مولانا اقبال سہیل " رنگ و بو کے سرابستانوں میں ششدر چھوڑ کر "

طارق شاہ

محفلین
غزل
مولانا اقبال سہیل
رنگ و بُو کے سرابستانوں میں ششدر چھوڑ کر
کیا ہُوا حُسنِ حقیقت، مجھ کو مضطر چھوڑ کر
جی لگے گا خاک یہ جاں بخش منظر چھوڑکر
خلد کو جائے بلا میری تِرا در چھوڑ کر
دیکھ اے خورشیدِ محشر، تیری رسوائی نہ ہو
مشقِ تابِش کر تُو میرا دامنِ تر چھوڑ کر
حشر! کس کی بزم ہے یارب، کہ دوڑے سر کے بل
رند ساغر چھوڑ کر، زُہّاد منبر چھوڑ کر
کوئی کعبہ چاہئےمجھ کو پئے مشقِ طواف
ڈھونڈ نے جائیں کہاں، اب دل کا مَحوَر چھوڑ کر
دہر کا ہر ذرّہ باہم برسرِ پیکار ہے
کون اِس پردے میں ہے، چشمِ فسُوں گر چھوڑ کر
ہیں بہت میداں تِری حشرآفرینی کے لئے
دل کی دنیا اے نگاہِ فتنہ پروَر چھوڑ کر
رہ گئی ہے کیا قفَس میں اب ہماری یادگار
چند تِنکے اورکچھ ٹُوٹے ہُوئے پر چھوڑ کر
سو جفاؤں پر بھی رکھّا حُسن کا پاسِ ادب
کب کہا کچھ اُن کو میں نے بندہ پروَر چھوڑ کر
اتنی وُسْعَت پر نہ نِکلا جب تپش کا حوصلہ!
اوراب جائیں کہاں صحرائے محشر چھوڑ کر
ہوچکا زورِ طبیعت حضرتِ اقبال کا
اب رہا ہی کیا ہے اک روحِ مُصوّر چھوڑ کر
مولانا اقبال سہیل
 
Top