موجودہ سیاسی کلچر کی جہتیں... صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
SMS: #DSM (space) message & send to 8001
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
موجودہ سیاسی منظر اور سیاسی کلچر کی کئی جہتیں ہیں اور ان سب پر تھوڑی تھوڑی روشنی ڈالنا ضروری ہے ورنہ تحریر غیر متوازن اور اکثر اوقات یکطرفہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں اور کالم نگار حضرات کی اکثریت اپنے اپنے مورچے سنبھالے بیٹھی ہے انہیں کسی کے خلاف نفرت کا آتش فشاں بھڑکانا ہوتا ہے یا کسی کے دفاع اور تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے ہیں، کسی کا حق نمک ادا کرنا ہے یا ادھر ادھر سے اکٹھی کی گئی معلومات سے تحریر کو سجا کر سنسنی خیز بنانا ہے وغیرہ وغیرہ، چنانچہ اس ساری مشق ستم میں توازن محبتوں اور نفرتوں کی سمادی میں گم ہو جاتا ہے۔ ہر طرف بے تحاشا تجزیات کے سمندر بہہ رہے ہیں کیونکہ سیاسی تجزیے آسان ترین کام اور تیزی سے فروخت ہونے والا مال ہے ۔بس روزانہ دو تین اخبارات پڑھ لو اور اندازوں کے غبارے چھوڑنے شروع کر دو۔ وہ اندازے کس قدر درست نکلے؟ وقت کے تیز بہتے دھارے میں اس کا حساب لگانے کی کسے فرصت ہے؟ یہی وجہ ہے کہ مجھے خیر خواہ دوست اور ہمدرد قارئین سیاسی تجزیوں پر قلم اٹھانے سے منع کرتے ہیں اور اس بات کی تلقین کرتے رہتے ہیں کہ اہم سنجیدہ قومی، علمی، مذہبی، معاشرتی اور تاریخی موضوعات پر لکھتے رہو اس سے قارئین کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ذہنی تربیت کا عمل بھی جاری رہتا ہے ۔ میری زندگی کا معتد بہ حصہ پاکستان کی تاریخ و سیاست پر تحقیق کرتے اور کتابیں لکھتے گزرا ہے اس کے باوجود میں سیاسی تجزیوں سے ’’پرہیز‘‘ کرتا ہوں لیکن کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے اور قارئین کو تبدیلی کا احساس دلانے کے لئے سیاست کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے باز نہیں آتا۔ اور ہاں مجھے کہنے دیجئے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کے حسن کا بڑا چرچا ہوتا ہے اور اس چرچے کے چکر میں ہر قسم کی بدصورتی جمہوریت کے حسن میں شامل کر دی جاتی ہے جو بقول شخصے ’’یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے‘‘ لیکن میں آپ کی توجہ جمہوریت کے اصل حسن کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور وہ ہے توازن، برداشت اور احتساب اور آزادی فکر و اظہار.... ذرا غور کیجئے تو احساس ہو گا کہ یہ سارے دین اسلام کے اہم اور بنیادی اصول ہیں۔ مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ توازن، برداشت، حسن اخلاق سیرت نبوی ﷺ کے بنیادی سبق ہیں اور اس کے علاوہ سیرت نبویﷺ کے اور بھی ان گنت پہلو ہیں جن سے مسلمان اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن ہم ان پر عمل نہیں کرتے جس کے مظاہرے قدم قدم پہ ملتے ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عدم توازن، عدم برداشت اور عدم محسن اخلاق ہمارا قومی کردار بن چکے ہیں جبکہ غیرمسلمانوں میں یہ جنس بہ افراط ملتی ہے۔ چلئے اس موضوع کو طول نہیں دیتے ورنہ آپ سمجھیں گے میں وعظ کر رہا ہوں حالانکہ میں صرف اپنے تجربات و مشاہدات کا ذکر کر رہا ہوں۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جس قسم کا سیاسی کلچر پاکستان میں پروان چڑھ رہا ہے اس کی کئی جہتیں ہیں جن پر غور کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اس کالم کا مقصد ان کی نشاندہی کرنا ہے نہ کہ علاج تجویز کرنا کیونکہ ہر سیاسی پارٹی کے پاس اپنے اپنے ڈاکٹر موجود ہیں۔ موجودہ سیاسی رجحانات کو سمجھنے کے لئے بھی اپنی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ سمجھا جا سکے کہ ہم کہاں اور کس طرف جا رہے ہیں۔ ایک تاریخی واقعہ یاد آ گیا ہے پہلے وہ بیان کرنے دیجئے۔ آپ کو علم ہو گا کہ گاندھی جی پرارتھنا کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے جس میں خاصے لوگ شریک ہوتے تھے ایک بار گاندھی جی اپنے چاہنے والوں کے ساتھ لنگوٹی پہنے پرارتھنا میں مصروف تھے کہ اچانک کہیں سے سانپ نکل آیا۔ پھر سانپ کسی اور بل میں گھس گیا۔ ہندو پریس نے اس واقعے کو گاندھی جی کی کرامت کے طور پر اچھالا۔ قائداعظم ؒ سے تبصرے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے چند الفاظ کہے جن میں شائستہ طنز بھی تھا اور ہندو ذہنیت پر ہلکی سی چوٹ بھی۔ قائد اعظم نے کہا کہ ’’یہ باہمی آداب کا مظاہرہ تھا ‘‘ تحریک پاکستان کے صفحات کھنگالتے ہوئے مجھے کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملا جس میں قائد اعظم ،گاندھی، نہروپٹیل اور ان کے رفقاء نے ایک دوسرے کے لئے تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کئے ہوں۔ سارے مخالف ترین سیاسی لیڈران اور متحارب دھڑے ایک دوسرے کا ذکر مہذب انداز سے کرتے تھے۔ 1940ء کی دہائی میں ہندوستان کے سیاسی لٹریچر کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا لیکن جب سیاسی گرمی اور حدت عروج پر تھی اس وقت بھی قائداعظم نے مولانا ابو الکلام آزاد کے بارے میں جو سخت سے سخت فقرہ کہا وہ سیاسی حقائق کا نچوڑ اور تہذیب کی حدود کا مظہر تھا۔ انہوں نے کہا مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے شو بوائے ہیں یعنی کانگریس نے انہیں صرف مسلمانوں کی نمائندگی کا تاثر دینے کے لئے ’’نمائشی‘‘ بنا رکھا ہے ورنہ کانگریس کی فیصلہ سازی میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ پھر یہ بات کابینہ مشن کے موقع پر ثابت ہو گئی جب کابینہ مشن پلان کو مسترد کرنے کے لئے نہرو نے مولانا کو ہٹا کر خود کانگریس کی سربراہی سنبھال لی۔
مقصد کہنے کا یہ تھا کہ نصف صدی کی سیاسی جدوجہد میں جو بالآخر تقسیم ہند پر منتج ہوئی، فتوے بھی جاری ہوئے، تنقید کے تیر بھی چلائے گئے لیکن گالم گلوچ تک نوبت کبھی نہیں آئی۔ ذاتی حملوں سے بھی گریز کیا جاتا رہا سوائے احرار کےمولانا مظہر علی اظہر کے جنہوں نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا۔ اس حملے کو نہ صرف مسلم لیگ نے اگنور کیا بلکہ مجلس احرار کے سنجیدہ حلقوں نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ قائد اعظم کے ساتھی 1958ء تک سیاست کے میدان میں معرکے لڑتے رہے، انتخابات بھی ہوئے اور 1958ء میں انتخابی مہم بھی زوروں پر تھی جسے جنرل ایوب خان اور سکندر مرزا نے سبوتاژ کر دیا لیکن ساری سیاسی مہم تہذیب کے دائرے تک محدود تھی ان کے بعد ایوب خان آئے تو وہ جلسوں میں اپوزیشن کو ’’دلا‘‘ لوگ کہا کرتے تھے جو ہماری لغت میں انتہائی قابل اعتراض لفظ ہے ۔مادر ملت کے خلاف انتخابی مہم میں گھبرا کر ایوبی کیمپ کی جانب سے تہذیب سے گری ہوئی حرکات کی گئیں جو ان کے خلاف گئیں۔ یہاں سے ایک ایسا سیاسی دور شروع ہوا جس میں تہذیب و اخلاق کے بندھن ٹوٹنے لگے۔ اسے آپ آمرانہ ورثہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی مہم میں عوامی لہجہ اپنانے اور جلسوں میں شریک ہجوم کا دل لبھانے کے لئے اصغر خان کے لئے آلو خان اور خان قیوم خان کے لئے ڈبل بیرل خان کے القابات استعمال کئے جو ذومعنی بھی تھے اور قدرے مزاحیہ بھی لیکن اس کے جواب میں دائیں بازو کے دانشوروں نے ہاتھ اتنے لمبے کئے کہ ان کی مرحوم والدہ صاحبہ کے دامن تک جا پہنچے۔ کچھ ایسا ہی سلوک محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو سے بھی کیا گیا لیکن داد دیجئے جناب زرداری صاحب کو کہ انہوں نے محترمہ نصرت بھٹو کی نیم عریاں تصاویر چھاپنے والوں کو بھی سینے سے لگالیا، انہیں عہدے بھی دیئے اور پیسے بنانے کا موقع بھی دیا ۔ کچھ لوگ اسے زرداری صاحب کی بھٹو سے بے وفائی پر معنون کرتے ہیں اور کچھ اسے ان کی حکمت عملی کا شاہکار قرار دیتے ہیں ۔
اب میں دیکھ رہا ہوں کہ توازن، برداشت اور حسن اخلاق کے بند ٹوٹ رہے ہیں ۔ ہمارے لیڈران بدتمیزی کے سیاسی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ نہ ہی صرف ہمارے دینی اور مذہبی اصولوں کی نفی ہے بلکہ اس رویے سے جمہوریت کی بنیادوں پر بھی زد پڑتی ہے۔ کیا ہم یہ کلچر اپنی آئندہ نسلوں کو میراث کے طور پر منتقل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سب کے لئے ہمارے سیاست دانوں، کارکنوں، دانشوروں اور قوم کے لئے ۔!!
معاف کیجئے گا ارادہ تھا موجودہ سیاسی منظر کی مختلف جہتوں پر لکھنے کا لیکن صرف ایک ہی پہلو سارے کالم پر چھا گیا، یار زندہ، محبت باقی۔



SMS: #DSM (space) message & send to 8001
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
موجودہ سیاسی منظر اور سیاسی کلچر کی کئی جہتیں ہیں اور ان سب پر تھوڑی تھوڑی روشنی ڈالنا ضروری ہے ورنہ تحریر غیر متوازن اور اکثر اوقات یکطرفہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں اور کالم نگار حضرات کی اکثریت اپنے اپنے مورچے سنبھالے بیٹھی ہے انہیں کسی کے خلاف نفرت کا آتش فشاں بھڑکانا ہوتا ہے یا کسی کے دفاع اور تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے ہیں، کسی کا حق نمک ادا کرنا ہے یا ادھر ادھر سے اکٹھی کی گئی معلومات سے تحریر کو سجا کر سنسنی خیز بنانا ہے وغیرہ وغیرہ، چنانچہ اس ساری مشق ستم میں توازن محبتوں اور نفرتوں کی سمادی میں گم ہو جاتا ہے۔ ہر طرف بے تحاشا تجزیات کے سمندر بہہ رہے ہیں کیونکہ سیاسی تجزیے آسان ترین کام اور تیزی سے فروخت ہونے والا مال ہے ۔بس روزانہ دو تین اخبارات پڑھ لو اور اندازوں کے غبارے چھوڑنے شروع کر دو۔ وہ اندازے کس قدر درست نکلے؟ وقت کے تیز بہتے دھارے میں اس کا حساب لگانے کی کسے فرصت ہے؟ یہی وجہ ہے کہ مجھے خیر خواہ دوست اور ہمدرد قارئین سیاسی تجزیوں پر قلم اٹھانے سے منع کرتے ہیں اور اس بات کی تلقین کرتے رہتے ہیں کہ اہم سنجیدہ قومی، علمی، مذہبی، معاشرتی اور تاریخی موضوعات پر لکھتے رہو اس سے قارئین کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ذہنی تربیت کا عمل بھی جاری رہتا ہے ۔ میری زندگی کا معتد بہ حصہ پاکستان کی تاریخ و سیاست پر تحقیق کرتے اور کتابیں لکھتے گزرا ہے اس کے باوجود میں سیاسی تجزیوں سے ’’پرہیز‘‘ کرتا ہوں لیکن کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے اور قارئین کو تبدیلی کا احساس دلانے کے لئے سیاست کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے باز نہیں آتا۔ اور ہاں مجھے کہنے دیجئے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کے حسن کا بڑا چرچا ہوتا ہے اور اس چرچے کے چکر میں ہر قسم کی بدصورتی جمہوریت کے حسن میں شامل کر دی جاتی ہے جو بقول شخصے ’’یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے‘‘ لیکن میں آپ کی توجہ جمہوریت کے اصل حسن کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور وہ ہے توازن، برداشت اور احتساب اور آزادی فکر و اظہار.... ذرا غور کیجئے تو احساس ہو گا کہ یہ سارے دین اسلام کے اہم اور بنیادی اصول ہیں۔ مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ توازن، برداشت، حسن اخلاق سیرت نبوی ﷺ کے بنیادی سبق ہیں اور اس کے علاوہ سیرت نبویﷺ کے اور بھی ان گنت پہلو ہیں جن سے مسلمان اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن ہم ان پر عمل نہیں کرتے جس کے مظاہرے قدم قدم پہ ملتے ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عدم توازن، عدم برداشت اور عدم محسن اخلاق ہمارا قومی کردار بن چکے ہیں جبکہ غیرمسلمانوں میں یہ جنس بہ افراط ملتی ہے۔ چلئے اس موضوع کو طول نہیں دیتے ورنہ آپ سمجھیں گے میں وعظ کر رہا ہوں حالانکہ میں صرف اپنے تجربات و مشاہدات کا ذکر کر رہا ہوں۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جس قسم کا سیاسی کلچر پاکستان میں پروان چڑھ رہا ہے اس کی کئی جہتیں ہیں جن پر غور کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اس کالم کا مقصد ان کی نشاندہی کرنا ہے نہ کہ علاج تجویز کرنا کیونکہ ہر سیاسی پارٹی کے پاس اپنے اپنے ڈاکٹر موجود ہیں۔ موجودہ سیاسی رجحانات کو سمجھنے کے لئے بھی اپنی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ سمجھا جا سکے کہ ہم کہاں اور کس طرف جا رہے ہیں۔ ایک تاریخی واقعہ یاد آ گیا ہے پہلے وہ بیان کرنے دیجئے۔ آپ کو علم ہو گا کہ گاندھی جی پرارتھنا کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے جس میں خاصے لوگ شریک ہوتے تھے ایک بار گاندھی جی اپنے چاہنے والوں کے ساتھ لنگوٹی پہنے پرارتھنا میں مصروف تھے کہ اچانک کہیں سے سانپ نکل آیا۔ پھر سانپ کسی اور بل میں گھس گیا۔ ہندو پریس نے اس واقعے کو گاندھی جی کی کرامت کے طور پر اچھالا۔ قائداعظم ؒ سے تبصرے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے چند الفاظ کہے جن میں شائستہ طنز بھی تھا اور ہندو ذہنیت پر ہلکی سی چوٹ بھی۔ قائد اعظم نے کہا کہ ’’یہ باہمی آداب کا مظاہرہ تھا ‘‘ تحریک پاکستان کے صفحات کھنگالتے ہوئے مجھے کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملا جس میں قائد اعظم ،گاندھی، نہروپٹیل اور ان کے رفقاء نے ایک دوسرے کے لئے تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کئے ہوں۔ سارے مخالف ترین سیاسی لیڈران اور متحارب دھڑے ایک دوسرے کا ذکر مہذب انداز سے کرتے تھے۔ 1940ء کی دہائی میں ہندوستان کے سیاسی لٹریچر کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا لیکن جب سیاسی گرمی اور حدت عروج پر تھی اس وقت بھی قائداعظم نے مولانا ابو الکلام آزاد کے بارے میں جو سخت سے سخت فقرہ کہا وہ سیاسی حقائق کا نچوڑ اور تہذیب کی حدود کا مظہر تھا۔ انہوں نے کہا مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے شو بوائے ہیں یعنی کانگریس نے انہیں صرف مسلمانوں کی نمائندگی کا تاثر دینے کے لئے ’’نمائشی‘‘ بنا رکھا ہے ورنہ کانگریس کی فیصلہ سازی میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ پھر یہ بات کابینہ مشن کے موقع پر ثابت ہو گئی جب کابینہ مشن پلان کو مسترد کرنے کے لئے نہرو نے مولانا کو ہٹا کر خود کانگریس کی سربراہی سنبھال لی۔
مقصد کہنے کا یہ تھا کہ نصف صدی کی سیاسی جدوجہد میں جو بالآخر تقسیم ہند پر منتج ہوئی، فتوے بھی جاری ہوئے، تنقید کے تیر بھی چلائے گئے لیکن گالم گلوچ تک نوبت کبھی نہیں آئی۔ ذاتی حملوں سے بھی گریز کیا جاتا رہا سوائے احرار کےمولانا مظہر علی اظہر کے جنہوں نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا۔ اس حملے کو نہ صرف مسلم لیگ نے اگنور کیا بلکہ مجلس احرار کے سنجیدہ حلقوں نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ قائد اعظم کے ساتھی 1958ء تک سیاست کے میدان میں معرکے لڑتے رہے، انتخابات بھی ہوئے اور 1958ء میں انتخابی مہم بھی زوروں پر تھی جسے جنرل ایوب خان اور سکندر مرزا نے سبوتاژ کر دیا لیکن ساری سیاسی مہم تہذیب کے دائرے تک محدود تھی ان کے بعد ایوب خان آئے تو وہ جلسوں میں اپوزیشن کو ’’دلا‘‘ لوگ کہا کرتے تھے جو ہماری لغت میں انتہائی قابل اعتراض لفظ ہے ۔مادر ملت کے خلاف انتخابی مہم میں گھبرا کر ایوبی کیمپ کی جانب سے تہذیب سے گری ہوئی حرکات کی گئیں جو ان کے خلاف گئیں۔ یہاں سے ایک ایسا سیاسی دور شروع ہوا جس میں تہذیب و اخلاق کے بندھن ٹوٹنے لگے۔ اسے آپ آمرانہ ورثہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی مہم میں عوامی لہجہ اپنانے اور جلسوں میں شریک ہجوم کا دل لبھانے کے لئے اصغر خان کے لئے آلو خان اور خان قیوم خان کے لئے ڈبل بیرل خان کے القابات استعمال کئے جو ذومعنی بھی تھے اور قدرے مزاحیہ بھی لیکن اس کے جواب میں دائیں بازو کے دانشوروں نے ہاتھ اتنے لمبے کئے کہ ان کی مرحوم والدہ صاحبہ کے دامن تک جا پہنچے۔ کچھ ایسا ہی سلوک محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو سے بھی کیا گیا لیکن داد دیجئے جناب زرداری صاحب کو کہ انہوں نے محترمہ نصرت بھٹو کی نیم عریاں تصاویر چھاپنے والوں کو بھی سینے سے لگالیا، انہیں عہدے بھی دیئے اور پیسے بنانے کا موقع بھی دیا ۔ کچھ لوگ اسے زرداری صاحب کی بھٹو سے بے وفائی پر معنون کرتے ہیں اور کچھ اسے ان کی حکمت عملی کا شاہکار قرار دیتے ہیں ۔
اب میں دیکھ رہا ہوں کہ توازن، برداشت اور حسن اخلاق کے بند ٹوٹ رہے ہیں ۔ ہمارے لیڈران بدتمیزی کے سیاسی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ نہ ہی صرف ہمارے دینی اور مذہبی اصولوں کی نفی ہے بلکہ اس رویے سے جمہوریت کی بنیادوں پر بھی زد پڑتی ہے۔ کیا ہم یہ کلچر اپنی آئندہ نسلوں کو میراث کے طور پر منتقل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سب کے لئے ہمارے سیاست دانوں، کارکنوں، دانشوروں اور قوم کے لئے ۔!!
معاف کیجئے گا ارادہ تھا موجودہ سیاسی منظر کی مختلف جہتوں پر لکھنے کا لیکن صرف ایک ہی پہلو سارے کالم پر چھا گیا، یار زندہ، محبت باقی۔