موجودہ صورتحال میں معاشی حالات کیسے درست کریں؟

موجودہ صورتحال میں معاشی حالات کیسے درست کریں؟

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ – طائف

میرے پاس بہت سارےعام لوگوں کی طرف سے یہ میسج آرہا ہے کہ کوئی ایسا وظیفہ بتائیں جس کے پڑھنے سے روزگار مل جائے اور معاشی مسئلہ دور ہوجائے جبکہ اہل علم کی جانب سے مالی امداد کے پرائیویٹ پیغامات موصول ہوتے رہے ہیں ۔ایسے میں خیال پیدا ہوا کہ اسلامی تعلیمات کی روسےاس مسئلے پر مختصر کچھ روشنی ڈال دوں تاکہ عوام وخواص کو معاشی رہنمائی مل سکے۔
میں سمجھتاہوں جو لوگ اس وقت حالات کا رونا روتے ہیں یا لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں یاپھر قرض لینے اور ادا کرنے میں پریشان ہورہے ہیں ان کے لئے بہترہے کہ سامنے جو بھی کام نظر آئے اسے کسب رزق کا ذریعہ بنالےخواہ وہ لکڑی ڈھونے ، باربرداری کرنے، کھیتی باڑی کرنے، تعمیری کام کرنے، سلائی کڑھائی کرنے اور محنت ومزدوری کرنے والا کام کیوں نہ ہو۔ ہماری مشکلات خصوصا مخصوص طبقہ بشمول اہل علم یہ ہے کہ وہ ہاتھوں کی کمائی سے متعلق بے شمار پیشوں کو حقیرسمجھتے ہیں کیونکہ یہ سماج کی نظر میں حقیر ہیں،آج بھی بنکروں کوحقارت سے جولاہاکہہ کر پکارا جاتاہے۔ یاد رکھیئے اسلام کی نظر میں کوئی بھی جائز پیشہ حقیر وکمتر نہیں ہوتا ۔ایک دوسری پریشانی یہ ہے کہ اکثر لوگ آرام پسند ایرکنڈیشن کام تلاش کرتے ہیں جس میں تنخواہ کا گراف بھی اونچا ہو ۔
ان دو وجوہات کی بناپر بہت سے لوگ معاشی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں اور دردرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کمائی ہاتھ سے کمائی ہوئی ہے ۔ مقدام بن معدی کرب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں:
ما اكل احد منكم طعاما احب الى الله عز وجل من عمل يديه(مسند احمد)
ترجمہ: تم میں سے کسی نے بھی ایسا کھانا نہیں کھایا جو رب تعالیٰ کو اس کے ہاتھوں کی کمائی سے زیادہ محبوب ہو۔
یہی روایت مذکورہ صحابی سے صحیح بخاری میں اس طرح مروی ہے،نبی ﷺکا فرمان ہے:
ما أكَلَ أحَدٌ طَعامًا قَطُّ، خَيْرًا مِن أنْ يَأْكُلَ مِن عَمَلِ يَدِهِ، وإنَّ نَبِيَّ اللَّهِ داوُدَ عليه السَّلامُ، كانَ يَأْكُلُ مِن عَمَلِ يَدِهِ(صحيح البخاري:2072)
ترجمہ: کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔
اس حدیث سے اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ ہاتھوں کی کمائی شرف ومنزلت والی کمائی ہے کیونکہ یہ انبیاء کا پیشہ ہے اور اللہ کو محبوب ہے ۔ بھلائی ایسا کوئی کام جسے اللہ پسند کرتا ہو اور نبیوں نے اختیار کیا ہوکبھی حقیر ہوسکتا ہے یا اس کے کرنے میں عار محسوس کی جاسکتی ہے ؟۔ نہیں ،ہرگز نہیں ۔
اسلام نے حلال وطیب رزق حاصل کمانے اور کھانے کی ترغیب دے کر اس پر شکرگزاری کا حکم دیا ، فرمان الہی ہے :
فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ(النحل:114)
ترجمہ: جو کچھ حلال اور پاکیزہ روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو ۔
اور نبی ﷺحلال روزی میں سب سے پاکیزہ روزی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
ما كسبَ الرَّجلُ كَسبًا أطيبُ من عملِ يدِه وما أنفقَ الرَّجلُ على نفسِه وأهلِه وولدِه وخادِمِه فهو صدَقةٌ(صحيح ابن ماجه:1752)
ترجمہ: آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہواور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے۔
اس حدیث سےمعلوم ہواکہ حلال روزیوں میں ہاتھوں کی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے اس لئے اپنے دونوں ہاتھوں کو محنت ومزدوری کے کسی کام میں لگانے میں شرم محسوس نہیں کرنا چاہئے ۔ انسانوں میں سب سے افضل طبقہ انبیاء کا ہے ان سب نے بکریاں چرائیں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إلَّا رَعَى الغَنَمَ، فقالَ أصْحابُهُ: وأَنْتَ؟ فقالَ: نَعَمْ، كُنْتُ أرْعاها علَى قَرارِيطَ لأهْلِ مَكَّةَ(صحيح البخاري:2262)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
موسی علیہ السلام کے بارے میں قرآن شاہد ہے کہ انہوں مدین کے بزرگ کے یہاں( دس سال )بکریاں چرائیں ، بکری چرانے کے علاوہ انبیاء کے متعلق مختلف قسم کے ہاتھ والے پیشے کی صراحت ملتی ہے ۔ نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے، ادریس علیہ السلام خیاطی کرتے ،الیاس علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام لوہاری کیا کرتے اور ابراہیم علیہ السلام نے سب سے افضل گھرکعبہ کی تعمیر کی یعنی وہ تعمیراتی کام جانتے تھے ۔ کیا انبیاء کے ان پیشوں میں ہمارے لئے سبق نہیں ہے کہ اگر ان دنوں حالات بدسے بدتر ہیں تو ہاتھوں سے کیا جانے والا جو بھی کام ہم کر سکتے ہیں بطور پیشہ اختیار کرلیں اور اس کے ذریعہ روزی روٹی کا انتظام کرسکیں ۔ ذرا اس حدیث پر بھی غور کرلیں کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مجبوری میں محنت ومزدوری کرنے اور سوال کرنے سے منع فرمایاہے چنانچہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ، فَيَأْتِيَ بحُزْمَةِ الحَطَبِ علَى ظَهْرِهِ، فَيَبِيعَهَا، فَيَكُفَّ اللَّهُ بهَا وجْهَهُ خَيْرٌ له مِن أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوهُ(صحيح البخاري:1471)
ترجمہ:تم میں سے کوئی بھی اگر (ضرورت مند ہو تو) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے۔ اور اسے بیچے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھا ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے ‘ اسے وہ دیں یا نہ دیں۔
حالات جس قدر بھی خراب ہوجائیں یہ حدیث سبق دیتی ہے کہ گزربسر کے لئے کوئی کام نہ ملے تو لکڑی اٹھانے اور بیچنے کا ہی کام ہی کرلیاجائے لیکن کام چور بن کر لوگوں سے بھیک نہ مانگاجائے ۔ لکڑی کی مثال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی کام کیا جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ حلال اور پاکیزہ روزی کے لئے محنت در محنت اور کڑی سے کڑی مشقت اٹھانی پڑے گھبرانا نہیں چاہئے ۔ محنت کرکے حلال روزی ہی کھانی چاہئے ۔دین اسلام عمل وکردار کا نام ہے ، یہ ہمیں دنیا وآخرت کی کامیابی کے لئے عمل پر ابھارتا ہے ، بغیر عمل کے نہ دنیا کی کامیابی ممکن ہے اور نہ ہی آخرت کی ۔ مرنے سے پہلے تھوڑی سی مہلت مل جائے اس وقت بھی اسلام عمل کی ترغیب دیتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنْ قامَتِ السَّاعةُ وفي يدِ أحدِكُم فَسيلةً فإنِ استَطاعَ أن لا تَقومَ حتَّى يغرِسَها فلْيغرِسْها(صحيح الأدب المفرد:371)
ترجمہ:اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو اور اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہئے۔
دھیان سے اس حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے کس قدروقت کو اہمیت دی ہے اور کس قدرقلیل وقت میں بھی عمل کرنے کی ترغیب دی ہے بلکہ درخت لگانے کا ذکر زراعت کی اہمیت اور اسے بطور پیشہ اختیار کرنے کی طرف اشارہ کناں ہے ۔ صحیح بخاری میں صراحت کے ساتھ مسلمانوں کے لئے زراعت کاذکر ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما مِن مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ منه طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كانَ له به صَدَقَةٌ(صحيح البخاري:2320)
ترجمہ:کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔
معیشت کے سلسلے میں باتیں بہت زیادہ ہیں جن کےذکر سے موضوع کافی طویل ہوجائے گا اس لئے طوالت میں نہ جاکر معیشت سے متعلق اوپر جن دلائل کا ذکر کیا گیاہےان کی روشنی میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ اپنی معاشی حالت درست کرنے کے لئے قطع نظر اس سے کہ سماج کیا کہے گا یا سماج کی نظر میں کون سا پیشہ محترم ہے آپ اپنے ہاتھوں سے جو کام کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہمت جٹاکراللہ پر توکل کرتے ہوئے اس کام میں لگ جائیں ۔ ہاتھوں سے متعلق سیکڑوں کام ایسے ہیں جن میں ڈگری اور ہنر کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف محنت چاہئے ۔ میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ تجارت نہ کریں یا آپ ترقی یافتہ اقتصادی شعبوں سے نہ جڑیں بلکہ اس مضمون کے ذریعہ ان مایوس بھائیوں کو دلاسہ دینا اور عمل کی طرف راغب کرانا چاہتا ہوں جویہ کہتے ہیں میرے پاس کوئی کام نہیں ہے ۔ آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں چاروں طرف کام ہی کام ہے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں کام کرنا نہیں چاہتا ۔ ابن الجوزی نے تاریخ عمربن الخطاب میں ذکر کیا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص مجھے پسند آتا اس کے بارے میں پوچھتا کہ اس کے پاس کوئی کام ہے ، جب یہ معلوم ہوتا کہ اس کے پاس کوئی کام نہیں ہے تو وہ میری نظروں سے گر جاتا۔علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الدرر المنتثرہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول ذکر کیا ہے ،وہ کہتے ہیں میں فارغ بیٹھے شخص کو ناپسند کرتا ہوں جو نہ دنیاوی کام کرتا ہو نہ اخروی کام ۔
کام آپ کے پاس آپ کے ہاتھ میں ہے ، چاہے تو کریں اور چاہیں تو نہ کریں مگر کبھی یہ نہ کہیں کہ میرے پاس کام نہیں ہے ۔ ہاں بعض کاموں میں شرم وحیا آتی ہے ، سماج کا خیال آتا ہے مگر ہمیں عزت کی روٹی ہاتھوں کی کمائی سے نصیب ہوتو بھوکے مرنےیا کسی کے سامنےلجاتے ہوئے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے ۔ ساتھ ہی اللہ تعالی سے دعائیں بھی کریں یعنی جہاں اسباب اپناکر کسب معاش کے لئے کوشش کرنی ہے وہیں اللہ سے روزی مہیاکرنےاور اس میں برکت دینے کی دعا بھی کرنی ہے ۔ اللہ روزی دینے والا ہےوہ کوشش کرنے والو ں کو روزی عطا کرتا ہے ۔
 
Top