منٹو اور درد کی مثنوی

سعادت حسن منٹو نے اپنی تصنیف” منٹونما“ میں ایک مضمون ”مجھے بھی کہنا ہے“ کے عنوان سے اپنے افسانے ”کالی شلوار “ کے دفاع میں لکھا ہے۔ اس میں منٹو نے کالی شلوار میں جنس اور حقیت پر تبصرہ کیا ہے اس مضمون کے آخر حصے میں اُس نے اپنے افسانے کالی شلوار کے متعلق لکھا ہے اور پھر وہاں سے مضمون میں خواجہ میردرد کی مثنوی کے اشعار کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ شکر ہے میں حقیقت کا صحیح رخ بتا تاہوں نہ کہ میں نے محض شہوانی جذبات کو منتشر کرنے کی کوشش کی ہے۔
” کالی شلوار جیسے افسانے تفریح کی خاطر نہیں لکھے جاتے ان کو پڑھ کر شہوانی جذبات کی رال نہیں ٹپکنے لگتی ۔ اس کو لکھ کر میں کسی شرم ناک فعل کا مرتکب نہیں ہوا ۔ مجھے فخر ہے کہ میں اس کا مصنف ہوں ۔ میں شکر کرتا ہوں کہ میں نے کوئی ایسی مثنوی نہیں لکھی جس کے اشعار میں آپ کی مذمت میں نمونے کے طور پر پیش کرتا ہوں۔“ ()
اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد ہم منٹو کے نقل کیے ہوئے اور درد کے نام سے منسوب اشعار نقل کرتے ہیں۔

ہاتھا پائی سے ہانپتے جانا
کھلتے جانے میں ڈھانپتے جانا
وہ تیرا منہ سے منہ بڑھا دینا
وہ تیرا جیب کا لڑا دینا
وہ تیرا پیار سے لپٹ جانا
اور دل کھول کے چمٹ جانا
ہولے ہولے پکارنے لگنا
ڈھیلے ہاتھوں سے مارنے لگنا
منہ سے کچھ کچھ پڑے بکے جانا
چھوٹ جانے کے گول تکے جانا
تھک کے کہنا خدا کے واسطے چھوڑ
نیند آئی ہے اب مجھے نہ جھنجھوڑ
وہ تیرا ڈھیلے چھوڑنا بے بس
وہ تیرا سست ہو کے کہنا بس
بات باقی نہیں رہی اب تو
رات باقی نہیں رہی اب تو
کہیں تیری یہ بات نبڑے گی
یا یونہی ساری رات نبڑے گی
مجھ میں باقی تو کوئی بات نہیں
صبح بھی ہو چکی ہے رات نہیں
دیکھ اب آگے مار بیٹھوں گی
یا کسو کو پکار بیٹھوں گی
آدمی کی جو ریخ نکلے گی
منہ سے کیوں کر نہ چیخ نکلے گی
جو پھر بھی تو قائم ہووے گا
دیکھیو کون ساتھ ہووے گا

ان اشعار کے آخر میں منٹو نے لکھا ہے (اقتباسات از مثنوی میر درد مطبوعہ انجمن ترقی اردو )

سفیر اللہ خیال کے ایم اردو کے مقالے سے ماخوذ


یوں اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ مثنوی واقعی درد کی ہے یا نہیں۔ کیونکہ کہ درد کے دیوان میں کوئی مثنوی موجود نہیں ہاں ان کے بھائی میر اثر نے خواب و خیال کے نام سے ایک مثنوی لکھی ہے۔ اب اگر یہ مثنوی درد کی ہے تو یہ سوال نہایت اہم ہے کہ اردو شاعری میں تصوف کا ایک بہت بڑا نام جو کہ خود بھی ایک صوفی کے طور پر مشہور ہوئے اس قسم کی مثنوی کیسے لکھ سکتا ہے۔ ویسے اس مسئلے کوہندوستان میں رہنے والے ہی حل کرسکتے ہیں۔ اگر انجمن ترقی اردو کی کتاب کسی کے ہاتھ لگ جائے تو یہ عقدہ حل ہوسکتا ہے۔ اعجاز صاحب سے گزارش ہے کہ اس کے متعلق ضرور تحقیق کریں۔
 
Top