میری پسند

سفر میں دھوپ تو ہو گی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بِھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گِرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا
خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی، کُچھ خواب، چند اُمیدیں
انہی کِھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
 
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شب فرقت والوں سےوہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں
پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دوسنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیںکچھ حسن و عشق میں فرق نہیں ہے بھی تو فقط رسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں
تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
 
اب تیری یاد سے وخشت نہیں ہوتی مجھ کو
زخم کُھلتے ہیں، اذیت نہیں ہوتی مجھ کو
اب کوئی آئے، چلا جائے، میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلہ ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں شاہد
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
 
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر ، تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم، نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے، بے وضو ہی سہی
دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکرِ وطن اپنے روبرو ہی سہی
 
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکِھا تھا

میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے
بار امانت سر پہ لیا تھا

میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو
جن ِ و ملَک نے سجدہ کیا تھا

توُ نے کیوں مِرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا

جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا وہ بھی تیرا تھا

تُجھ بن ساری عُمر گزاری
لوگ کہیں گے توُ میرا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا

ناصر کاظمی
 
Top