میرا جسم میری مرضی کا مطلب کیا ہے؟

معذرت اگر اس پہ بحث ہو چکی۔
اس نعرے کے حامی اس کو جنسی حراسگی، تشدد، زبردستی کی شادی کی روک تھام سے جوڑتے ہیں۔ لیکن ان تمام جرائم کے بارے میں واضح قانون اور سزائیں آئین میں موجود ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معاشرہ قوانین کے باوجود رضامند گی کا مطلب نہیں سمجھتا۔ یہ بات کچھ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتی۔ مجھے کوئی مولوی، یا معاشرہ کا عام مرد یا بچہ بھی نہیں ملا جو یہ سمجھتا ہو کہ عورت پر جنسی، یا جسمانی تشدد جائز ہے۔

البتہ جسمانی خودمختاری کے بارے میں جن باتوں کو معاشرہ قبول نہیں کرتا ان میں اپنی رضامند گی سے کسی کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرنے کی آزادی ہے۔ اس معاملے میں قوانین میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔ یہ پابندی دونوں پر ہے۔

جسمانی خود مختاری کا دوسرا پہلو شادی اور جنسی تعلق کو علحدہ علحدہ کرنا ہے۔ یہ کہ شادی جنسی تعلق کی ضمانت یا جنسی تعلق کا حق نہیں دیتی۔ دوم یہ کہ جنسی تعلق شادی سے باہر بھی جرم نہیں۔ اور شادی کے اندر بھی زبردستی کا جنسی تعلق زنا بال جبر کی مانند ہے۔

جسمانی خود مختاری کا تیسرا پہلو جس کی قانون میں اجازت نہیں وہ لواطت کے خلاف قوانین ہیں۔

میری ناقص رائے میں یہی وہ پہلو ہیں جن کو بحث سے ماورا رکھا جا رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسمانی خود مختاری کا دوسرا پہلو شادی اور جنسی تعلق کو علحدہ علحدہ کرنا ہے۔ یہ کہ شادی جنسی تعلق کی ضمانت یا جنسی تعلق کا حق نہیں دیتی۔ دوم یہ کہ جنسی تعلق شادی سے باہر بھی جرم نہیں۔ اور شادی کے اندر بھی زبردستی کا جنسی تعلق زنا بال جبر کی مانند ہے۔

جسمانی خود مختاری کا تیسرا پہلو جس کی قانون میں اجازت نہیں وہ لواطت کے خلاف قوانین ہیں۔
یہی وہ بنیادی دو پہلو ہیں جس پر واضح تقسیم ہے۔ باقی پہلے والے پر تو سب ہی متفق ہیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
ہماری زبان میں زنا، ہم جنس سے شادی، شادی کے بعد بھی دوسرے مرد سے تعلق یا مرد کا کسی سے بغیر نکاح کے تعلق
یہ سب ہمارے ہاں معیوب ہے. کچھ ممالک میں اس کی اجازت ہے مگر ان ممالک میں بھی ہر شخص اس طرح کی زندگی نہیں گزاررہا.
ہمیں ان مسائل کو سمجھنے کے لئے انسان اور معاشرے کا ورلڈ ویو سمجھنے کی ضرورت ہے. اسی سے عقائد بنتے ہیں اور انہیں سے اعمال کا تعین ہوتا ہے. ہم ظاہراً جس چیز کو اپنے حساب سے غلط سمجھتے ہیں وہ چیز کسی مغربی کے لئے ہوسکتا ہے اس کے ورلڈ ویو اور عقائد و نظریات میں ٹھیک ہو. اب آپ کی بات اسے سمجھ ہی نہیں آسکتی.
ہمارا جسم ہماری مرضی میں شادی کے بعد شوہر کا بیوی کا ریپ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی محترمہ فرحت ہاشمی صاحبہ نے کھل کر مخالفت کی ہے.
ہمارے معاشرے میں صرف حق زوجیت کی بات ہوتی ہے اور سزا کے طور پر بستر الگ کرنے کی. مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے. بیوی شوہر پر ریپ کا الزام لگا رہی ہے. چونکہ ہمارے معاشرے میں یہ ایک نسبتاً نئی بحث ہے لہٰذا اس پر تحقیق کی ضرورت ہے اور مفتیان دین کے لئے اچھا topic ہے. انہیں اس پر بحث کرنی چاہیے اور اسے عوام کے سامنے رکھنا چاہیے.
ہر شخص کا اپنا تجربہ ہوتا ہے مگر مجھے اس بارے میں پچھلے سال جولائی میں پتہ چلا. پھر میں نے غور کیا اور سوچا تو اندازہ ہوا کہ یہ ممکن ہے اور مرد کو عورت سے رسما یا غیر رسمی طور پر اس کی مرضی پوچھنی چاہیے اور اس کی کیفیت کو سمجھنا چاہیے. اس معاملے میں عمر کا فرق کافی معنی رکھتا ہے. اگر آپ اپنے سے دس سال بڑی خاتون کے شوہر ہیں تو لازمی طور پر پوچھنا چاہیے اور اگر آپ اس سے دس سال بڑے ہیں تو بھی پوچھ لینا چاہیے. ہوسکتا ہے آپ کو اس کی ضرورت کا اندازہ نہ ہو اور وہ شرما حضوری میں کہ نہ رہی ہو.
 
Top