مورکھ

با ادب

محفلین
مورکھ

لالو کی حقیقت پسندی اب آہستہ آہستہ ایک بیماری بنتی جا رہی تھی ۔ جہاں کوئی امید افزاء بات کرنے کی کوشش کرتا وہیں لالو کی زبان اور سوچ کا کوڑا جمال شاہی حرکت میں آتا اور کسی چابک کی طرح وار کرنے لگ جاتا ۔
ابھی کل ہی چاچا شبیر اپنی بیٹی کے پاس ہونے کی مٹھائی لائے ۔ لالو گاؤں کا تعلیم یافتہ دیہاتی تھا ۔ دو چار کتابوں کا مصنف بھی تھا ۔ ان کتابوں کی شہرت ان کے اخلاق باختہ مواد کی وجہ سے کچھ زیادہ اچھی نہ تھی لیکن نوجوان چٹخارے دار مواد کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے ۔
لالو خود کو سعادت حسن منٹو کے پائے کا ادیب سمجھتا ' کسی سے سیدھے منہ بات کرنے کا روادار نہ تھا ۔
چاچا شبیر کے ہاتھ سے مٹھائی کا ڈبہ لے کے شیرے میں لتھڑے گلاب جامن کو منہ میں ڈالا ۔ انگلیوں پہ لگے شیرے کو زبان سے چاٹتے ہوئے آنکھوں کو گول گول گھمانے کی اداکاری کی ۔ اور ہوا میں دکھائی دینے والے چاچا شبیر کی لڑکی کے نادیدہ مستقبل کا حال جان لینے والے انداز میں گویا ہوا ۔

ارے چاچا انٹر پاس کر کے لڑکی نے کیا تیر مار لیا ۔ نوری بھی چار جماعتیں پڑھی ہے خود کو بڑی میڈم سمجھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شوہر کے دل پہ قبضہ نہ جما پائی ۔
چاچا شبیر نے صحن کے ساتھ ملحق باورچی خانے میں چائے بناتی نوری کے زرد پڑتے چہرے کو بغور دیکھا ۔
بے چاری نوری .. پڑھ لکھ کر بھی لالو کے دل کو نہ بھا سکی ۔ کیا فائدہ ایسی پڑھائی کا ۔

دیکھ چاچا! بیٹی کو اگلے گھر بھیجو تو اتنا ضرور سمجھا دینا کہ لڑکی ذات بھلے منسٹر لگ جاوے کامیاب تبھی کہلاتی ہے جب شوہر کے دل کی منسٹری کی کرتا دھرتا ہوتی ہے ۔ لالو کی تیز آواز چاچا کی سوچ میں مخل ہوئی تو چاچا لالو کی طرف متوجہ ہوتا ہوا لالو کے گیان سے پوری طرح متفق دکھائی دے رہا تھا ۔

ہاں لالو پتر! کہتا تو تو ٹھیک ہے ۔ دھی رانی کی ماں نے ساری زندگی مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تو زندگی جنت بنی رہی ۔ میں اس سے راضی رہا تو وہ گھر کی ملکہ بن کے راج کرتی رہی ۔ بس اللہ سب بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے ۔
چاچا شبیر صافہ جھاڑ کے اٹھ کھڑے ہوئے ۔

اچھا لالو چلتا ہوں ۔ ماسی شمریزی نے بلوایا تھا ان سے ملنے جانا ہے ۔
رب کی امان میں چاچا ۔ ماسی کو میرا بھی سلام کہنا .. لالو کی تیز آواز نوری کے کان میں صور بن کے اتری تو اسے خیال آیا ' چولہے پہ دھری چائے چاچا شبیر کے لیے ہی تو رکھی تھی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ آواز دے کے چاچا کو روکتی وہ گیٹ سے نکل چکا تھا ۔
کپ میں چائے ڈال کے وہ لالو کو دینے باہر آگئی ۔ جہاں لالو ابھی بھی اپنی مکار آنکھوں کو گول گول گھما رہا تھا ۔

ٹیبل پہ چائے رکھتی نوری کو دیکھ کر چونکا اور پھر اسکی زبان زہر اگلنے لگ گئی ۔

" لڑکیاں پڑھ لکھ جائیں تو روز نئے آشنا کا ساتھ چاہتی ہیں ۔ آج کل کے مردوں کی غیرت روز بہ روز مرتی جا رہی ہے ۔ میری تو قسمت اللہ بخشے جنت مکانی اماں نے پھوڑ ڈالی ... کہ لالو تیرے لیے پڑھی لکھی دلہن لاؤں گی ۔ اور لے آئیں آنسہ نوری اکرام کو ۔ جنہیں گھر قید خانہ لگتا ہے اور ہمہ وقت جی باہر کی دنیا میں لگا رہتا ہے ۔

دیکھا تھا اس دن جب تو اسکول سے واپسی پہ سہیلی کے ساتھ بھٹے والے کو دیکھ کے ٹھٹھے لگا رہی تھی ۔ گھر میں تو ہر وقت سوگ میں رہتی ہے ۔ یہاں یاروں کا میلہ جو نہیں ۔ شریف اور غیرت مند شوہر تجھ جیسیوں کا بھلا کیونکر گوارا ہو سکتا ہے ۔ یہ قوم کے بچوں کو پڑھاتی ہیں ۔ جانے عشق معشوقی کے کون سے انداز سکھلاتی ہونگی ۔ "

لالو کی کریہہ گفتگو سے نوری کی روح تک جھلس کے رہ گئی لیکن وہ تعلیم یافتہ لالو کو کچھ بھی کہہ کے بات بڑھا نہیں سکتی تھی ۔ ڈولی میں بٹھاتے سمے اماں نے کہا تھا ہمارے گھر سے تمھیں کندھوں پہ لے جانے کا مطلب کہ تمھاری اب یہاں واپسی کبھی نہیں ہو سکتی ۔ شوہر کی دہلیز پہ جان دے دینا لیکن مڑ کر آنے کا سوچنا بھی مت ۔ تجھے پڑھایا لکھایا ہے ماں کے سر میں خاک نہ ڈلوانا ۔ باپ کے نام پہ کوئی دھبہ مت لگنے دینا بیٹی ۔ اور نوری نے جنت مکانی ابا جی کی روح سے وعدہ کیا کہ انکے نام پہ کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دے گی ۔

نوری کو ہر لمحے تعلیم کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ۔

لالو شہر سے چودہویں جماعت میں فیل ہو کے آیا تھا ۔ لالو کی زندگی کا واحد مقصد باتیں بگھارنا اور اپنی بڑائی بیان کرنا تھا ۔ باتوں کے چھل فریب توڑ مروڑ کا وہ فن کار تھا اور اسی فن کاری کو استعمال کرتے ہوئے فحش کہانیاں لکھتا ۔ یار دوستوں نے اپنے چٹخارے کی خاطر تعریفیں کر کر کے لالو کے دماغ کو ساتویں آسمان پہ پہنچا رکھا تھا ۔ وہ خود کو بڑا ادیب گردانتا ۔ کسی طرح چند کتابیں چھپ چھپا گئیں اور لالو کی گردن کے سریے میں مزید اضافہ کر گئیں ۔
وہ سارا دن چارپائی پہ پڑا عظیم خیالات میں گم رہتا ۔ اسکا خیال تھا کہ وہ ایسے عظیم الشان دماغ کا مالک ہے کہ اسکا لکھا ادب چہار دانگ عالم میں مقبول ہوگا ۔ ایسے پائے کے ادیب کا خود کو کسی بھی اور کام میں مصروف کرنا زرخیز دماغوں اور ادب کے شوقین قارئین کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ لالو کسب معاش کو اپنی ذمے داری ہر گز نہیں سمجھتا تھا ۔ وہ کہا کرتا ادیب پیٹ کا بھوکا نہیں ہوتا فکر اور خیال کی بھوک اسکا محور ہوا کرتی ہے ۔
نوری گاؤں کے واحد ماسٹر ' ماسٹر اکرام کی بیٹی تھی ۔ ماسٹر اکرام اس سال دار فانی سے کوچ کر گئے تھے جس سال لالو کی ماں نے نوری کا ہاتھ لالو کے لیے مانگا تھا ۔
ماسٹر اکرام کی بیوہ سیدھی سادی خاتون تھی ۔ لالو کو تعلیم یافتہ سمجھ کر ماسٹر کی واحد نشانی کا ہاتھ تھما دیا ۔
لالو کے گھر کی دہلیز پار کی تو ارمانوں بھری رات میں لالو نوری کے آشناؤں کی فہرست پوچھتا رہا ۔ نوری کسی بھی غیر مرد کا نام اپنے نام کے ساتھ سنتی تو کانپ کے رہ جاتی لیکن لالو بضد تھا کہ نوری جیسی لڑکی جو ہر روز اسکول کالج کے بہانے گھر سے باہر جاتی ہے اسکا ضرور کوئی آشنا ہوگا ۔

نوری اللہ کی قسم کھا کے انکار کرتی جاتی اور سہیلیوں کی چھیڑ خانیوں اور سرگوشیوں میں کیا گیا سولہ سنگھار آنسوؤں سے بہتا جاتا ۔

دیکھ نوری! میں حقیقت پسند مرد ہوں ۔ افسانے لکھتا ضرور ہوں لیکن زندگی کو حقیقت پسندی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ جوان اور حسین عورت اتنا عرصہ مرد کی نگاہ سے بچی رہے یہ ممکن ہی نہیں ۔ عورت ارمانوں بھری ہوتی ہے اسے ساتھ چاہیے ہوتا ہے اسکی مثال بلی جیسی ہے دودھ نہ ملے تو چوری سے پی لیتی ہے لیکن خود کو بھوکا نہیں رکھتی ۔
تو آشنا کا نام بتائے گی تو میں برا نہیں مانوں گا ۔ میں حقیقت کو قبول کرنے والا ہوں ۔
نوری انکار میں سر ہلاتی جاتی اور لالو حقیقت پسندی کا راگ الاپے جاتے ۔
پریکٹیکل اپروچ رکھنے والا مرد عورت کو بھی چیز سمجھتا ہے ۔ اسکی کوالٹی چیک کرتا ہے ۔ میٹریل دیکھتا ہے اور اس حساب سے قیمت ادا کرتا ہے ۔
عورت چائنا کا مال ہے کہ جاپان کا ' لالو کا دعوٰی تھا کہ وہ ایک نظر میں کارکردگی بتا سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ حقیقت پسند ہے ۔ ایسا حقیقت پسند جس کے خیال میں جذبات فقط مرد کے ہوتے ہیں ۔ عورت تو فقط ایک آبجیکٹ ہے ۔
نوری کا جی چاہتا کہیں بھاگ جائے ۔ کاش اسکا واقعی کوئی آشنا ہوتا جس کے ساتھ وہ لالو کی چنگل سے آزاد ہونے کے لیے بھاگ جاتی ۔

لالو کوئی کام دھندا نہیں کرتا تھا ۔ گھر کا دال دلیہ چلانا مشکل تھا ۔ نوری نے ساس کے کہنے پہ سرکاری نوکری کی درخواست دی تھی اور اب لڑکیوں کے سرکاری اسکول میں ماسٹرنی تھی ۔
جو تنخواہ لاتی لالو کے ہاتھ پہ دھر دیتی ۔ اور گھر میں کسی قیدی جیسی زندگی گزارنے لگ جاتی ۔ وہ قیدی جسے قیدبا مشقت ہوئی ہو ۔

لالو خود کو عقل کل سمجھتا اور نوری کو طعنے دینا مار پیٹ کرنا حقیقت پسندی خیال کرتا ۔
نوری خاموشی کو ہتھیار سمجھتی ۔ اسی گھر سے جنازہ نکلنا تھا ورنہ روز قیامت ابا جی کو کیا منہ دکھاتی ۔ جس نوری کو ہزار مخالفت لے کے پڑھایا تھا وہ گھر نہ بسا سکی ۔
گھر بسانا کس قدر مشکل ہوا کرتا ہے نوری کا ہر گز اندازہ نہیں تھا ۔ وہ کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی ۔ کیسی جگ ہنسائی ہوتی ۔ کہ نوری کا شوہر خواہ مخواہ تو شک نہیں کرتا کچھ تو آگ لگی ہوگی جو دھواں اٹھتا ہے ۔
گھٹن نوری کو اندر اندر سے کھاتی جاتی ۔ سال بھر میں وہ سوکھ کے کانٹا ہو گئی تھی ۔ کھلتی رنگت پیلی زرد ہو چکی تھی ۔

لالو اس کی صحت کی مخدوش حالت کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ۔
انور اور اعجاز لالو کے جگری دوست تھے ۔ وہ آئے تو لالو جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے بیٹھ گیا ۔
جازی تمھاری بیوی ماسٹر اکرام کے خاندان سے ہے ۔ اس سے کہو اپنی برادری سے میرا اور نوری کا فیصلہ کروا دے ... یہ ہر وقت کسی کے سوگ میں گم رہتی ہے ۔ شوہر پاس موجود ہے لیکن غم و یاس کی تصویر بنی پھرتی ہے ۔ جانے کس کے خیال اور یاد نے اسے ایسا کر رکھا ہے ۔ تم بھی جوان ہو مرد ذات ہو بتاؤ بھلا ایسی بیوی کے ساتھ گزارہ کر سکتے ہو ۔

صحن میں چارپائی پہ گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے لالو کی زبان زہر اگل رہی تھی اور نوری کا حال کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والا تھا ۔

جس دن سے آئی ہے آشنا کی یاد دل سے لگائے بیٹھی ہے ۔ صبح گھر سے نکلتی ہے ڈھلتی دوپہر میں لوٹتی ہے ۔ کچھ پوچھوں تو آنکھوں میں آنسو لے آتی ہے ۔
میں آنسو نہیں دیکھ سکتا یار ... بس دل کا نرم ہوں لیکن بے غیرت بن کے تو نہیں جی سکتا نا ۔
ہاں ہاں لالو صحیح کہتا ہے ان پڑھی لکھی نوکری پیشہ عورتوں کا بڑا نخرہ ہوتا ہے ۔ اپنی من مانی کرتی ہیں ۔ میں کل ہی برادری کے بڑے بزرگوں کو بلواتا ہوں ۔ ایسا کب تک چلے گا ۔ ہم بھی بیٹیوں والے ہیں ایسی حرکتیں نہیں دیکھ سکتے ۔ اعجاز کی کمینگی عروج پہ تھی ۔ وہ اس چٹخارے دار کہانی کا کریڈٹ اپنے سر لینا چاہتا تھا کہ ماسٹر اکرام کی پڑھی لکھی بیٹی شوہر کی موجودگی میں غیر مردوں سے آشنائی رکھتی ہے ۔

جس وقت جازی اپنے دماغ میں بنے اسکرپٹ سے حظ اٹھا رہا تھا عین اسی وقت باورچی خانے میں کام کرتی نوری کا دل بہت اچھے وقت پہ رک گیا تھا ۔ اور آج اسکا ڈولا چار کاندھوں پہ ابا جی کی قبر کے ساتھ کھدی ہوئی تازہ قبر کے پاس آکے رکا تھا ۔
نوری کے قبر کے کتبے پہ " سرخرو بیٹی " لکھا ہوا فقط اہل دل کو نظر آتا تھا ۔ ورنہ وہاں تو جلی حروف میں زوجہ لعل حسین لکھا تھا ۔

لیکن لالو اسے آج بھی حقیقت پسندی کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔
" زوجہ لعل حسین محبوبہ کسی آشنا کی "

سمیرا امام
 
Top