میرا اور وزیر اعظم کا فلسفہ ہے کہ اب مستحکم گروتھ کی طرف جانا ہے، شوکت ترین

جاسم محمد

محفلین
میرا اور وزیر اعظم کا فلسفہ ہے کہ اب مستحکم گروتھ کی طرف جانا ہے، شوکت ترین
ویب ڈیسک 05 مئ 2021
6092687bb88a0.png

وزیر خزانہ شوکت ترین اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں - فوٹو:ڈان نیوز
وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ان کا اور وزیر اعظم کا فلسفہ ہے کہ ملک کو اب استحکام سے نمو کی طرف لے کر جانا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ہم صنعتوں کی فروغ کی طرف جارہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے سخت شرائط کے باوجود آئی ایم ایف پروگروم کی پروی کی اور ملک کو استحکام کی طرف لے کر گئے'۔

انہوں نے کہا کہ '2008 میں جب آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا اس وقت ماحول مناسب تھا تاہم اب ماحول کچھ اور تھا جس پر آئی ایم ایف نے ہم پر سخت شرائط لگائیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے سخت شرائط پر عمل کیا اور ملک کو استحکام کی جانب لے کر گئے اور جب نمو کی جانب جانا تھا تو ملک میں کورونا آگیا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس بحران کے دوران حکومت نے 1200 کھرب روپے کا پیکج دیا جس سے معیشت میں کچھ بہتری دیکھی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مارچ میں ریونیو گزشتہ سال سے 46 فیصد بڑھا اور 20 اپریل تک 92 فیصد نمو تھی تاہم اپریل کے آخر میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ کم ہوکر 57 فیصد پر آگیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں کورونا سے خطرہ ہے ورنہ ہماری معاشی بحالی کا عمل شروع ہوچکا ہے'۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ 'اس معیشت کو نمو کی جانب لے کر جانا ہے، اس کے لیے ہمیں صنعتوں کو مراعات دینی ہوں گی تاکہ صنعتیں ترقی کریں اور عوام کے لیے روزگار پیدا ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کوشش ہے کہ کورونا کا سایہ کم ہو اور ہم ترقی کی پٹری پر واپس چڑھیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم قیمتوں میں استحکام، سماجی تحفظ، معاشی استحکام، اخراجات کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں'۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'بجٹ میں ایسے پروگرام لائیں گے کہ عام آدمی کو ٹیکس نیٹ میں آنے میں کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایف بی آر میں عوام کو ہراساں کیا جاتا ہے تاہم ایسی پالیسیز لائیں گے کہ جس سے یہ ختم ہوجائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں کسی پر تنقید نہیں کرتا مگر صلاحیت کی ادائیگی ساڑھے 5 فیصد سے بڑھتی رہتی تو ہمیں اسے ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تاہم ہم نے اسے بہت زیادہ بڑھا دیا ہے جس سے اب ہمیں نمٹنا ہوگا'۔
 

جاسم محمد

محفلین
انہوں نے کہا کہ '2008 میں جب آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا اس وقت ماحول مناسب تھا تاہم اب ماحول کچھ اور تھا جس پر آئی ایم ایف نے ہم پر سخت شرائط لگائیں'۔
۲۰۰۸ میں معیشت آمر مشرف چھوڑ کر گیا تھا جبکہ ۲۰۱۸ میں نواز شریف جمہوری انقلابی۔ یہ فرق تھا
 
میرا اور وزیر اعظم کا فلسفہ ہے کہ اب مستحکم گروتھ کی طرف جانا ہے، شوکت ترین
ویب ڈیسک 05 مئ 2021
6092687bb88a0.png

وزیر خزانہ شوکت ترین اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں - فوٹو:ڈان نیوز
وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ان کا اور وزیر اعظم کا فلسفہ ہے کہ ملک کو اب استحکام سے نمو کی طرف لے کر جانا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ہم صنعتوں کی فروغ کی طرف جارہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے سخت شرائط کے باوجود آئی ایم ایف پروگروم کی پروی کی اور ملک کو استحکام کی طرف لے کر گئے'۔

انہوں نے کہا کہ '2008 میں جب آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا اس وقت ماحول مناسب تھا تاہم اب ماحول کچھ اور تھا جس پر آئی ایم ایف نے ہم پر سخت شرائط لگائیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے سخت شرائط پر عمل کیا اور ملک کو استحکام کی جانب لے کر گئے اور جب نمو کی جانب جانا تھا تو ملک میں کورونا آگیا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس بحران کے دوران حکومت نے 1200 کھرب روپے کا پیکج دیا جس سے معیشت میں کچھ بہتری دیکھی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مارچ میں ریونیو گزشتہ سال سے 46 فیصد بڑھا اور 20 اپریل تک 92 فیصد نمو تھی تاہم اپریل کے آخر میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ کم ہوکر 57 فیصد پر آگیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں کورونا سے خطرہ ہے ورنہ ہماری معاشی بحالی کا عمل شروع ہوچکا ہے'۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ 'اس معیشت کو نمو کی جانب لے کر جانا ہے، اس کے لیے ہمیں صنعتوں کو مراعات دینی ہوں گی تاکہ صنعتیں ترقی کریں اور عوام کے لیے روزگار پیدا ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کوشش ہے کہ کورونا کا سایہ کم ہو اور ہم ترقی کی پٹری پر واپس چڑھیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم قیمتوں میں استحکام، سماجی تحفظ، معاشی استحکام، اخراجات کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں'۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'بجٹ میں ایسے پروگرام لائیں گے کہ عام آدمی کو ٹیکس نیٹ میں آنے میں کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایف بی آر میں عوام کو ہراساں کیا جاتا ہے تاہم ایسی پالیسیز لائیں گے کہ جس سے یہ ختم ہوجائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں کسی پر تنقید نہیں کرتا مگر صلاحیت کی ادائیگی ساڑھے 5 فیصد سے بڑھتی رہتی تو ہمیں اسے ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تاہم ہم نے اسے بہت زیادہ بڑھا دیا ہے جس سے اب ہمیں نمٹنا ہوگا'۔
تین سال سے بھاڑ جھونک رہے تھے بھڑبھونجے!

نوٹ: بھاڑ جھونکنے والے کو سلیس اردو میں بھر بھونجا کہتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
تین سال سے بھاڑ جھونک رہے تھے بھڑبھونجے!

نوٹ: بھاڑ جھونکنے والے کو سلیس اردو میں بھر بھونجا کہتے ہیں۔
کورونا زدہ مریض کو پہلے آکسیجن دے کر اسٹیبل کیا جاتا ہے۔ اور پھر گلوکوز لگا کر بحال کیا جاتا ہے۔
عمران خان کو ۲۰۱۸ میں کورونا زدہ بیمار معیشت ورثہ میں ملی۔ اسے تین سال آئی ایم ایف کی آکسیجن دے کر اسٹیبل کر لیا گیا ہے۔ اب گلوکوز لگانے کیلئے ڈاکٹر شوکت ترین کو لایا گیا ہے تاکہ معیشت بحال (گرو) کر سکے۔
 

علی وقار

محفلین
کورونا زدہ مریض کو پہلے آکسیجن دے کر اسٹیبل کیا جاتا ہے۔ اور پھر گلوکوز لگا کر بحال کیا جاتا ہے۔
عمران خان کو ۲۰۱۸ میں کورونا زدہ بیمار معیشت ورثہ میں ملی۔ اسے تین سال آئی ایم ایف کی آکسیجن دے کر اسٹیبل کر لیا گیا ہے۔ اب گلوکوز لگانے کیلئے ڈاکٹر شوکت ترین کو لایا گیا ہے تاکہ معیشت بحال (گرو) کر سکے۔
معیشت جن عبقریوں نے ٹھیک کر کے دینی تھی، وہ ایک ایک کر کے ہاتھ کھڑے کرتے جا رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کے پاس کوئی ایسی خاص ٹیم نہیں جو معیشت کے معاملات کو ٹھیک کر سکے۔ اب تو خیر جو حالت ہے، جو بھی حکومت آئی، اس کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
معیشت جن عبقریوں نے ٹھیک کر کے دینی تھی، وہ ایک ایک کر کے ہاتھ کھڑے کرتے جا رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کے پاس کوئی ایسی خاص ٹیم نہیں جو معیشت کے معاملات کو ٹھیک کر سکے۔ اب تو خیر جو حالت ہے، جو بھی حکومت آئی، اس کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔
معیشت مستحکم تو کردی گئی ہے۔ اور کتنا ٹھیک کرے؟ باقی جہاں تک سوال ہے مہنگائی اور بیروزگاری کا تو وہ ن لیگی جگاڑ لگا کر ٹھیک نہیں کی جا سکتی۔
زرداری حکومت نے مینج ایبل کرنٹ اکاؤنٹ چھوڑا تھا۔ فارن ایکسچینج کم ضرور تھا مگر اتنا نہیں کہ ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ اس کی کمی کو جلد ہی آئی ایم ایف سے آسان شرائط پر قرض لے کر پورا کر دیا گیا۔ یوں ۲۰۱۴ تک نواز شریف حکومت کو معیشت کے حوالہ سے کسی بڑے بحران کا سامنا نہیں تھا۔ مگر پھر ان کی عبقری معاشی ٹیم مہنگائی کم اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے چکر میں پوری معیشت کا گینگ ریپ کر دیتی ہے۔
زرداری حکومت نے ۲ ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھوڑا تھا، نواز شریف حکومت اسے بڑھا کر ۲۰ ارب ڈالر تک لے گئی
زرداری حکومت ۲۵ ارب ڈالر پر برآمداد چھوڑ کر گئی تھی، نواز شریف حکومت اسے گرا کر ۲۰ ارب ڈالر تک لے آئی
زرداری حکومت میں درآمداد ۴۵ ارب ڈالر تک تھی، نواز شریف حکومت اسے ریکارڈ ۶۰ ارب ڈالر تک لے گئی
یوں محض تین سال میں معیشت کا دیوالیہ نکال کر وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو ۲۰۱۷ میں ہی وزیر اعظم کے جہاز پر ملک سے فرار ہو گیا۔ جبکہ اس کو لگانے والا سزا یافتہ مجرم نواز شریف ۲ سال بعد جیل سے لندن فرار ہوا۔ پیچھے ان کے دم چھلے، چمچے، کڑچھے عوام کو جمہوری انقلاب کے نام پر بیوقوف رہے ہیں۔ اور لوگ بیوقوف بن بھی رہے ہیں۔





 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اب تو خیر جو حالت ہے، جو بھی حکومت آئی، اس کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔
اگر ۲۰۲۳ میں دوبارہ ن لیگ کی حکومت آئی تو اسحاق ڈار فارمولہ پر چلتے ہوئے ۲۰۲۸ تک پھر سے ملکی معیشت کا گینگ ریپ کر کے جائے گی۔







عوام کو ریلیف (مہنگائی و بیروزگاری میں کمی) دینے کا بھی ایک سائنسی معاشی طریقہ و سلیقہ ہوتا ہے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ عوام کو ریلیف دیتے دیتے پوری قومی معیشت کی بینڈ بجا دو؟ ن لیگی منشور میں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
تین سال سے بھاڑ جھونک رہے تھے بھڑبھونجے!

نوٹ: بھاڑ جھونکنے والے کو سلیس اردو میں بھر بھونجا کہتے ہیں۔
آپ نے اچھا کیا ساتھ وضاحت لکھ دی قبلہ خلیل صاحب، وگرنہ اس "بھڑ بھونجے" میں بھ اور ڑ کی ایسی تکرار ہے کہ گالی سے جا لگا کھاتی ہے۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
اگر ۲۰۲۳ میں دوبارہ ن لیگ کی حکومت آئی تو اسحاق ڈار فارمولہ پر چلتے ہوئے ۲۰۲۸ تک پھر سے ملکی معیشت کا گینگ ریپ کر کے جائے گی۔
بی بی سی کا ایک پرُانا کالم آپکی نذر؀
’اسحاق ڈار کا وزیر خزانہ ہونا نقصان دہ ہے‘
  • سارہ حسن
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام،اسلام آباد01
_98251739_e382b4ad-93c8-490c-ae7d-980ed82343b1.jpg

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن
اسحاق ڈار پر آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے
مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی ہے

'پاکستان کی معیشت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ خود سے قرض ادا کر سکے ایک قرض اتارنے کے لیے دوسرا قرض لینا پڑے گا'

یہ کہنا ہے کہ اقتصادی ماہر اے بی شاہد کا جن کے بقول حکومتی عدم توجہی اور غلط عادات کی وجہ سے معیشت اس نہج پر پہنچی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب بیرون ملک سے حاصل ہونے والی آمدن جیسے برآمدت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں کمی آ رہی ہے اور خسارہ بڑھ رہا ہے تو نہ صرف بین الاقوامی مالیاتی ادارے بلکہ اقتصادی ماہرین بھی موجودہ صورتحال پر تشویش کا شکار ہیں۔

'پاکستانی معیشت کو اب بحران کے خدشے کا سامنا نہیں'

اشتہار
معیشت کی ڈوبتی کشتی سنبھل گئی ہے: اسحاق ڈار کا دعویٰ

اقتصادی ترقی کا ہدف پورا نہیں ہو سکتا: سٹیٹ بینک

مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران پاکستان کی برآمدات ساڑھے تین ارب ڈالر اور درآمدات نو ارب 78 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ جولائی اور اگست میں مجموعی تجارتی خسارہ چھ ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے جو گذشتہ سال سے 33 فیصد زیادہ ہے۔

سٹیٹ بینک کے پاس موجود غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر کی سطح سے بھی نیچے آ گئے ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں بھی کمی آ رہی ہے۔ ان تمام عدم توازن سے مجموعی خسارہ بڑھ رہا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو ارب 60 کروڑ ڈالر ہو گیا۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس بات کی نشاہدہی کرتی ہے کہ پاکستان کے اخراجات زیادہ ہیں اور آمدن کم۔ اسی لیے قرض لے کر گزارہ ہو رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان سالانہ پانچ سے چھ ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کی مد میں ادا کرتا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے اُسے غیر ملکی کرنسی یعنی ڈالر چاہیے ہوتے ہیں، باہر سے آنے والے ڈالر اتنے ہی ہیں کہ بیرون ملک سے خریداری بھی کر سکیں اور قرض بھی ادا کریں۔

جس معیشت کے نگران خود ہی مختلف مقدمات کی زد میں ہوں تو پھر معیشت کا پہیہ خود بخود چلنے کے بجائے اٹک اٹک کر رکنا شروع ہو جاتا ہے۔

پاناما کے شور شرابے میں جب یکم جولائی کو نئے مالی سال کا آغاز ہوا تو پاناما لیکس کی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں نواز شریف تو نااہل قرار دیے جانے کے بعد گھر چلے گئے لیکن اسحاق ڈار تاحال وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی بذات خود اسحاق ڈار کو مستعفیٰ ہونے کی تجویز دی تھی۔

_98251736_0565c914-673b-460e-a5df-765c2fb5fbc9.jpg

،تصویر کا ذریعہAFP

متعدد بار وزارتِ خزانہ کی باگ دوڑ سنبھالنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی ہے گو کہ وہ صحتِ جرم سے انکار کرتے ہیں لیکن نیب کی عدالت میں اُن کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے۔

اے بی شاہد کا کہنا ہے کہ 'جس ملک کے وزیر خزانہ پر خود فردِ جرم عائد ہو، الزامات کا سامنا ہو وہ کیسے بین الاقوامی اداروں کے سامنے پاکستان کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ ڈار صاحب کا وزیر خزانہ ہونا پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔'

یاد رہے کہ عالمی بینک نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے مالیاتی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اقتصادی ماہر خرم شہزاد کے مطابق اگر مالیاتی عدم استحکام ایسے ہی برقرار رہا اور تجارتی خسارہ بڑھتا رہا، تو روپے کی قدر میں کم ہو سکتی ہے، جس سے مہنگائی بڑھے گی اور شرح سود میں اضافہ ہو گا۔
’ڈار کا وزیر خزانہ ہونا نقصان دہ ہے‘ - BBC News اردو
 
آپ نے اچھا کیا ساتھ وضاحت لکھ دی قبلہ خلیل صاحب، وگرنہ اس "بھڑ بھونجے" میں بھ اور ڑ کی ایسی تکرار ہے کہ گالی سے جا لگا کھاتی ہے۔ :)
اسی ڈر سے لکھ دیا۔ ہمارے ایک باس کا تکیہ کلام بھڑ بھونجے تھا۔ بعد میں ہم ان سے گفتگو کرنے والوں کو اس کا مطلب بتایا کرتے کہ وہ اس لقب کو گالی سمجھ کر دل پر نہ لیں
 

الف نظامی

لائبریرین
جلد ہی کوئی بھڑ بھونجا یہاں موجود ہوگا بھڑبھونجے گرافس کے ساتھ کہ بھاڑ جھونکنے میں کتنی ترقی ہوئی :confused:
 

جاسم محمد

محفلین
جلد ہی کوئی بھڑ بھونجا یہاں موجود ہوگا بھڑبھونجے گرافس کے ساتھ کہ بھاڑ جھونکنے میں کتنی ترقی ہوئی :confused:
آپ اربوں ڈالر قرض سے بنی اورنج ٹرین، جنگلہ بس پر جھولے لے لیں اور اسے معاشی ترقی سمجھ لیں۔ کون روک رہا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
اگر ۲۰۲۳ میں دوبارہ ن لیگ کی حکومت آئی تو اسحاق ڈار فارمولہ پر چلتے ہوئے ۲۰۲۸ تک پھر سے ملکی معیشت کا گینگ ریپ کر کے جائے گی۔







عوام کو ریلیف (مہنگائی و بیروزگاری میں کمی) دینے کا بھی ایک سائنسی معاشی طریقہ و سلیقہ ہوتا ہے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ عوام کو ریلیف دیتے دیتے پوری قومی معیشت کی بینڈ بجا دو؟ ن لیگی منشور میں؟
چلیں ایک تبدیلی تو یہ آئی ہے کہ آپ کے پاس گراف نئے آ گئے ہیں۔ ورنہ پرانے گراف تین سال سے بار بار دیکھ کر آنکھیں پک گئی تھیں۔
 
Top