(میر تقی میر) منقبت در مدحِ امیر المومنین حضرت علیؑ

منہاج علی

محفلین
گاہ بے گاہ کر علیؑ خوانی
ہے علی دانی ہی خدا دانی

مہر کا اس کی رہ سرآشفتہ
ہے ولاے علیؑ‘ مسلمانی

فرشِ راہِ علیؑ کر آنکھوں کو
یوں بچھا تو بساطِ ایمانی

مورِ بے زور ہو علیؑ کا تُو
کہ جہاں میں کرے سلیمانی

چاہ میں اس کی آپ کو گم کر
تا کہیں تجھ کو ماہِ کنعانی

ہے وہی مہرِ چرخ عرفاں کا
ہے وہی شاہِ ظلّ ِ سبحانی

قامت آراے کبریا حق کا
چہرہ پردازِ نورِ یزدانی

ہاتھ اس کا وہی خدا کا ہاتھ
بات اس کی کلامِ ربّانی

شوقِ مفرط سے ہے یہ طرزِ سخن
گو برا مانے کوئی مروانی
 
Top