میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

سیف خان

محفلین
بے سکون زندگی میں سکون تھا وہ
میرے کچے آشیانے کا ستون تھا وہ

شیر سے ہرن کو کسی روز لڑا دے
میرے واسطے ایسا جنون تھا وہ

اس کے دعوے پہ زمانہ پریشان ہوتا
اپنی باتوں میں کوئی جون تھا وہ

اِک پل نہ رہ سکتا تھا اُس کے بنا
میر ے جسم کے لئے خون تھا وہ

اس کے آنگن کا پھول تھا جو
میری ہر غزل کا مضمون تھا وہ

ملاقات کے لیے مخصوص تھا جو
صاحب اس شہر میں مدفون تھا وہ
 

سیف خان

محفلین
کسی کو الوداع کہنا ، آسان نہیں ہوتا
کسی شام بچھڑ جانا، آسان نہیں ہوتا

اپنے سینے میں کوئی زخم چھپا کر
پھر سر عام مسکرانا آسان نہیں ہوتا

کسی کو زندگی کی حسیں بہار دے کر
بدلے میں کچھ نہ پانا آسان نہیں ہوتا

دہکتی ریت پہ ننگے پاؤں چل کر
ایک آنسو بھی نہ گرانا، آسان نہیں ہوتا

دیدار یار کی خاطر سب قربان کر دینا
کسی کو اس طرح چاہنا آسان نہیں ہوتا

زندگی ساری کسی در پہ نوکری کر کے
خالی ہاتھ واپس آنا، آسان نہیں ہوتا

اشعار میں کہہ گئے نہ سب داستان
صاحب درد کو چھپانا آسان نہیں ہوتا
 

سیف خان

محفلین
نہیں کوئی غریبوں کی ترجمانی کر نے والا
نہیں کوئی اقتدار سے روگردانی کر نے والا

جو اہل تونگر کے ضمیروں کو جگا دے
نہیں کوئی ایسا، شعلہ بیانی کرنے والا

لاکھوں ہیں حُسنِ جاناں پہ لکھنے والے
نہیں کوئی بیان ایسی کہانی کرنے والا

افسوس کہ افسوس ہی کرتے ہیں سب
نہیں کوئی تبدیل اپنی زندگانی کرنے والا

اُنھیں کرب سے نکال کر راحت بخشے
نہیں کوئی ایسا، مہربانی کرنے والا

کسی غریب کے گلشن کو سبز کر دے
نہیں کوئی ایسا، باغبانی کرنے والا

راحتیں چھوڑ کر قوم کے کام آئے
نہیں کوئی ایسا، قربانی کرنے والا

صاحب جو دولت کی فراوانی سے مرے
نہیں کوئی ان کی مرثیہ خوانی کرنے والا
 

سیف خان

محفلین
کبھی سنو میرے دل کی آواز کو
کبھی سنو محبت کے اس ساز کو

روز دعاؤں میں مانگتے ہیں تُجھے
کبھی سنو چاہنے والوں کے راز کو

حُسنِ جاناں کو بے مثال کہتا ہے
کبھی سنو حضور زبان دراز کو

کیوں ہر بار تیرے دربار چلا آتا ہے
کبھی سنو سسکتے ہوئے فراز کو

کیوں شمع پہ جاں وار دیتا ہے
کبھی سنو پروانے کے جواز کو

کیوں بلندی کو نقطہ آغاز رکھتا ہے
کبھی سنو شاہین کہ قصہ پرواز کو

خار میں گلاب کے رنگ ڈال دیتا ہے
کبھی سنو کلامِ صاحب کے انداز کو
 

سیف خان

محفلین
تیری آرزو کیے بغیر کوئی رات نہیں ہوتی
تیرا نام نہ ہو شامل ایسی بات نہیں ہوتی

تیری یادوں کہ بھنور میں کھویا رہتا ہوں
ہوش میں یہ تکلیف برداشت نہیں ہوتی

عجب ہے کہ بے زبان طبیب بھی بول پڑا
مجھ سے مریض کی نگہداشت نہیں ہوتی

میرے چہرے پہ نمایاں ہے کرب کی تصویر
ہر کسی کو دکھاوے کی مہارت نہیں ہوتی

میرا ضبط دیکھو کہ تُو دیکھے یا نہ دیکھے
میرے ہونٹوں پہ کوئی شکایت نہیں ہوتی

نہیں مسلہ ، تنہا غیر کے مقابل جو کھڑا ہوں
ہر شہسوار کو اپنوں کی حمایت نہیں ہوتی

اہل عشق کہتے ہیں خوش نصیب ہو صاحب
اُلفت، محبت ہر شخص کو عنایت نہیں ہوتی
 

سیف خان

محفلین
تُو ہماری خطاؤں پہ پردہ ڈال دے یا رب
بندوں پہ ائی مصیبت اب ٹا ل دے یا رب

بروز محشر یہ بد عملے رسوا نہ پھر یں
نیکیوں پہ مشتمل نامہ اعمال دے یا ربّ

تُو بخشنے کو اک نیکی پہ بخش دیتا ہے
ہمیں بھی بخشش بے مثال دے یا ربّ

صبح شام رہیں تیری رحمت کے سوالی
ہمیں عبادتوں میں استقلال دے یا رب

اپنی جانوں پہ ظلم کرتے عمر گزاری ہے
اب غفلت سے جاگنے کا خیال دے یا رب

تیرا فرمان بھولنے کی بہت سزا پا چکے
اب ہمیں مزید کوئی نہ زوال دے یا ربّ

پرچم اسلام ساری دنیا میں لہرا سکیں
اب مسلمانوں کو ایسا کمال دے یا رب
 

سیف خان

محفلین
میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں
مجھ پہ ربّ کا اک احسان ہیں تیری آنکھیں

بھری محفل میں جو میری جانب اٹھی ہیں
بظاہر محبت کی قدردان ہیں تیری آنکھیں

اُداس آنگن میں روز ہنسی بکھیر جاتی ہیں
میرے نخلستان پہ مہربان ہیں تیری آنکھیں

سر محفل محبت کی داستان کہہ رہی ہیں
دلی کے حال کی ترجمان ہیں تیری آنکھیں

خوشی ادھوری رہنے کا خدشہ بھی لگا ہے
لوگ کہتے ہیں بے ایمان ہیں تیری آنکھیں

میرے دل پہ لگے سب زخم بھر چکے ہیں
کوئی طبیبِ عالی شان ہیں تیری آنکھیں

ہوا، پانی، اناج ضروری ہیں زندگی کے لئے
اِن کے بغیر جینے کا امکان ہیں تیری آنکھیں

مقید ہیں کہیں ان میں سب سانسیں میری
صاحب کے لئے کُل جہان ہیں تیری آنکھیں
 
Top