مہنگائی اور پاکستانی عوام

Haider zaidi

محفلین
تحریر حیدر زیدی پاکستان کے مجموعی حالات اور لوگوں کی زندگیاں بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہیں، جب بھی پاکستان کسی سے بات ہو کوئی خیر کی خبر سننے کو نھیں ملتی ہے، اب سنا ہے کہ پھر سے آٹا چینی اور گھی کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں جبکہ تیل کی قیمتوں میں اضافے نے غریب کی جھکی کمر کو مزید جھکا دیا ہے اسکے علاوہ سخت گرمی میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب الگ سے اور المیہ دیکھیے بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے جو بل آتے ہیں ان کا رونا الگ ہے۔ یعنی آپ کس کس چیز کا ماتم کریں گے۔
غریب کے لیے تو نواز شریف و زرداری و عمران خان ایک ہی کیٹیگری میں کھڑے ہیں اس معاملے میں کیونکہ اس ملک کا
غریب غریب سے غریب تر ہو رہا ہے اور امیر امیر سے امیر تر۔ یہاں جو دو نمبری کر رہا ہے کامیاب ہے محنت ایمانداری کا کوئی صلہ نہیں۔ ہر طرف لوٹ مار اور نفسا نفسی کا عالم ہے ہر طرف بڑی مچھلی چھوٹی کو کھا کر اپنا پیٹ بھر رہی ہے۔
پاکستان میں سروائیو کرنے کے اب دو ہی طریقے ہیں کہ یا تو آپ کے پاس بہت پیسہ ہو یا پھر آپ کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہو وگرنہ غریب آدمی یہاں کے سول ہاسپٹلرز کے آپریشن تھیٹرز کے باہر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتا ہے اور امیر کا کتا بدہضمی کے باعث اعلی ہسپتال سے علاج کرواتا ہے۔ آپ اپنے کسی کام سے یہاں لائن میں کھڑے ہو پچھلے 4 گھنٹے سے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے ایک بندہ تعلق کی بنیاد پر ڈھٹائی سے آکر کام کروالے گا اور آپ سوائے خون پینے کے کچھ نہ کر سکیں گے، اس ملک کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور حکمران اسے ٹھیک کرنے سے قاصر ہیں، میں یہ کہنا نھیں چاہتا لیکن کہے بنا چارہ نھیں کہ پاکستان میں فی الحال ذہنی اور جسمانی اذیت کے سوا کچھ نہیں ہمارا ملک ترقی کرے گا مگر شاید ہمارے بعد ہی۔
عمران خان ایک سیٹ کا سپاہی تھا لیکن پارٹی کے ساتھ ہمدردی اور خان سے تعلق اپنی جگہ حقائق اپنی جگہ، عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نھیں کہ اسکے ملک کا وزیراعظم خارجہ پالیسی میں کون سے جھنڈے گاڑھ رہا ہے یا کتنے بیان دے رہا ہے انھیں تو بچوں کی تعلیم کے خرچے، بجلی کے بلوں، دال آٹا گھی چینی اور اپنے گھر کے ماہانہ بجٹ سے سروکار ہے جب تک ان چیزوں میں اسے ریلیف نھیں ملے گا تو یاد رکھیے کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں اگلے الیکشن میں حکمران جماعت کے لوگوں کو ووٹ مانگنے پر جوتے جوتے مار مار کر انکے سر گنجے کر دینے ہیں پبلک نے۔
باقی اس حکومت کا غریب کے لیے ایک ہی کام ایسا ہے جو بے انتہا سراہے جانے کے قابل ہے وہ ہے "ہیلتھ کارڈ" اسکے علاوہ غریبوں اور مڈل کلاس کی زندگیوں کو بہتر بنانے انھیں سکون دینے کے معاملے میں انکی کارکردگی پچھلی حکومتوں کے جیسی ہی ہے اب تک یا شاید ان سے بھی بد تر اس کے علاوہ چودہ اگست 23 مارچ 6 ستمبر کے دنوں میں جشن اور ترانے نغمے اور خوش آمد کے پہاڑ دوسری طرف ملک غربت مہنگائ بے روزگاری جہالت لاعلاجی اور نا انصافی کی تصویر ہے جہاں فوج اور اس کے اداروں پر سیاست میں براجمانی پر تنقید کرنے والے غدار اور ملائیت فرقہ واریت دہشت گردی اور مزہب کے نام پر کاروبار سیاست کو تنقید کرنے والے پر کفر کا فتویٰ جاری کر دیا جاتا ہے.
ایسا افیون زدہ سماج بنانے کے لیے تعلیمی نصاب دانشور شاعر صحافت میڈیا ہر فورم استعمال کیا جاتا ہے. عام عوام کا مسلہ روزگار تعلیم صحت حفاظت امن انصاف اور بنیادی سہولیات کا ہے جسے وسائل پر قابض لوگ زبانی جمع خرچ پر عوام کو لولی پاپ دیے رکهتے ہیں. کوئ مزہبی جماعت کبهی نجکاری اور مزدور دشمن پالیسی کے خلاف سڑک پر نہیں نکلتی کوئ فوجی جرنیل مہنگائ اور نجکاری عوام دشمن مزدور دشمن حکومتی پالیسی پر بیان نہیں دیتا لیکن حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تعریف کرنے کانفرنس کر لیتا ہے. ایسا اسی لیے ہے کہ جرنیل ملاء جاگیردار گماشتہ سرمایہ دار مالیاتی سود خور اداروں کے ایجنٹ سرمایہ داری میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں امریکہ سامراج اور ملٹی نیشنل اداروں کمپنیوں کے یا تو وظیفہ خور ہیں یا کمیشن ایجنٹ ہیں.
حکومت کی حالیہ پالیسیوں جن میں نجکاری مہنگائ اور ورکرز کی چهانٹیوں اور پینشن کے مسلے کو لیکر ایک مزدور تحریک جنم لے رہی ہے وہ جہاں حکومت اور آئ ایم ایف کی پالیسیوں کے خلاف صف آراء ہے وہاں یہ بات مزدور باخوبی سمجه چکا ہے کہ کسی اشرافیہ پارٹی کے پاس کوئ معاشی پلاننگ نہیں ہے کسی جرنیل کے مارشل لاء نے مزدور اور محنت کش عوام کے مسائل کا حل نہیں کیا بلکہ ان سے مزید چهینا ہے ان سے یونین کا حق چهینا ان کے بنائے قومی اداروں کو اونے پونے بیچا ہے.
آج مزدور نئے عزم نئ ہمت اور خود انحصاری کے ساته نہ صرف حکومت بلکہ نظام کو چیلنج کرنے نکل رہا ہے جس نظام کی بنیاد مزدور کے استحصال سے دولت پیدا ہوتی ہے تو کسی سرمایہ دار جاگیر دار ملٹری یا سول بیوروکریٹ کے گهر میں شراب و شباب کی محفل پر لٹتی ہے اسی کی محنت کی عظمت ہے کہ جہاں میں رنگینیاں ہیں وہ سمجهتا ہے کہ ماتهوں کے محرابوں اور کندهے پر لگے بیجوں سے نہیں مزدور کے ہاتهوں کے چهالوں سے یہ دنیا میں حسن ہے دولت ہے آسائش ہے انسان کے لیے آسودگی ہے سہولت ہے.
مزدور طبقہ اپنی قیادت میں موجود سفید کاٹن کا سوٹ پہنے سٹیج پر تقریر جهاڑنے کے علاوہ افس شاہی کی ٹاوٹ اور پاکٹ کالی بهیڑوں کو پچهواڑے پر لات مار کر مخلص آزاد اور مزدور دوست قیادت کو ابهارے گی جو اس ملک کے محنت کشوں کی طبقاتی لڑائ کو لڑ کر نئے سماج نئے نظام کی بنیاد رکهے گی. اور یہ قیادت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بهر کے مزدوروں ان کی تنظیموں سے یکجہتی کرتے ہوئے عالمی سطح پر منظم ہو کر سامراج کو شکست دے سکے گی اور دنیا میں برابری بهائ چارہ محبت آشا اور انسانیت کی معراج ہو گی.
 
مدیر کی آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ایسا افیون زدہ سماج بنانے کے لیے تعلیمی نصاب دانشور شاعر صحافت میڈیا ہر فورم استعمال کیا جاتا ہے. عام عوام کا مسلہ روزگار تعلیم صحت حفاظت امن انصاف اور بنیادی سہولیات کا ہے جسے وسائل پر قابض لوگ زبانی جمع خرچ پر عوام کو لولی پاپ دیے رکهتے ہیں. کوئ مزہبی جماعت کبهی نجکاری اور مزدور دشمن پالیسی کے خلاف سڑک پر نہیں نکلتی کوئ فوجی جرنیل مہنگائ اور نجکاری عوام دشمن مزدور دشمن حکومتی پالیسی پر بیان نہیں دیتا لیکن حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تعریف کرنے کانفرنس کر لیتا ہے.
بہت موثر انداز میں لکھا ہے ۔۔۔
درست کہا آپ نے افیون زدہ سماج ہم اور آپ افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔۔
افسوس صد افسوس ۔۔۔۔۔۔
جیتے رہیے ۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان ایک سیٹ کا سپاہی تھا لیکن پارٹی کے ساتھ ہمدردی اور خان سے تعلق اپنی جگہ حقائق اپنی جگہ، عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نھیں کہ اسکے ملک کا وزیراعظم خارجہ پالیسی میں کون سے جھنڈے گاڑھ رہا ہے یا کتنے بیان دے رہا ہے انھیں تو بچوں کی تعلیم کے خرچے، بجلی کے بلوں، دال آٹا گھی چینی اور اپنے گھر کے ماہانہ بجٹ سے سروکار ہے جب تک ان چیزوں میں اسے ریلیف نھیں ملے گا تو یاد رکھیے کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں اگلے الیکشن میں حکمران جماعت کے لوگوں کو ووٹ مانگنے پر جوتے جوتے مار مار کر انکے سر گنجے کر دینے ہیں پبلک نے۔
بہت موثر انداز میں لکھا ہے ۔۔۔
درست کہا آپ نے افیون زدہ سماج ہم اور آپ افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔۔
افسوس صد افسوس ۔۔۔۔۔۔
جیتے رہیے ۔۔۔
عام آدمی کو خارجہ پالیسی سے غرض نہیں۔ لیکن کشمیر کی آزادی کی فکر ہے۔ افغانستان میں پاکستان پسند حکومت کی خواہش ہے۔ خلیجی ممالک کے ویزہ، ملازمت وغیر ہ میں آسانیوں کیلئے حکومت کی طرف عام آدمی ہی دیکھ رہا ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مزدور طبقہ اپنی قیادت میں موجود سفید کاٹن کا سوٹ پہنے سٹیج پر تقریر جهاڑنے کے علاوہ افس شاہی کی ٹاوٹ اور پاکٹ کالی بهیڑوں کو پچهواڑے پر لات مار کر مخلص آزاد اور مزدور دوست قیادت کو ابهارے گی جو اس ملک کے محنت کشوں کی طبقاتی لڑائ کو لڑ کر نئے سماج نئے نظام کی بنیاد رکهے گی. اور یہ قیادت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بهر کے مزدوروں ان کی تنظیموں سے یکجہتی کرتے ہوئے عالمی سطح پر منظم ہو کر سامراج کو شکست دے سکے گی اور دنیا میں برابری بهائ چارہ محبت آشا اور انسانیت کی معراج ہو گی.
یہ تو کارل مارکس کا کمیونسٹ مینی فسٹو لگ رہا ہے۔
 
Top