موت کا سوداگر پاکستانیوں کے نرغے میں

وہ بزنس ویزے پر پاکستان آیا تھا اور وہ تھا بھی ایک سوداگر‘ جی ہاں …موت کا سوداگر! پاکستان میں ایک سال قیام کے دوران وہ اہل پاکستان کی زندگیوں کے سودے کرتا اور ان میں موت بانٹتا رہا۔ اور جب وقت پڑا تو خود صرف ایک قانونی دھمکی سے ڈر کر بھاگ گیا۔ موت کے اس سوداگر کا تعلق امریکا سے ہے اور اس سے پہلے وہ بغداد میں بھی موت کا کاروبار کرتا رہا ہے۔ موت کے اس سوداگر کا نام خفیہ بھی تھا اور مقدس بھی۔ اپنے مقاصد کو خفیہ رکھنے کے لیے ہی اس نے سفارتی ویزا حاصل کرنے کی بجائے بزنس ویزا پر آنے کو ترجیح دی اور ایک بزنس مین کے روپ میں پاکستان میں بھیس بدل کر رہنے لگا۔ موت کے اس سوداگر کا تعلق دنیا بھر میں موت کا کھیل کھیلنے والی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں سی آئی اے کا اسٹیشن انچارج تھا اور پاکستان کے اندر نہ صرف تخریب کاری اور دہشت گردی کی امریکی مہم کی نگرانی کیا کرتا تھا بلکہ ضمیر فروش پاکستانیوں کو جن میں سرکاری حکام‘ کاروباری طبقے کے لوگ اورصحافی شامل ہیں، امریکی مفادات لیے کام کرنے پر تیار کیا کرتا تھا۔
سی آئی اے کا کام کرنے کا طریقہ کار ایسا ہے کہ اس کے اہلکاروں کے اہل خانہ تک کو بہت کم یہ خبر ہوتی ہے کہ وہ سی آئی اے میں کام کرتے ہیں۔ سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر سے باہر کام کرنے والے اس ایجنسی کے تقریباََ تمام کل وقتی اہلکار کسی نہ کسی کور میں رہتے ہیں۔ سی آئی اے کا اسلام آباد میں اسٹیشن ہیڈ ایک بزنس مین کے کور میں کام کر رہا تھا لیکن ایک قبائلی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں اس کے کور کو پاش پاش کر کے پورے امریکا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ امریکی اس بات پر حیران اور پریشان ہیں کہ جو معلومات اس موت کے سوداگر کے قریبی عزیزوں تک کو دستیاب نہیں وہ پاکستان میں ایک انتہائی دورا فتادہ علاقے کا قبائلی ایک پریس کانفرنس میں بیان کر گیا۔ کریم خان کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے ۔اس نے اپنے وکیل کے ذریعے امریکی وزیر دفاع‘ سی آئی اے کے سربراہ اور پاکستا ن میں سی آئی اے کے اسٹیشن ہیڈ کو قانونی نوٹس بھیجا۔ سی آئی اے کے ایک ڈرون حملے میں اس کا بیٹا‘ بھائی اور ایک مزدور مارے گئے تھے۔ ان کا طالبان یا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں تھا لہذا اسے پچاس کروڑ ڈالر معاوضہ دیا جائے ورنہ وہ قانونی کارروائی کریگا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران کریم خان کے وکیل نے سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کا نام لے کر سب کو حیران کر دیا۔ پاکستانی تحقیقی صحافت میں ایک روشن نام انصار عباسی نے اگلے روز روزنامہ جنگ میں یہ انکشاف بھی کر دیا کہ سی آئی اے کا اسٹیشن چیف بزنس ویزے پر پاکستان آیا ہے۔ لہٰذا کسی قانونی کارروائی کی صورت میں اسے سفارتی تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔ گویا نام کے بعد اس کا اسٹیٹس بھی عیاں ہوگیا۔ بعد ازاں وزیرستان کے رہائشیوں نے اسلام آباد میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تو یہ نام جسے امریکی خفیہ رکھنا چاہتے تھے وہی نام مظاہرین نے پلے کارڈز پر لکھ رکھا تھا اور وہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ 14 دسمبر کو اسلام آباد کے سیکرٹریٹ تھانہ میں کریم خان کی درخواست پر اسلام آباد کے اسٹیشن ہیڈ کے خلاف باقاعدہ مقدمہ بھی درج کر دیا گیا‘ جس سے امریکیوں کو اندازا ہوا کہ آئندہ صورت حال کس قدر خطرناک ہو سکتی ہے۔
سی آئی اے نے شاید اس قدر رسوائی کا کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا، اس نے اس کا سارا ملبہ آئی ایس آئی پر ڈال دیا کہ اسٹیشن ہیڈ کا نام پاکستانی ایجنسی نے بے نقاب کیا ہے۔کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا، امریکی حکام نے آئی ایس آئی کے ایسا کرنے کی یہ منطق پیش کی کہ چونکہ امریکا میں ایک عدالت میں آئی ایس آئی کے چیف احمد شجاع پاشا کو حافظ محمد سعید اور ذکی الرحمن لکھوی کے ساتھ شریک ملزم بنایا گیا ہے لہذا آئی ایس آئی نے یہ جوابی کارروائی کی ہے۔ یہ منطق پیش کرتے وقت امریکی بالواسطہ اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ بمبئی حملوں کے ذمہ داران میں آئی ایس آئی کو شامل کرنے کی بھارتی کاوشوں کو امریکا پروان چڑھا رہا ہے۔ تاہم آئی ایس آئی نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور قراردیا ہے کہ سی آئی اے کے اسٹیشن ہیڈ کی اپنی بے احتیاطی ہی سے اس کا نام لیک ہوا ہے۔
وکی لیکس کے انکشافات کے بعد اسٹیشن ہیڈ کا نام لیک ہونا امریکا کے لیے ایک اور شرمناک دھچکا ثابت ہوا جس کا ثبوت امریکی ذرائع ابلاغ میں مچایا جانے والا واویلا ہے۔ اس واویلے کے دوران ہی یہ شور بھی مچا دیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے اپنا اسٹیشن ہیڈ پاکستان سے واپس بلا لیا ہے کیونکہ نام ظاہر ہونے کے بعد اس کو قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ تاہم اصل بات یہ ہے کہ اسے قانونی کارروائی سے بچانے کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ پاکستان سے چلا گیا ہے۔ اس بات میں کس حد تک صداقت ہے کہ یہ امریکی جاسوس واپس چلا گیا ہے؟ ابھی یہ کسی کو معلوم نہیں۔ اس کی واپسی کی خبر بھی ایک امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے جاری کی ہے ‘ یہ ایجنسی امریکا کے قومی مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔سی آئی اے کا نظام اس قد ر پیچیدہ ہے کہ اسٹیشن چیف کی واپسی کی خبر کی تصدیق آسانی سے ممکن نہیں، تاہم پاکستان کے تحقیقی صحافیوں کو چاہیے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران پاکستان سے باہر جانے والی پروازوں کے مسافروں کا ڈیٹا حاصل کریں اور تصدیق کریں کہ سی آئی اے کا اسٹیشن چیف واقعی یہاں سے واپس گیا ہے یا محض اسے بچانے کے لیے یہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کو اسلام آباد میں موجود امریکی سفارتخانے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ سی آئی اے کا اسٹیشن چیف بھی امریکی سفارتخانے میں ہی قیام کر تا ہے۔ مذکورہ چیف کے ایک سالہ دور کے دوران پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔2004ء سے 2009ئتک پانچ برس میں اتنے ڈرون حملے نہیں ہوئے تھے جتنے گزشتہ ایک سال کے دوران ہوئے اور ان سب کا اولین ذمہ دار یہی سٹیشن چیف تھا۔
قارئین آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ سارا کالم تو سٹیشن چیف کے نام کے بے نقاب ہونے کے اردگرد گھوم رہا ہے لیکن کالم میں کہیں اس کا نام نظر نہیں آرہا۔میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔دراصل امریکی میڈیا جسے ہم آزاد تصور کرتے ہیں اس نے اس سٹیشن چیف کے بارے میں جتنی خبریں دی ہیں ان میںیہی طریقہ رکھا ہے کہ کہیں اس کا نام نہیں لکھااور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس کا نام قانونی طورپر خفیہ ہے اس لیے لکھا نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے شروع میں لکھا تھا کہ موصوف کا نام خفیہ بھی ہے اور مقدس بھی ۔۔۔مقدس اتنا کہ امریکی میڈیا اپنے قلم سے اسے لکھنے کا حوصلہ نہیں پاتا……تاہم پاکستانی قوم کے بچے بچے کو موت کے اس سوداگر کا نام معلوم ہونا چاہیے اور پولیس کو چاہیے کہ وہ کریم خان کی درخواست پر باقاعدہ تفتیش کر کے موت کے اس سوداگر کے خلاف مقدمہ عدالت میں پیش کرے۔موت کے اس سوداگر کا بے نقاب ہونے والا نام جوناتھن بینکس ہے۔جو کہ ایف آئی آر میں درج ہے۔تاہم یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ یہ نام اصلی بھی ہے یا نہیں کیونکہ ایک جوناتھن بینکس ہالی ووڈ کی فلموں کا معروف اداکار بھی ہے۔کہیں سی آئی اے نے یہ نام بھی استعارے کے طور پر تو استعمال نہیں کیا۔
اگر امریکی میڈیا کی یہ بات درست مان لی جائے کہ سی آئی اے نے اپنا سٹیشن چیف واپس بلا لیا ہے تو یہ ایک نادر واقعہ قرار پائے گا کیونکہ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ اس طرح کے اعلیٰ عہدیدار کو اچانک واپس بلا لیا جائے۔اس سے پہلے 1999 ء میں اسرائیل اور 2001 ء میں ارجنٹائن سے سی آئی اے کے سٹیشن چیف واپس بلائے گئے تھے کیونکہ ان کے نام بھی میڈیا میں آگئے تھے۔قارئین سی آئی اے کا پالا پہلی بار پاکستانیوں سے پڑا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟


بشکریہ،،،،ہفت روزہ جرار
 
Top