الف نظامی

لائبریرین
مولانا کا آزادی مارچ ، عمرانی دھرنے سے ہزار گنا منظم اور سماجی اخلاقیات کا حامل ہے اور سیاسی فرقہ واریت کا کلچر پھیلانے والی جماعت کو اس سے سیکھنا چاہیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ ان دنوں کی بات ہے جب نواز شریف وزیراعظم تھے اور انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کا فیصلہ کیا۔ ٹرائل شروع کرنے سے قبل انہوں نے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت اہم سیاستدانوں کو اعتماد میں لیا۔

نواز شریف کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اس ٹرائل کے خلاف تھے۔ انہوں نے ایف آئی اے کے ذریعے آصف زرداری کے خلاف تحقیقات شروع کردیں۔ اب زرداری صاحب کو پیغامات ملنے لگے کہ آپ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں لیکن زرداری نے یہ پیغام نظر انداز کئے۔ جب ان پر دبائو بڑھا تو انہوں نے دبائو کم کرنے کے لئے اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر کردی۔ اس تقریر سے اگلے دن ان کی نواز شریف کے ساتھ ملاقات طے تھی۔

نواز شریف نے یہ ملاقات منسوخ کردی۔ مولانا نے دونوں کے درمیان پل بننے کی کوشش کی لیکن زرداری صاحب کا دماغ الٹ چکا تھا۔ وہ علاج کے لئے بیرونِ ملک چلے گئے، انہیں پیغام بھیجا گیا کہ واپس مت آنا ورنہ برا انجام ہوگا۔ زرداری صاحب نے اپنے مختلف رابطے استعمال کئے اور جنرل راحیل شریف کو نیوٹرل کردیا۔ راحیل شریف کے ساتھ خاموش مفاہمت کے بعد وہ پاکستان واپس آگئے اور انہوں نے نواز شریف سے انتقام کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیا۔

مولانا نے انہیں بہت روکا لیکن وہ نہیں رکے۔ پھر پاناما اسیکنڈل آگیا۔ نواز شریف مئی 2016میں علاج کے لئے بیرون ملک گئے تو انہیں کہا گیا واپس مت آنا انجام برا ہوگا۔ وہ واپس آگئے اور عدالت نے انہیں نااہل کردیا۔ اب مولانا فضل الرحمٰن کو احساس ہونے لگا کہ ان کے ساتھ بھی کچھ ہونے والا ہے۔

وہ زرداری اور نواز شریف کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتے رہے اور ان کوششوں کی وجہ سے پرائم ٹارگٹ بن گئے۔ عمران خان ان سے شدید نفرت کرنے لگے حالانکہ 2002میں عمران خان نے مولانا کو وزیراعظم کا ووٹ دیا تھا۔ 2018کے انتخابات قریب آئے تو مولانا کے بارے میں عجیب عجیب باتیں گردش کرنے لگیں کبھی کہا گیا کہ وہ ایک مغربی ملک کے خفیہ ادارے سے پائونڈ لیتے ہیں، کبھی کہا گیا کہ ان کا دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ ہے۔

جون 2018میں مولانا فضل الرحمٰن نے ایک نشست میں بتایا کہ عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، مجھ پر دبائو ہے کہ میں اس کی حمایت کروں لیکن میں نے انکار کردیا ہے، انتخابات سے پہلے لوگوں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جائیں گی، میڈیا پر پابندیاں لگائی جائیں گی، نہ سیاست بچے گی نہ صحافت، اس لئے مل کر اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہوگی۔ اس بقا کی جنگ کے لئے جون 2018کے وسط میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا کے علاوہ پرویز رشید، فرحت اللہ بابر، شبلی فراز، بزرگ صحافی ایم ضیاء الدین، افضل بٹ، منیزے جہانگیر، مطیع اللہ جان اور میں نے گفتگو کی اور سیاست و صحافت کو بچانے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر اتفاق کیا لیکن ہمیشہ کی طرح نہ اہلِ صحافت متحد ہوئے اور نہ اہلِ سیاست۔

انتخابات والے دن ہمیں بدترین سنسر شپ کا سامنا تھا۔ رات گیارہ بجے مولانا کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ مجھے ہروایا جارہا ہے، عمران خان کو لایا جارہا ہے لیکن تم دیکھنا میں عمران کو وہ سبق سکھائوں گا کہ دنیا دیکھے گی۔

انتخابات کے بعد انہوں نے ایک سال تک تیاری کی اور جولائی کے آخر میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ انہیں روکنے کی بہت کوشش ہوئی، وہ نہ رکے تو آصف زرداری کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش ہوئی۔

زرداری صاحب نے ماضی کے دھوکوں کو سامنے رکھتے ہوئے انکار کردیا۔ اب نواز شریف صاحب سے گزارش کی جارہی ہے کہ آپ بیرون ملک چلے جائیں لیکن وہ ابھی تک بیرون ملک جانے کے لئے تیار نہیں۔

مولانا کہتے تھے کہ کوئی میرے ساتھ آئے نہ آئے میں اسلام آباد آئوں گا اور عمران خان کو رلائوں گا۔ آپ ان سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ان کا اصل ایجنڈا عمران خان کو رلانا ہے اور اس سوچ کو شکست دینا ہے جو سیاستدانوں کو قومی مفاد کے نام پر استعمال کرکے ردی کی ٹوکری یا جیل میں پھینک دیتی ہے کیونکہ ان سیاستدانوں نے آئین پامال کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کی گستاخی کی تھی، اگر اس سوچ نے اپنی شکست تسلیم کرلی تو پھر مولانا مذاکرات پر آمادہ ہوجائیں گے لیکن یہ مذاکرات عمران کے بغیر ہوں گے۔
(حامد میر)
 

جاسم محمد

محفلین
سانحہ تیز گام؛ اپوزیشن نے آزادی مارچ جلسہ ملتوی کردیا
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے

1863041-march-1572516693-105-640x480.jpg

اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کا آزادی مارچ جلسہ اب کل ہوگا، مریم اورنگزیب۔ فوٹو : فائل


اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں نے سانحہ تیز گام کے باعث آزادی مارچ جلسہ ملتوی کردیا ہے۔

سانحہ تیز گام کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے آزادی مارچ کا آج ہونے والا جلسہ ملتوی کردیا ہے، ترجمان مسلم لیگ (ن) مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ جلسہ ٹرین حادثے کے باعث منسوخ کیا گیا تاہم اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کا آزادی مارچ جلسہ اب کل ہوگا۔

دوسری جانب ترجمان جے یوآئی (ف) کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں آج جلسے کا ہمارا کوئی شیڈول نہیں ہے، جب جلسہ ہی نہیں رکھا تو ملتوی کیسے کرسکتے ہیں، شیڈول کے مطابق ہمارا جلسہ کل نمازجمعہ کے بعد ہوگا، آج کا جلسہ ملتوی کرنے بارے ہماری کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : تیزگام ایکسپریس میں آتشزدگی سے 73 مسافر جاں بحق

واضح رہے کہ آج صبح کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں آتشزدگی سے 73 افراد جاں بحق جب کہ 30 سے زائد زخمی ہوگئے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید نے جاں بحق افراد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تیزگام ایکسپریس کو حادثہ کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے پیش آیا تاہم ریسکیو اور فائر بریگیڈ کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آگ ٹرین کی اکانومی کلاس میں گیس سلنڈر پھٹنے سے لگی جب کہ مسافروں نے ٹرین سے کود کر جانیں بچائیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
‏بریکنگ نیوز
وزیراعظم عمران خان نے مولانا کیلئے"وزارت صبر" کی منظوری دیدی
نوٹیفکشن جاری
سینٹ کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ ملازم کی سٹیٹ بینک میں بطور گورنر تقرری افسوسناک ہے۔

گورنر سٹیٹ بینک کا آئی ایم ایف کا ملازم ہونا جو پاکستان کو بیل آؤٹ پیکچ دینے جا رہا ہے مفادات کا تصادم ہے، یہ واضح ہے کہ ان کی وفاداری پاکستان کے ساتھ نہیں ہو گی۔

یہ شرمندگی کی بات ہے کہ صوبوں کے وزراء خزانہ کو آئی ایم ایف کے درمیانے درجے کےافسر کے سامنے پیش کیا گیا اور اچھے رویے کے وعدے کروائے گئے

آئی ایم ایف ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے اور ان کے نمائندے مشیرِ خزانہ اور سٹیٹ بینک کے گورنر کے عہدوں پر براجمان ہیں۔ پرانے ادوار میں ملک آئی ایم ایف کے مکمل شکنجے میں نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی خود مختاری اور قومی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top