میر مہدی مجروح میرے دل میں تو ہرزماں ہو تم - میر مہدی مجروح

کاشفی

محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
میرے دل میں تو ہرزماں ہو تم
چشمِ ظاہر سے کیوں نہاں ہو تم
بیوفائی کا عیب کیا ہے
یہ تو سچ ہے کہ میری جاں ہو تم
جب چلو ٹیڑہی کی چلتے ہو
میرے حق میں تو آسماں ہو تم
دل و دیں دونوں نذر کرتا ہوں
ایسی چیزوں کے قدرداں ہو تم
دیکھ غمگیں مجھے بگڑتے ہو
پرلے درجے کے بدگماں ہو تم
عرش پیمائیے خیال عبث
کون پہنچا، وہاں جہاں ہو تم
بات میں دل کو کھنچ لیتے ہو
کس قیامت کے خوش بیاں ہو تم
ہے سوال اور، اور جواب ہے اور
سچ کہو اس گھڑی کہاں ہو تم
بچئے، اغیار کی نظر نہ لگے
چشمِ بددور، نوجواں ہو تم
دشمنی ہم کریں تو کس کس سے
ایک عالم پہ مہرباں ہو تم
زلف کے بار سے کمر لچکے
کس قدر نازک اے میاں ہو تم
دیکھنے کی مجال ہے کس کو
مثلِ خورشید گو عیاں ہو تم
ہے وہی ٹھیک جو کہو مجروح
کیوں نہ ہو صاحبِ زباں ہو تم
 
Top