میرے زمانے کی دِلّی ۔ ملا واحدی دہلوی از چوہدری لیاقت علی

میرے زمانے کی دِلّی ۔ ملا واحدی دہلوی
از
چوہدری لیاقت علی

صورت گر

سید محمد ارتضیٰ 17 مئی1888ءمیں پیدا ہوئے۔ رفاقت، ادارت اور تحریر کے امتزاج سید محمد ارتضیٰ کو آج دنیا ملا واحدی کے نام سے جانتی ہے۔ اپنے مرشد خواجہ حسن نظامی کی رفاقت کا فیض انہوں نے واحدی نام سے ایسا حاصل کیا کہ اصل نام تو دب گیا مگر مرشد کی عطا کا فیض آج بھی جاری و سار ی ہے۔ مگر ان کی رفاقت صرف نظامی صاحب سے نہیں بلکہ ان کی جنم بھومی دِلّی بھی اس میں شامل ہے۔ میرے نزدیک ملا واحدی اور دِلّی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اگر ان سے دِلّی نکال لی جائے تو نہ ملا واحدی ، واحدی رہیں گے اور نہ ان کی تحریر میں وہ چاشنی رہے گی جو دِلّی کا ذکر کرتے ہوئے آتی ہے۔ پندرہ برس کی عمر سے انہوں نے اخبارات اور جرائد میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ جن میں ماہنامہ ”زبان“ دہلی، ماہنامہ ”وکیل“ امرتسر، ہفتہ وار ”وطن“ لاہور اور روزنامہ ”پیسہ اخبار“ لاہور جیسے اخبارات و جرائد شامل تھے۔ جولائی1909ءمیں جب خواجہ حسن نظامی نے حلقہ نظام المشائخ کے مقاصد کی تبلیغ کے لیے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی ان کے نائب مدیر کی حیثیت سے ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔1912میں جب خواجہ صاحب نظام المشائخ کی ملکیت سے دستبردار ہوگئے تو واحدی صاحب نے نظام المشائخ کے ساتھ کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا ۔ اسی دوران انہوں نے چند اور رسالے بھی جاری کئے۔ایک وقت میں وہ نو مختلف رسالوں کے مدیر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ملا واحدی پاکستان چلے آئے اور پھر یہاں سے جنوری1948ءمیں کراچی سے ”نظام المشائخ“ ازسرنو جاری کیا جو 1960ءتک جاری رہا۔ ان کی تصانیف میں حیات سرور کائناتﷺ (تین جلدیں)، سوانح حسن نظامی، سوانح اکبر الہ آبادی اور میرے زمانے کی دلی شامل ہیں۔ انہوں نے روزنامہ نوائے وقت میں برسوں تاثرات کے نام سے ایک کالم لکھاجسے بعد میں کتابی شکل بھی دی گئی۔22 اگست1967ءکو دلی کے اس شیدا نے وفات پائی۔ملا واحدی کے انداز تحریر اور ان کی پوری ذات کو مختار مسعود نے یوں سمیٹا ہے۔

اکثر تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ مصنف کی ذات ان میں ڈھکی چھپی رہتی ہے اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ مصنف کو ان سے علیحدہ کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ واحدی صاحب اپنی تحریروں میں نمایاں رہتے ہیں۔ ان کی تحریر ایک طرز نگارش سے زیادہ ایک طرز حیات سے عبارت ہے۔ مغلیہ تہذیب کی وراثت، خاندانی شرافت کا سرمایہ، مرشد کی خاص عنایت، مشاہیر سے ہر وقت کا تعلق، لکھنے پڑھنے کا شوق اور کاروبار، محنت کی عادت،معاملگی کی دیانت،عہد کا پاس، عروس البلاد سے وابستگی، دین کا ذوق، حضورﷺ کی محبت اور خدائے بزرگ و برتر کے فضل و کرم پر ایمان کامل ہو تو لکھنے والے کی ذات تحریر کے ہر لفظ اور فکر کے انداز میں جھلکتی ہے۔ ساری عمر ایک خاص ڈھب سے بسر ہو تو سوچ کا یہ ہمہ گیر پختہ اور یکساں انداز نصیب ہوتا ہے۔

اورق میں بکھرے لوگ

میرے زمانے کی دِلّی بھی دراصل ملا واحدی کی ذات ہی کا ایک عکس ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر واحدی صاحب سے جہاں عقیدت بڑھتی ہے وہیں،ان پر رشک بھی آتا ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے شہر کے بارے میں ایسا لکھ سکیں ۔ میرے زمانے کی دِلّی ایک کتاب نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نوحہ ہے۔ عروس البلاد ، دِلّی جو میر تقی میرو غالب کی بھی کمزوری تھی۔ جہاں مغلیہ تہذیب اپنی چھب دکھلا دکھلا کر سب کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ یہ دِلّی نہیں بلکہ کوہ ندا تھا جو سبھی کو اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ میرے زمانے کی دِلّی، دِلّی اور دِلّی والوں کے بارے میں ایک دِلّی والے کی داستان ہے۔ اس داستان میں داستان گو نے اتنے رنگ گھول دیئے ہیں کہ مصنف کی ذات اور دِلّی اتنے لازم و ملزوم ہو گئے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نظر نہیں آتے اور مختار مسعود کی بات کی مکمل تصدیق ہو جاتی ہے کہ ملا واحدی اپنی تحریر میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب جو دراصل دِلّی اور دِلّی والوں کا تذکرہ ہے شروع سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کتاب میں دِلّی چھوڑنے سے پہلے کو واقعات دراصل ہندو مسلم فسادات کا ایک رپورتاژ ہے۔ اپنی آنکھوں سے جو انہوں نے دیکھا وہی بیان کر دیا۔ اگرچہ گاندھی جی بھی شہر میں موجود تھے اور چند ذی حیثیت مسلمانوں کی کا وشوں سے دِلّی کے مسلم خاندانوں کی حفاظت پر سپاہی بھی تعینات ہوئے،تاہم جب بلوائی آتے ہندو سپاہی اور فوجی ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر ہی گولیاں برساتے۔ ابتدا واحدی صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ دِلّی نہیں چھوڑیں گے، مگر حقیقت کا سامنا کرنے پر انہوں نے بھی اپنی محبوبہ دِلّی کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ دوسرے باب میں انہوں نے دِلّی چھوڑنے کے بعد کی داستان بتائی۔کس طرح انہیں راولپنڈی میں قیام کرنا پڑا، وہاں سے لاہور اور پھر کراچی میں قیام، کراچی میں سرکاری رہائش گاہ کا حصول اور پھر یہاں قدم جمانے کی مصروفیات بیان کی ہیں۔ اگلے باب میں انہوں نے دِلّی کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے:

دِلّی جب سے دِلّی بنی۔ راجاﺅں اور بادشاہوں کی راج دھانی رہی اور ہمیشہ راجاﺅں اور بادشاہوں کے مقرب اور متوسل دِلّی میں بسا کیے۔ اس لیے ہمیشہ سارے ملک کی نگاہیں دِلّی کی طرف اٹھتی اور دِلّی کی طرف کھنچتی رہیں۔ کوئی تو مرکزہونا چاہیئے۔ نگا ہوں کو کسی طرف تو اٹھنا اور کھنچنا چاہیئے اور راجاﺅں اور بادشاہوں کے سوا مرکزی مقام کون سا ہو سکتا ہے۔
اسی باب میں ایک جگہ مزید لکھتے ہیں:

اب ہم یہی کر سکتے ہیں کہ دِلّی کی تصویر کو محفوظ کر دیں، تا کہ آنے والی نسلیں اس تصویر سے تھوڑا بہت اندازہ لگالیںکہ ہماری دِلّی کیا تھی۔ ورنہ آنے والی نسلیں، آج کل کے بچے بھی دِلّی نہیں جانیں گے۔

اس سے اگلے باب میں انہوں نے دِلّی کے نو زخم کی صورت میں وہ نو مواقع بیان کیے ہیں جب دِلّی دارالسلطنت نہیں رہی۔ اس کے بعد وہ باب شروع ہوتا ہے جس ایک طویل بیانیہ ہے پہلے اپنا آپ دکھلایا پھر دِلّی اور دِلّی والے دکھلائے۔ ملا واحدی کا خاندان فوجدار خان والا کہلایا کرتا تھا۔ مغلوں نے بخارا سے نجیب الطرفین سید منگوائے۔ ایک جامع مسجد کے امام، ایک عید گاہ کے امام اور ایک ہاتھی پر مہابت اور بادشاہ کے درمیان بیٹھنے کے لئے۔ سید کے سوا کس کی مجال تھی کہ بادشاہ کی طرف نماز میں بھی پشت کرے۔ ایک سید جو بادشاہ اور مہابت کے درمیان حجاب کا کام دیتا تھا فوجدار خاں کہلاتا تھا۔ ملا واحدی کی پر دادی آخری فوجدار خاں کی لڑکی تھیں۔ بقول مختار مسعود واحدی صاحب کو ماضی کی طرف منہ کر کے دیکھنے اور لکھنے کی عادت شاید ورثے میں ملی ہے۔ اس طویل بیانیے میں جو ان کی ذات سے شروع ہو کر دِلّی کے مسلم اکثریتی علاقوںاور دِلّی والوں کے ذکر پر ختم ہو تا ہے۔ ایک عجیب سی کشش ہے۔ ملا واحدی کی تحریر میں بڑی روانی ہے اور خاص طور پر جب ان کی محبوبہ دِلّی کا ذکر ہو تو ان کا قلم ایسے ایسے رنگ گھولتا ہی کہ ہر ذرہ آفتاب نظر آتا ہے۔ اس تذکرے میں انہوں نے دِلّی کے ان علمی اداروں کا ذکر کیا ہے کہ جن کی ضو سے ایک ایسی نسل تیار ہوئی جو ہماری سرمایہ افتخار ہے۔ انہوں نے اتنی شخصیات کا ذکر کیا ہے کہ اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو کئی صفحات بھر جائیں۔دِلّی کے اشراف سے لے کر ادنیٰ پیشوں سے متعلق افراد اور اشخاص کا ذکر ایسا کہ ہر سطر سے محبت اور لگاﺅ پھوٹتا محسوس ہوتا ہے۔

سید محمد اتضیٰ المعروف ملا واحدی کی کتاب میرے زمانے کی دِلّی ایک ایسی مشین ہے جس میں قاری سفر کرتا ہوا ان کے زمانے میں داخل ہو جاتا ہے اور اپنی آنکھوں سے وہ تمام علاقے، عمارات اور شخصیات کو دیکھ لیتا ہے جیسے واحدی صاحب دکھلا نا چاہتے ہیں۔ ان کی جزئیات نگاری اور منظر کشی اس کمال کی ہے کہ ہر مذکوہ علاقہ، عمارت اور شخص زندہ و جاوید نظر آتا ہے۔ اوراق میں ایسے ایسے لوگ بکھرے نظر آئیں گے جونا صرف ایک مثال ہیں بلکہ قابل تقلید ہیں۔ میرے زمانے کی دِلّی ایک ہمہ جہت کتاب ہے، جس سے وہ وجہ سمجھ آتی ہے جس کی بدولت میر نے اسے عالم میں انتخاب کہااور ملا واحدی اس کے عشق میں مبتلا رہے۔
 
آخری تدوین:
Top