میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں !

khabarkahani

محفلین
تحریر: حرا سعید

پولنگ ختم ہوئی اورپاکستان کے گیارہویں عام انتخابات کا اہم ترین مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ عوام نے بڑی تعداد میں حق رائے دہی کا استعمال کیا جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ شروع ہوا۔ گھڑی نے سات بجائے اور غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج آنا شروع ہوئے۔

سیاسی منظر میں بڑی تبدیلی آئی اور حیران کن نتائج کے ساتھ مختلف ٹی وی چینلز نے دلچسپ سرخیاں جمائیں۔ معروف سیاسی شخصیات کو اپنے اپنے روایتی حلقوں سے شکست ہوئی اور دیگر امیدوار خلاف توقع عوامی نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

پاکستان تحریک انصاف ملک کے مختلف حصوں سے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ وزارت عظمٰی کے لئے تمام جماعتوں کی پنجہ آزمائی اپنی تکمیل کو پہنچی اور پچیس جولائی کو عوامی عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو کپتان کے ستارے عروج پر تھے۔

بس پھر کہیں جشن کا سماں تھا تو کہیں دھاندلی کا ڈھنڈورا پٹ رہا تھا۔ چند گھنٹے گزرے ہی تھے کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایجنٹوں کو فارم 45 نہ ملنے، نتائج روکے جانے اور پولنگ ایجنٹوں کی غیر موجودگی میں ووٹ گنے جانے کے الزامات اور فوری ایکشن کے مطالبات زور پکڑ گئے۔ الیکشن ایک مرتبہ پھر مشکوک قرار پائے۔

الیکشن 2018 میں بھی عوام کا جوش و جذبہ دیدنی رہا۔ جہاں بڑی تعداد میں ملک کے کونے کونے سے خواتین ووٹروں نے بھرپور ا نداز میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا وہیں نوجوانوں نے بھی ووٹ کو بھرپور عزت دی۔ اور تو اور سیاسی سمجھ بوجھ، سوچنے پرکھنے اور ٹٹولنے سے عاری بچے بھی پر بھی سحر طاری ہو گیا۔

نتائج کے چند گھنٹے بعد ہی عوامی مینڈیٹ کی چوری کا واویلا مچ گیا۔ پہلے پہل تو سیاسی جماعتوں کا یہ ردعمل شکست خوردہ فریق کا روایتی عمل لگا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا سوچ کے بند دروازے کھلنے لگے اور دال میں کچھ کالا لگنے لگا۔ استحصال کے گھٹاٹوپ اندھیرے ابھی بھی باقی ہیں۔ تبدیلی کا تصور منہ چڑھانے لگا اور ووٹر کے ہاتھ مایوسی کے سوا پھر کچھ نہ آیا۔

اس نئے پاکستان میں حالات پرانے پاکر ذہن میں کئی سوالات گردش کرنے لگے۔ کہتے ہیں ووٹ ایک قومی فریضہ ہے، ضمیر کی آواز ہے، جمہوریت میں انتقال حاکمیت کا ذریعہ ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے، طویل سوچ بچار کے بعد اپنے من پسند امیدوار کو چنا تو پتہ چلا کہ سردست اس بار بھی ہاتھ کچھ نہ آیا۔ ہم جن امیدوں کے گلستان میں ٹہل رہے تھے، اب انہی کے سراب میں بھٹک رہے ہیں۔

ایک روز اپنے دفتر میں موجود تھی۔ ہر جانب انتخابات ہی موضوع بحث تھے۔ ہم کہ ٹھہرے ووٹر، کنفیوژن کے عالم میں سینئر سے سوال کر بیٹھے کہ ہم بھلا کیوں ووٹ ڈالیں جب حتمی نتائج کسی تیسری قوت کی منشاء کے مطابق ہی ہونے ہیں؟

میرے اس سوال کے جواب میں انہوں نے مجھے انتخابات کا وہ رخ دکھایا جو دھاندلی، بدانتظامی اور عوامی استحصال کے برعکس انتخابی عمل پر میرا یقین اور پختہ کرگیا۔ انہوں نے مجھے یاددہانی کروائی اس صورتحال کی جس کا سامنا گزشتہ انتخابات کے بعد دوسری دنیا پدھار جانے والے عوامی نمائندوں کو اپنے حلقوں میں جانے پر کرنا پڑا۔ جب عام آدمی بے خوف و خطر ایوانوں کی اونچی دیواروں کے اس پار بیٹھنے والوں کو ان کے جھوٹے دعووں اور وعدوں کی یاددہانی کروارہا تھا۔

امیدواروں کو انتخابات سے قبل ووٹرز کو قائل کرنے کے لئے اپنے سہانے خوابوں کی پٹاری لے کر در در جانا پڑا جو ان آنکھوں نے پہلے نہ دیکھا تھا۔ فضاء بدلتی نظر آرہی ہے اور نوجوانوں میں سیاسی شعور کی بیداری ہی نہیں بلکہ عملی سیاست میں کردار بھی واضح رہا۔ سیاست میں یہ نئے چہرے اسٹیٹس کو کے خلاف آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آئے جو عوام کے بنیادی مسائل سے لے کر سیاست میں برداشت اور تحمل مزاجی کے بیانئے کو فروغ دیتے پائے گئے۔

مکمل تبدیلی کا سورج طلوع ہونے میں شاید ابھی تھوڑا وقت مزید درکار ہے اور یہ انتخابات کے تسلسل کے ساتھ انعقاد سے ہی ممکن ہوگا اور تب غیر مرئی قوتوں کو بھی جمہوریت کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔

ہمارے ملک میں بھی جمہوریت کا پیڑ اسی وقت توانا ہوگا جب ہم باقاعدگی سے ہر پانچ سال بعد اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ اور ہماری سیاسی جماعتیں بھی اسی وقت جمہوریت کا ثمر دیں گی جب اس قوم کے ہر فرد میں انقلابی شعور بیدار ہوگا۔ عوام میں قوت سوال پیدا ہوگی تب ہی حکمران ان کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

دیکھ رفتار انقلاب فراق، کتنی آہستہ اور کتنی تیز

ربط
 
Top