مہنگے قرضوں پر ممالک کی آنکھیں کھلنے لگیں

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

مہنگے قرضوں پر ممالک کی آنکھیں کھلنے لگیں


investment-trap-feature.jpg


یہ کہانی عام ہوتی جا رہی ہے: قوی صلاحیتوں کا حامل کوئی ترقی پذیر ملک بنیادی ڈھانچے کے ایک زبردست منصوبے کا اعلان کرتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے پیسہ ایک آسان سے قرض کی شکل میں آتا ہے۔ قرض کی تفصیل واضح نہیں ہوتی مگر رقم بہت بڑی ہوتی ہے اور سیاست دان اور قرض دینے والا دونوں وعدہ کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ دونوں فریقین کے لیے "یکساں جیت " کا سبب بنے گا۔

خوشی کی ابتدائی لہر کے بعد کچھ لوگ سوال پوچھنا شروع کر دیتے ہیں جیسے: قرض کی شرائط کیا ہیں؟ اگر ترقی پذیر ملک بروقت یہ قرض ادا نہ کر سکا تو اس صورت میں کیا ہوگا؟ اس منصوبے میں مقامی لوگوں کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے کی بجائے غیر ملکی کارکنوں کو کیوں لایا جا رہا ہے؟

انتہائی آسان شرائط پر ملنے والے قرضے اور قرض کے جال ميں پھنس جانے کے نتائج کے بارے میں ملکوں کو احساس ہونے لگا ہے جبکہ قرض دینے والا ملک قرض کو بنددرگاہوں یا سیاسی اثر و رسوخ جیسے تزویراتی اثاثے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ سری لنکا نے اس وقت چین کو ایک کلیدی بندرگارہ 99 سالہ پٹے پر دیدی جب اسے قرض کی ادائیگی کی ایک ایسی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جس میں اس کے سامنے اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

Getty-Images-947981482.jpg


چینی قرضے واپس نہ کر سکنے کے بعد سری لنکا نے اپنی ہمبن ٹوٹا کی بندرگاہ چین کو 99 سال کے پٹے پر دے دی۔

خطرے کا احساس

حالیہ مہینوں میں ملکوں کو خطرے کا احساس ہونا شروع ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر ملائشیا اور برما کو بہت زیادہ قرض کے خطرات کا احساس ہونے کے بعد یہ ممالک قرض پر چلنے والے منصوبوں کو یا تو معطل کر رہے ہیں یا اُن پر ازسرِنوغور کر رہے ہیں۔.

حال ہی میں ملائشیا نے بہت زیادہ مہنگا ہونے کی وجہ سے قرض کی بنیاد پر تیار کیے گئے ریلوے لائن کے ایک منصوبے میں مزید پیش رفت کرنے پر انکار کر دیا ہے۔ ملائشيا کے وزيراعظم مہاتير محمد نے کہا، "اس کا تعلق صرف بہت زیادہ پیسہ ادھار لینے سے ہے۔ ہم اس کی استطاعت نہیں رکھتے اور ہم قرض لوٹا نہیں سکتے۔ ملائشیا میں ہمیں ایسے منصوبوں کی ضرورت نہیں۔"

حال ہی میں برما نے ایک منصوبے میں تبدیلی کرکے کیوک پیو کی بندرگاہ کے منصوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو 80 فیصد کم کر دیا ہے۔نا‏ئب وزير خزانہ سيٹ آنگ نے کہا، "٘میری ترجیح یہ ہے کہ مائنمار [برما] کی حکومت پر قرض کا کوئی بوجھ نہ ہو۔"

بہتر متبادل

امریکہ غیرملکی امداد دینے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ قرض کے رشتے کی بجائے طویل مدتی شراکت قائم کرنے کی خاطر اورمتعلقہ ممالک اور کميونٹيوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے امریکہ قرض کے جال کے مسائل میں الجھنے سے بچ کر چلتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے اور برما میں موبائل ٹیلی فون کے ٹاوروں کے لیے، امریکہ بيرونی ممالک ميں نجی سرمايہ کاری کی کارپوريشن کے ذریعے نجی کمپنیوں اور دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر مالی وسائل فراہم کر رہا ہے۔ مقامی کمیونٹیوں کے ساتھ براہ راست کام کر کے امریکی امداد اور سرمایہ کاری حقیقی ترقی اور شفافیت کو یقینی بناتی ہیں جس کا نتیجہ دیرپا ترقی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

جاسم محمد

محفلین
چینی قرضے واپس نہ کر سکنے کے بعد سری لنکا نے اپنی ہمبن ٹوٹا کی بندرگاہ چین کو 99 سال کے پٹے پر دے دی۔
فواد بھائی آپ پاکستانیوں کو نہیں جانتے۔ یہ چینی قرضوں پر دیوالیہ ہونے کے بعد گوادر کی قیمتی بندرگاہ چین کے حوالے کر دیں گے۔ اور پھر کہیں گے چینی پاکستانی بھائی بھائی۔ اور ایک واری فیر شیر!
 

جاسم محمد

محفلین
حال ہی میں ملائشیا نے بہت زیادہ مہنگا ہونے کی وجہ سے قرض کی بنیاد پر تیار کیے گئے ریلوے لائن کے ایک منصوبے میں مزید پیش رفت کرنے پر انکار کر دیا ہے۔ ملائشيا کے وزيراعظم مہاتير محمد نے کہا، "اس کا تعلق صرف بہت زیادہ پیسہ ادھار لینے سے ہے۔ ہم اس کی استطاعت نہیں رکھتے اور ہم قرض لوٹا نہیں سکتے۔ ملائشیا میں ہمیں ایسے منصوبوں کی ضرورت نہیں۔"
بھائی وہ مہاتیر محمد ہے۔ ہمارے پاس محمد نواز شریف تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
دوست ممالک کے لیے دل کشادہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ گوادر کا انتظام دس بیس برس کے لیے چین کے حوالے ہو گیا تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ ہم کسی بڑے ملک کی اعانت کے بغیر گوادر میں کیا 'انقلاب' برپا کر سکتے ہیں؟
 

فاتح

لائبریرین
گوادر کا انتظام دس بیس برس کے لیے چین کے حوالے ہو گیا تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔
دس یا بیس؟ کسی سرکاری دستاویز کا کوئی مستند حوالہ؟
ہم کسی بڑے ملک کی اعانت کے بغیر گوادر میں کیا 'انقلاب' برپا کر سکتے ہیں؟
کراچی پورٹ جرمنی کو دے دیں، پورٹ قاسم روس کو دے دیں، کیٹی بندر برطانیہ کو، وغیرہ وغیرہ کیونکہ"ہم کسی بڑے ملک کی اعانت کے بغیر ان میں کیا 'انقلاب' برپا کر سکتے ہیں؟" :)
 

جاسم محمد

محفلین
ہم کسی بڑے ملک کی اعانت کے بغیر گوادر میں کیا 'انقلاب' برپا کر سکتے ہیں؟
کراچی پورٹ جرمنی کو دے دیں، پورٹ قاسم روس کو دے دیں، کیٹی بندر برطانیہ کو، وغیرہ وغیرہ کیونکہ"ہم کسی بڑے ملک کی اعانت کے بغیر ان میں کیا 'انقلاب' برپا کر سکتے ہیں؟" :)
اسی پست عوامی سوچ کا نتیجہ ہے جو ملک مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔ اقبال کا فلسفہ ’’خودی‘‘ پڑھ کر انگریز اور ہندو سے اسلامی ملک تو حاصل کر لیا۔ لیکن اسے چلانا کیسے ہے، آج تک پتا نہیں چلا۔ ایک حکمران ایوب آیا تھا جسے اپنی کُرسی سے زیادہ ملک کے مستقبل کی فکر تھی۔ وہ مغربی پاکستان میں ڈیمز اور مقامی انڈسٹری کھڑی نہ کرتا تو آج شاید پاکستان کا حال کسی افریقی ملک جیسا ہوتا۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ اب بھی وقت ہے۔ عمران خان کے ویژن کے پیچھے کھڑے ہو کر معیشت مضبوط کریں۔ جس دن اس ملک نے بیرونی قرضے لینے بند کر دئے سمجھ لیں یہ ترقی کی راہ پر چل پڑا۔ پھر اسے امریکیوں تو کبھی چینیوں کے تلوے چاٹنے نہیں پڑیں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
دس یا بیس؟ کسی سرکاری دستاویز کا کوئی مستند حوالہ؟

کراچی پورٹ جرمنی کو دے دیں، پورٹ قاسم روس کو دے دیں، کیٹی بندر برطانیہ کو، وغیرہ وغیرہ کیونکہ"ہم کسی بڑے ملک کی اعانت کے بغیر ان میں کیا 'انقلاب' برپا کر سکتے ہیں؟" :)

اسی پست عوامی سوچ کا نتیجہ ہے جو ملک مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔ اقبال کا فلسفہ ’’خودی‘‘ پڑھ کر انگریز اور ہندو سے اسلامی ملک تو حاصل کر لیا۔ لیکن اسے چلانا کیسے ہے، آج تک پتا نہیں چلا۔ ایک حکمران ایوب آیا تھا جسے اپنی کُرسی سے زیادہ ملک کے مستقبل کی فکر تھی۔ وہ مغربی پاکستان میں ڈیمز اور مقامی انڈسٹری کھڑی نہ کرتا تو آج شاید پاکستان کا حال کسی افریقی ملک جیسا ہوتا۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ اب بھی وقت ہے۔ عمران خان کے ویژن کے پیچھے کھڑے ہو کر معیشت مضبوط کریں۔ جس دن اس ملک نے بیرونی قرضے لینے بند کر دئے سمجھ لیں یہ ترقی کی راہ پر چل پڑا۔ پھر اسے کبھی امریکیوں تو کبھی چینیوں کے تلوے چاٹنے نہیں پڑیں گے۔
ہمیں اپنی حکومت سے کوئی خاص توقع وابستہ نہیں ہے، بصد معذرت عرض ہے۔ ہمارا تبصرہ معروضی حالات کی نسبت سے ہے۔ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تبصرے کو ذرا لائٹ لیا کریں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں اپنی حکومت سے کوئی خاص توقع وابستہ نہیں ہے
ٹھیک ہے۔ ویسے بھی حکومت کے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہوتی۔ ماضی کی حکومتیں جو وسائل چھوڑ کر جاتی ہیں انہی سے کام چلانا ہوتا ہے۔
بیرونی قرضے لیکر اگلے 5 سال جیسے تیسے کاٹ بھی لئے تو ایسا کیا کارنامہ ہو جائے گا؟ جب تک خراب معیشت کو جڑ سے پکڑ کر نظام درست نہیں کیا جاتا۔ تاکہ آئندہ قرضوں سے جان چھوٹے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ٹھیک ہے۔ ویسے بھی حکومت کے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہوتی۔ ماضی کی حکومتیں جو وسائل چھوڑ کر جاتی ہیں انہی سے کام چلانا ہوتا ہے۔
بیرونی قرضے لیکر اگلے 5 سال جیسے تیسے کاٹ بھی لئے تو ایسا کیا کارنامہ ہو جائے گا؟ جب تک خراب معیشت کو جڑ سے پکڑ کر نظام درست نہیں کیا جاتا۔ تاکہ آئندہ قرضوں سے جان چھوٹے۔
سول ملٹری تصادم اور سیاسی عدم استحکام کے باعث یہاں بڑی تبدیلی لانا ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔
 
Top