوست حکومتیں بھی شامل کرلیں، فلاحی مملکتیں بھی ڈال لیں تو تب بھی یہ تعداد مزید دو درجن سے زائد نہیں ہوتی، یعنی ایسے تمام ملکوں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ بن جائے گی۔ اب اس کا دوسرا رخ ملاحظہ کریں جو یہ ہے کہ معاشی ترقی، تمدنی عروج، فلاحی حیثیت، ذرائع کی فراوانی اور جمہوری اقدام کی پاسداری والے سارے معاشروں کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے تو پھر وہ اور کون کون سے اور کس طرح کے ممالک ہیں جو تعداد میں ایک سو ہیں جن کی صف میں پاکستانی معاشرہ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے میدان میں ایک مشتبہ کے طورپر سب سے آخر میں گردن جھکا کر کھڑا ہے؟ اس سوال کا جواب تو شاید پیمراآرڈیننس لانے والی حکومت ہی دے سکتی ہے یا اس کی صحافت اور اظہار رائے سے متعلقہ ادارے اور صحافیوں کے بارے میں پرجوش لیڈر، کیونکہ اس سے کچھ مہینے پہلے کرپشن میں ملوث ہونے اور ناکام ریاستوں کی لسٹ اور لاغر اورکمزور کرنسی رکھنے والے ملکوں کے حوالے سے جو فہرستیں عالمی ادارے شائع کر چکے ہیں ان میں بھی ہماری کارکردگی 150ویں کھلاڑی والی ہی ظاہر کی گئی تھی کیونکہ گورننس کے ان میدانوں میں بھی ہم جیسے ”ایشین ٹائیگر“ نے برونڈی، روانڈا اور افغانستان جیسی عالمی طاقتوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بڑی جانفشانی سے ان کی صف میں اپنی جگہ بنا کر نظام سرمایہ داری سے عملی بیزاری کا ثبوت دیا تھا۔ جس فہرست کا ذکر آج ہو رہا ہے وہ کس طرح کے معاشروں پر کیا تبصرہ کرتی ہے…؟ اورکتنی آزادی دینے والوں سے کیا سلوک کرتی ہے…؟ اس سے قطع نظر، اس میں ایک کمینی سی مسرت حاصل کرنے کا سامان بھی موجود ہے ویسے ہی جیسے کبھی خانماں برباد بابا غالب کو حاصل ہوئی تھی۔غالب کا تذکرہ بعد میں اور خوشی پہلے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ آزادی صحافت میں اچھا ریکارڈ رکھنے والے ملکوں کی نمبرنگ میں پیارے پڑوسی بھارت کا نمبر127واں ہے۔ اب سنیئے ایسے ہی کسی موقع پر سوختہ دل نے کیا کہا… دل خوش ہوا اس مسجد ویراں کو دیکھ کر میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے بارڈر سے ماورا کی طرف سے جاری کی گئی فہرست اگر مرتب ہو کر شائع نہ ہوگئی ہوتی تو 12مئی کے روز آزادی صحافت کی جو خدمت کراچی میں میڈیا چینل پر براہ راست چلنے والے درجنوں ملکی اور غیر ملکی کیمروں کی موجودگی میں کئی گھنٹے کی سیدھی اورنشانہ لے کر”شوٹ ٹو کل“ کے انداز میں ہونے والی فائرنگ اور اس فائرنگ کے وقت سندھ کی جرأت مند پولیس اور حوصلہ مند رینجرز کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سلوک کی رپورٹنگ کے بعد تو ہو سکتا ہے پاکستان آزادی صحافت کے کھیل کا150واں نہیں بلکہ 350واں کھلاڑی بننے کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے کوالیفائی کرجاتا۔ پچھلے سال پاکستان میں صحافتی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ وانا سے نہیں بلکہ لاڑکانہ سے شروع ہوئی تھی اور ایک ٹی وی کیمرہ مین کی بے رحمانہ ہلاکت پر پریس گیلری کے احتجاج سے متاثر ہو کر میں نے جوپوائنٹ آف آرڈر پر متعلقہ وزارتوں اور حکام سے کیس کی پراگریس مانگی تھی اس سلسلے میں مجھے آج ہی سینٹ نے یعنی محض ایک سال کے مختصر عرصے کے بعد دفتری اور سرکاری طورپر اطلاع دی ہے کہ اس کی پراگریس جاننے کے لئے متعلقہ حکام جلد بریفنگ دے سکتے ہیں…؟قتل اور وہ بھی ایک صحافی کارکن کا بے جواز قتل، اس پر جس قدر نا اہلی ، بد عملی اور صفر کارکردگی اس مقدمے میں دکھائی گئی ہے اس پر مزید تبصرہ کر کے مقتول کے اہلخانہ کے زخم کریدنے کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے…؟ اسی تسلسل میں اسلام آباد میں سینئر صحافی ملک اسماعیل اور پھروانا کے صحافیوں کے قتل پر متعلقہ اداروں کے ردعمل اور تفتیش کی رفتار دیکھ کر ان کی آزادی صحافت میں دلچسپی کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک حکمرانوں کے دعوؤں کا تعلق ہے وہ کس قدر بے معنی، کھوکھلے، بے وزن اور خود نمائی پر مبنی ہیں اس کا ایک کھلا مظاہرہ 12مئی والے دن ہی ہو گیا تھا۔ جب ایک طرف کراچی میں نہتے عوام کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر بے گناہوں کے بہتے ہوئے خون کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی” ان دی لائن آف فائر“ رکھا جا رہا تھا تو دوسری طرف اسلام آباد کے نیروپارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اپنی کارکردگی کی جوبانسری بجا رہے تھے ان میں ریل کی دھن پر کہا گیا کہ ” آج جو صحافتی آزادی موجود ہے وہ میری وجہ سے ہے اور ابھی کچھ آزادی کے ثبوت پائپ لائن میں بھی ہیں“۔ یہ مضحکہ خیز اور دل دکھانے والا دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جس سے کئی گھنٹے قبل صحافی کو محاصرے میں لے کر سرکاری سرپرستی میں فائرنگ کرنے والے درباریوں کے فوٹو الیکٹرانک میڈیا میں براہ راست چل چکے تھے۔ اس دعوے کے جواب میں ریکارڈ درست کرنے کے لئے اتنا کہنا مناسب ہوگا کہ آج قلم کی جو حرمت اور لفظ کی جو حریت پاکستان کے اندر موجود ہے وہ کسی عسکری حکومت کے حاشیہ برداروں کی فراخدلی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران آمریت کے اندھیروں میں حریت فکر اور آزادی اظہار کے چراغ جلانے والے ان سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کارکنوں ، قلم کاروں، فوٹو جرنلسٹس اورشاعروں، ادیبوں کی جہد مسلسل کی وجہ سے ہے جنہوں نے اپنے بلکتے بچوں کی طرف نہ دیکھا اور اس آزادی کے لئے نوکریاں تک قربان کیں، ان لوگوں نے لفافے جھٹک کر ننگی پیٹھ پر کوڑے کھائے ، قلم کے یہ مجاہد پیشہ خوشامد کو اپنانے کی بجائے بیروزگاری کے عذاب سے گزرے ، اخبارات بند کروا لئے لیکن سچ لکھنا بند نہ کیا، پریس ایڈوائس اوردھونس کے باوجود خبر کا بلیک آؤٹ نہ کیا بلکہ گردن جھکانے کی بجائے گردن اٹھا کر آزادی کی منزل کی طرف مردانہ وار چلتے رہے۔ آزادی صحافت کے قافلے کی اس عظیم جدوجہد کے باوجود بھی ہم ابھی تک اقوام عالم میں150ویں نمبر تک ہی پہنچ پائے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جن کے قبضے میں اختیار و اقتدار کے سنگھا سن ہیں مگر وہ نہتے صحافیوں اور محض کیمرے سے مسلح فوٹو جرنلسٹس سے کس قدر خوفزدہ بلکہ دہشت زدہ ہیں اس کو جاننے کے لئے نہ کسی تفتیش کی ضرورت ہے، نہ کوئی تحقیق درکار ہے بلکہ اس کا ایسا ثبوت جس نے مشرف سرکار کے ریکارڈ کو وینز ویلا سے بھی آگے پہنچا دیا ہے وہ پیمرا آرڈیننس کی یکطرفہ ظالمانہ، جابرانہ، آمرانہ بلکہ بے رحمانہ ترامیم ہیں جو پاکستان کے قلم بردار لشکر کی پیشرفت کے نتیجے میں اب پسپائی کی راہ پر ہے اس کے نتیجے میں جدید الیکٹرانک صحافت کے دور میں پہلی دفعہ ایک نہیں، ایک درجن نہیں بلکہ کئی درجن ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اور چینلز عسکری سرکار کی ”سینسرزدگی“ کا شکار ہوئے۔ اس دوران میرے محترم دوست اور آزادی صحافت کے ایک اہم نشان ڈاکٹر شاہد مسعود کے لئے ”لٹھا“ تیار کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جیو سمیت ملک بھر کے آزاد میڈیا سینٹروں پر شب خون مارے گئے اور آزادی صحافت کی گردن پر پیمرا کا چھرا آزمایا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مغرب جوہیوگوشاویز کے وینز ویلا میں صرف ایک عدد ٹیلی ویژن چینل بند ہونے پر چیخ چیخ اور تڑپ تڑپ اٹھا ہے اسے اپنے عزیز از جہاں جنرل مشرف کے پاکستان میں درجنوں ٹی وی چینلوں پر سرکاری قوت کے شب خون اور ان کی بندش کی خبر پہنچ چکی ہوگی اور جس طرح ان ملکوں کی صحافتی تنظیموں، اظہار رائے کا احترام اور اس کی حفاظت کرنے والے مسلمہ اداروں اور سول سوسائٹی کے دوسرے حریت پسند افراد نے اس بندش کو لفظوں اور آوازوں کی دنیا کی آنکھ بند کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آزادی اظہار پریس کی آزادی اور آزادی تقریر و تحریر اور انفارمیشن کی آزادی اور اطلاعات کا حق اب بارڈرز کراس کر چکا ہے اس عالمی، انسانی، بنیادی حق کو روکنا کسی کے بس میں نہیں رہا ہے۔ ایک طرف مشرف سرکار کے ان گنت وزیر میڈیا کی بے انت آزادی پر کریڈٹ حاصل کرتے نہیں تھکتے ، دوسری طرف جب یہی سرکار” پروڈا، ٹاڈا اور پراڈا“ جیسے آزادی کش اورصحافت کش، حرف کش اور صوات کش قانون سامنے لاتی ہے تو آزادی اظہار کے حق میں چیخنے والے وزراء کے گلے میں ضرورتیں، خواہشیں اور ملازمتیں پھنس جاتی ہیں اور یوں ان کی آواز ان کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کو آزادی صحافت سمیت جو ریکارڈ قائم کر کے دیئے اور وہ نا قابل تسخیر عالمی اعزازات دلوائے جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں ایسے میں، میں صرف دعا ہی کر سکتا ہوں کہ 2008ء میں سرحدوں سے ماورا نامی عالمی صحافتی تنظیم کی طرف سے پاکستان میں آزادی اظہار رائے اور تحفظ صحافت کے حوالے سے جو فہرست بنے گی اس میں پاکستان کا نمبر350سے نیچے نہیں جائے گا اور نہ ہی یہ تنظیم پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہونے والی سرکاری گفتگو اور اشارے یاد رکھے گی کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ بھی اس روشن خیال، معتدل مزاج اور منصفانہ اور عادلانہ گورننس کا کمال ہوگا کہ محض ایک جست میں پاکستان150ویں سے 350ویں نمبر پر پہنچ جائے گا۔حکمرانوں کے سمجھنے کی بات صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جبرکا جو تسلسل جاری ہے یہ لفظوں کو زنجیروں اور آوازوں کو ہتھکڑی نہیں پہنا سکتا، سوچنے کی بات قوم کی تنخواہوں پر پلنے والے مشیروں کے لئے ہے کہ وہ پاکستان کو پہلے ناکام ریاستوں کی فہرست میں ، پھر کرپٹ ترین ممالک کی لائن میں، پھر کمزور ترین کرنسی والوں کی لسٹ میں اور اب بدنام ترین اینٹی صحافیانہ قوانین بنانے والے ملکوں کی صف میں”اسفل ترین“ درجے پر دھکیلنے میں کیوں مصروف ہے…؟ یہ کمپیوٹر بردار، دہری شہریتیں رکھنے والے مشیر چاہے جتنا زور لگالیں تاریخی عمل کے سفر کو پیچھے کی طرف دھکیل کر الٹا نہیں چلا سکتے۔ مجھے لفظی امید نہیں قلبی یقین ہے کہ تمام تر مصائب اورجبروت کے باوجود بے نوا اور بے آوازطبقات کو آواز اوراظہار کی نعمت سے نوازنے والے قلم کے مجاہدوں کا یہ سفر جاری رہے گا۔ درشہوار تو صیف کے بقول سکوتِ شب میں تارا بولتا ہے مسافر چپ ہیں، رستہ بولتا ہے۔

بشکریہ: روزنامہ “جنگ“ کراچی۔
16 جون 2007ء، سنیچر
 
Top