میری آنکھوں میں روانی ہے ابھی تک ( فاعلاتن فعلاتن فعلاتن)

نوید ناظم

محفلین
میری آنکھوں میں روانی ہے ابھی تک
یہ وہ دریا ہیں کہ پانی ہے ابھی تک

ہم نے چھوڑا تو نہیں اُس کی گلی کو
روز جائیں گے، یہ ٹھانی ہے ابھی تک

صرف ظاہر ہی کے کردار مِٹے ہیں
پر پسِ پردہ کہانی ہے ابھی تک

یادِ آباء ہے پھر کیا ہے، گرا دو!
کیوں یہ دیوار پرانی ہے ابھی تک

ہم کو جس بات پہ وہ چھوڑ گیا تھا
اُس نے وہ بات بتانی ہے ابھی تک

میرے سینے میں ہے لیکن یہ بتا، دل!
میری اک بات بھی مانی ہے ابھی تک؟

چل نوید اُٹھ کہ چلیں میکدہ جلدی
شامِ ہجراں بھی منانی ہے ابھی تک
 

الف عین

لائبریرین
زمین ہی پسند نہیں آئی۔ کچھ جگہ آخری 'تک'اضافی ہے بلکہ غیر ضروری۔ آدھے رکن کی زیادتی سے روانی بھی متاثر ہے۔
 
Top