مہنگائی اور غربت بن گئی مقتل گاہ

فخرنوید

محفلین
پاکستان جو کہ چند برس قبل تک مہنگائی کا اس قدر شکار نہ ہوا تھا جس قدر آج ہے۔ہر طرف آٹا ۔ چینی اور دوسری ضروریات زندگی نے غریب بندے کا بڑھکس نکال کر رکھ دیا ہے۔ہر طرف لوگوں کی زبان پر صرف ایک ہہی لفظ ہے مہنگائی مہنگائی۔ ہمارا ملک جو کہ ایک زرعی ملک کہلاتا ہے۔ جس کا دارومدار زراعت پر ہے۔ لیکن اس ملک کی زرعی پیداوار اتنی بھی نہین ہے کہ اپنی عوام ہی سکون کی زندگی گزارے اور اپنا کاشت کرے اپنا کاٹے اور باہر سے اناج نہ منگوانا پڑے لیکن ہماری بد قسمتی ہے۔ یہ کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی زرخیز ترین زمین ہے۔ اس کا اندازہ آپ اسے سے لگا سکتے ہیں ۔ کہ کچھ عرب اور خلیجی ممالک ہماری زرعی زمین پر نظریں کاڑے بیٹھے ہیں کہ اس کو ہم حاصل کر لیں۔ اور اس پر کاشت کر کے وہ اپنے ملک کی ضروریات کو نہ صرف پورا کریں بلکہ اس سے فائدہ بھی اٹھائیں ۔ افسوس صد افسوس کہ ہم یہ سب دیکھ کر بھی اندھے بنے بیٹھے ہیں۔ ہماری حکومت نا جانے کس پالسی اور کای سوچ اپنے زہنوں میں لے کر اپنی زرعی زمینیں انہیں دینے کے درپے ہوئی ہے۔ وقتی طور پر ہو سکتا ہے انہٰن کچھ اس میں منافع نظر آرہا ہو۔ لیکن انہیں آگے کا سوچنا چاہیے صرف یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے تو اپنے پانچ سال پورے کر کے لوگوں کو گروی رکھ کر پھر ووٹ مانگنے چل دوڑنا ہے۔ بلکہ انہیں حقیقت کا اب اندازہ کر لینا چاہیے ۔ مانا کہ ان کے بچے تو بیرون ممالک جا کر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور وہاں پر وہ شہریت بھی لے سکتے ہیں ۔ لیکن خدارا ۔۔۔ اس قوم کے ساتھ ایسا مزاق نہ کریں کہ یہ قوم اپنی موت آپ مر جائے ۔ کہیں یہ بھی افریقی ممالک مٰن نہ شامل ہو جائے ۔کہ جہاں دیہاتوں کے دیہات بھوکے مر رہے ہیں ان کی لاشیں بھی بے گور و کفن پڑی گل سڑ رہی ہیں۔
ہماری حکومت نے مرکزی طور پر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا ہے لیکن ۔ اس سے کسے فائدہ ہو گا اس انتظامیہ کہ جو یہ پروگرام چلا رہی ہے۔ اگر اس فنڈ کا 40 فی صد انتظامی امور پر خرچ ہی جانا ہے تو باقی 60 فی صد فنڈ کی تقسیم بھی کوئی اتنی شفاف نہین ہے کہ وہ ضرورت مندوں تک پہنچ سکے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی پارٹی اس فنڈ کی مدد سے اپنے جیالوں کو نواز رہی ہے جبکہ اس فنڈ کے حق دار اس سے بالکل بھی مستفید نہٰیں ہو رہے ہیں۔ اس رقم کا ایک اندازے کے مطابق صرف 30 فی صد حصہ ضرورت مندوں تک پہنچ رہا ہے۔
اس فنڈ کا قریبآ 10 فی صد حصہ تو حکومت پرنٹ میڈیا کو خوش کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ جس سے ہر روز آپ روزنامے اخبار اٹھا کر دیکھیں تو ان پر اشتہار لگے ہوتے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام چلایا جا رہا ہے۔ اس چیز کی مشہوری کرنے کا کیا فائدہ ہورہا ہے۔ کیا کسی ضرورت مند کی پیٹ کی آگ بجھ رہی ہے کیا کسی ضرورت مند کا ان اشتہاروں سے چولہا جل رہا ہے بالکل نہیں ۔ یہ سارا فنڈ جا رہا ہے تو صرف سرمایہ کار اخباروں کو جنہیں حکومت اپنے زیر نکوں رکھنے کے لئے اشتہاروں کی صورت میں عوام کی خون پسینے کی کمائی سے نواز رہی ہے۔
پنجاب حکومت نے پہلے بیڑہ اٹھا یا کہ سستی روٹی دی جائے ۔ اس کے لئے انہوں نے فلور ملز کے سبسڈی دے کر آٹا سستے داموں تندوروں کو مہیا کیا کہ وہاں سے لوگ 2 روپے کی روٹی حاصل کر سکیں لیکن ہوا کیا ۔ اس میں بھی شفافیت نہ آ سکی ۔ ہر فلور ملز میں 100 فی صد سبسڈی والے تھیلے بنتے ہیں ۔ جن مٰیں سے فیکٹری سے نکلتے ہی یہ تھیلے صرف 90 فی صد رہ جاتے ہیں ۔ کس کی مدد سے فوڈ کنتڑولرز کی مدد سے باقی 90 فی صد آٹا تندروں تک آتا ہے۔ تو اس میں سے 20 فی صد آٹا وہ بلیک میں فروخت کر دیتے ہیں باق تندوروں پر روٹی کی شکل میں دستیاب ہوتا ہے۔ لیکن وہ روٹی جو 2 روپے کی ہونی چاہیے غریب بندے کو پھر بھی دو روپے کی نہیں ملتی ہے۔ بلکہ جو دال کی پلیٹ پہلے 10 سے 15 روپے کی تھی وہ دال کی پلیٹ 20 سے 25 روپے کی خریدنے پر عوام 2 روپے کی روٹی خرید سکتی ہے۔ ئیعنی عوام کو پھر بھی وہ روٹی تقریبآ 5 روپے کی ملی ۔ اس سے کس کو فائدہ ہوا غریب عوام کو ہر گز نہیں۔
اب آج کل رمضان بازار لگے ہیں اس مٰن عوام کو روزہ کی حالت میں زلیل خوار کیا جا رہا ہے۔ اسلام جو کہ عورت کے پردے کو اور عزت و تکریم کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے ۔ آج اسلام کی بیٹیاں دھوپ میں اور روزہ کی حالت میں سڑکوں پر خوار ہو رہی ہیں۔پولیس جو کہ ان کی حفاظت کے لئے تعینات ہے وہ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتی ہے۔ سارا دن کھڑے رہنے کے بعد انہیں کیا ملتا ہے ایک 10 کلو کا تھیلا جو اس کی فیملی پانچ دن استعمال کر سکے اور پھر سے وہی زلالت شروع۔
ہم نے پچھلے دنوں کئی واقعات مٰیں دیکھا کہ پہلے گوجرانوالہ شہر میں ایک بزرگ شہری لائن میں کھڑا جان کی بازی ہار بیٹھا اور پھر کچھ دن بعد گوجر خان اور فیصل آباد میں ایسے ہی واقعات مٰن اموات ہوئیں ۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں ہے۔
آج کراچی میں ایک مخیر شخص نے مفت راشن کی تقسیم شروع کی تو وہاں پر بھگدڑ مچنے سے تقریبآ 14 خواتین کی جان گئی اور کئی اس میں سے زخمی ہو گئی ہیں۔اور اس سے ہوا کیا ۔ کہ اس مخیر شخص کو گرفتار کر لیا گیا کہ تم نے یہ نیکی شروع کیوں کی۔
چینی کا بحران تو حکومت اور اپوزیشن کا اپنا پیدا کردہ ہے کیونکہ اس میں تو صد فی صد ان کا اپنا مفاد تھا کیوں کہ ساری شوگر ملز انہی سیاسی پارٹیوں کے ارکان کی ہٰن جو پارلیمنٹ میں بیٹھی ہیں کیا کبھی ایک شوگر مل مالک چاہے گا اس کے خالف ایکشن لیا جائے ۔ آپ کا جواب ہو گا نہٰن تو جناب پھر کیسے یہی ارکان اپنے آپ کے خلاف کاروائی کریں گے۔
عوام نے اس عدلیہ کو اپنا امید کا مرکز سمجھا اور تپتی دھوپ میں اس کی بحالی کے لئے پسینہ بھی بہایا اور خون بھی بہایا لیکن کیا ملا نا تو انصاف اور نہ ہی اپنا بنیادی حق۔ جناب حکومت سے تو امید عوام کی ٹوٹی ہی تھی لیکن عدلیہ نے بھی اخیر کر دی اور چوں چوں کے اس مربے میں حصہ دار بن گئی ۔ عوام کو راضی کرنے کے لئے یہ جج از خود نوٹس تو لے لیتے ہیں ۔ لیکن پھر اس کو اگلی تاریخ تک ڈال کر لوٹ کھسوٹ کا موقع دے دیتے ہیں۔ جس چیز کا فیصلہ تین دن کی کاروائی میں ہو سکتا ہے اس کے لئے 3 ماہ کی تاریخ دے دینا کیا یہ عوام کی سمئجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا کر رہے ہیں ججز۔ جناب پٹرول اس وقت کوئی 56 روپے لیٹر تھا جب اس پر چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کاروائی کی لیکن پھر اس کی کاروائی کو آگے دال دیا اور کوئی فیصلہ نہ دیا اور تین سے چار ماہ تک لٹکا رکھا ہے۔ پھر اب چینی کے بحران پر نوٹس لیا اور اپنے ہی فیصلے پر آج تک عمل درآمد نہٰیں کروا سکے ہیں۔

بس جناب جان لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم جان لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حکومت اور ایلیٹ کلاس ۔۔۔ بیورو کریٹس کبھی بھی آپ عوام کا بھلا نہین سوچیں گے جب تک اس ملک میں خونی انقلاب نہیں آئے گا جب تک یہاں عوام سڑکوں پر نہیں نکلے گی ۔ جب تک عوام ان نام نہاد لیڈروں کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہٰن پھینک دیتی۔

اے اللہ! تو ہی اس قوم کی مدد فرما۔


وائس آف پاکستان نیوز
 

arifkarim

معطل
ویسے عوام کی بیوقوفی کی بھی انتہا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں فری اکانمی سسٹم ہے۔ یعنی مانگ اور اسپلائی چیزوں کی قیمتیں متعین کرتی ہیں۔ اگر کسی چیز کی قیمت زیادہ ہو جائےتو وہ بہت کم نیچے آئے گی کیونکہ ہمارے پاس سنٹرل بینک کی وجہ سے افراط زر کا تحفہ بھی موجود ہے!
اس پر ستم یہ ہے کہ عوام بجائے سنٹرل بینک کیخلاف احتجاج کرنے کہ عدالتوں اور حکمرانوں کا رخ کرتی ہے کہ وہ قیمتیں کم کریں حالانکہ قیمتیں پر کنٹرول انکے اختیار سے باہر ہے۔ ہاں‌یہ ہو سکتا ہے کہ اگر عوام غیر ملکی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دے اور قومی سینٹرل بینک کو بند کر دے تو مہنگائی کنٹرول میں آجائے گی، پر ایسا کرے گا کون۔ ہمارے سارے وسائل تو صیہونیوں کے ہاتھ میں ہیں! :grin:
 
Top