اسکین دستیاب منتخب نظمیں

غدیر زھرا

لائبریرین
6

محمد علی جناح ؒ


ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح ؒ
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح ؒ

صد شکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں
اور میرِ کارواں ہے محمد علی جناح ؒ

بیدار مغز ناظمِ اسلامیانِ ہند
ہے کون؟ بے گماں ہے محمد علی جناح ؒ

تصویرِ عزم، جانِ وفا، روحِ حریت
ہے کون؟ بے گماں ہے محمد علی جناح ؒ

رکھتا ہے دل میں تاب و تواں نو کروڑ کی
کہنے کو ناتواں ہے محمد علی جناح ؒ

رگ رگ میں اس کی ولولہ ہے حبِ قوم کا
پیری میں بھی جواں ہے محمد علی جناح ؒ

لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ جس کا تیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح ؒ

ملت ہوئی ہے زندہ پھر اس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جناح ؒ

غیروں کے دل بھی سینے کے اندر دہل گئے
مظلوم کی فغاں ہے محمد علی جناح ؒ

اے قوم! اپنے قائداعظمؒ کی قدر کر
اسلام کا نشاں ہے محمد علی جناح ؒ

عمرِ دراز پائے، مسلماں کی ہے دعا
ملت کا ترجماں ہے محمد علی جناح ؒ

(بشیر احمد )

____________________________________________

آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں اجلاس منعقدہ لاہور بتاریخ 23 مارچ 1940ء پڑھی گئی
قائداعظمؒ پیپرز مطبوعہ مواد حوالہ نمبر 711 صفحہ نمبر 13
 

غدیر زھرا

لائبریرین
7

اٹھ کہ پاکستان تیرے خواب کی تعبیر ہے


اٹھ کہ پاکستان ترا حق ہے تری تقدیر ہے
اٹھ کہ پاکستان تیرے خواب کی تعبیر ہے
تو مسلماں ہے جہانگیری ترا کردار ہے
بازؤوں میں تیرے زورِ حیدرِ کرار ہے
تیرے نعروں کی گرج سے گونج اٹھتا ہے جہاں
تھرتھراتا ہے تری ہیبت سے اکثر آسماں
درہ خیبر ابھی تک لرزہ بر اندام ہے
ہر چٹان پر تذکرہ اب بھی ترا ارقام ہے
سومنات اب تک ترے نعروں سے ہے گونجا ہوا
واردھا اب بھی تیری ہیبت سے ہے سہما ہوا
اب تلک گنگ و جمن کو یاد افسانے ترے
اب تلک ہیں برہمن کو یاد افسانے ترے
پھر ضرورت ہے کہ تو اٹھے اسی انداز سے
ہند پھر اک مرتبہ کانپے تری آواز سے
پھر چمک اٹھیں صنم خانے تری تنویر سے
بت کدوں میں بت تڑپ اٹھیں تری تکبیر سے
تیری ٹھوکر سے بدل سکتا ہے سب نظمِ جہاں
اک اشارے سے اڑا دے تو جہاں کی دھجیاں
اٹھ کہ اب پیش نظر تعمیرِ پاکستان ہے
اٹھ کہ تیری منتظر تقدیرِ پاکستان ہے
ٹوٹ پڑ پھر کفر و باطل پر علم کھولے ہوئے
برچھیاں تانے ہوئے تیغ دو دم تولے ہوئے
اک زمانہ ہو گیا پیاسی تری شمشیر ہے
کفر کے خوں میں نہانا پھر تری تقدیر ہے
سامنے اغیار کے کیوں ہاتھ پھیلاتا ہے تو
آہ اتنا نرم آخر کیوں ہوا جاتا ہے تو
تجھ کو پاکستان لینا ہے تو آ میدان میں آ
عزم و استقلال و قربانی کے آ جوہر دکھا
نعرہ تکبیر پڑھ اللّٰہ تیرے ساتھ ہو
ہاں مگر شمشیر کے قبضے پر تیرا ہاتھ ہو
کس کو جرات ہے کہ روکے تجھ سے پاکستان کو
تو نے فتح کر دیا سو بار ہندوستان کو
کفر واقف ہے کہ جب اٹھتا ہے چھا جاتا ہے تو
آسمانوں میں زمینوں میں سما جاتا ہے تو
جو ترے زیرِ نگیں برسوں رہا وہ بت پرست
آج دینا چاہتا ہے ہند میں تجھ کو شکست

آغا سید مظہر گیلانی

____________________________________________

"قائداعظمؒ اور سرحد" از عزیز جاوید صفحہ نمبر 494 (قائداعظمؒ پیپرز حوالہ نمبر 154 کتب)
مصنف کے مطابق تحریکِ پاکستان کے دنوں میں سرحد کے بچے بچے کی زبان پر جاری رہی۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ جب کسی جلوس میں نوجوان بھائی اس نظم کو رجزیہ انداز میں پڑھتے تو غیر مسلم دکانیں بند کر کے گھروں کو چلے جاتے تا کہ نوجوان مسلم کے جوش کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
8

لے کے رہیں گے پاکستان


ہاتھ میں لے کر سبز نشان
بچے بوڑھے اور جوان
اٹھے ہیں کرنے یہ اعلان
بٹ کے رہے گا ہندوستان

"لے کے رہیں گے پاکستان"

بیٹھے ہیں باندھے سر سے کفن
کیا بچے کیا مرد و زن
جانتے ہیں جینے کا فن
کر کے تن من دھن قربان

"لے کے رہیں گے پاکستان"

ہو کے رہیں گے ہم آزاد
شام و سحر ہے ہم کو یاد
قائد اعظمؒ کا ارشاد
اپنا آئین ہے قرآن

"لے کے رہیں گے پاکستان"

لیگ کے حق میں دیں گے ووٹ
اور الیکشن فنڈ میں نوٹ
دشمن خود کھائے گا چوٹ
ہوں گے اہلِ جہاں حیران

"لے کے رہیں گے پاکستان"

شمع حرم کے پروانے
فرزانے اور دیوانے
اٹھے موت سے ٹکرانے
ہے یہی جینے کا عنوان

"لے کے رہیں گے پاکستان"

ہم قائد اعظمؒ کا کہنا
اسلام کے خادم کا کہنا
سب پورا کر دکھلائیں گے
ہم پاکستان بنائیں گے
ہم پاکستان بنائیں گے
اسلام کی شان بڑھائیں گے

"قائداعظمؒ اور سرحد" از عزیز جاوید صفحہ نمبر 495
قائداعظمؒ پیپرز حوالہ نمبر 154 (کتب)

(شاعر نامعلوم )
 

نایاب

لائبریرین
28​

ہدیہ مبارک باد
بحضور قائد اعظم​


رہبر محترم کو مبارک باد
حضرت ذی حشم کو مبارک باد
دشمن بد نصیب پر فتح یابی کی
قائد اعظم کو مبارک باد

آج لطف رب ذوالکرام ہوا
حق کامیاب ہوا باطل ناکام ہوا
پیش خیمہ ہے پاکستان کا یہ جیت
آپ کامیاب ہوئے کامیاب اسلام ہوا


خواجہ محمد امین چشتی
آڈیٹر بہارستان ( ہفتہ وار بمبئی )​

----------------------------------------------------------------------

قائداعظم پیپرز حوالہ نمبر 1011 صفحہ نمبر 105 یہ ایک غیر مطبوعہ نظم ہے جو انتخابات میں قائد اعظم کی کامیابی پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے لکھی گئی ہے ۔ آپ بمبئی کے شہری مسلم حلقہ سے مرکزی دستور ساز اسمبلی کی نشست کے امیدوار تھے ۔ اور آپ کے مد مقابل حسین بھائی لال جی ایک کانگرسی امیدوار تھے اس مقابلہ میں آپ نے ایک نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ آپ کو 5۔99 فیصد ووٹ ملے جبکہ آپ کا مد مقابل صرف 5۔0 فیصد ووٹ حاصل کر سکا ۔ شاعر کا یہ کہنا " آپ کامیاب ہوئے کامیاب اسلام ہوا " درست ثابت ہوا ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو انتخابات میں تقریبا ہر صوبہ میں کامیابی نصیب ہوئی ۔ جس کی وجہ سے حصول پاکستان کی راہ ہموار ہو گئی ۔ اور آخر کار قائد اعظم کی قیادت میں 14 اگست 1947 کو پاکستان بن گیا ۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
10 -9

دعاء حصول پاکستان


کر مسلمہ تو یہ وردِ زباں ہم لے کے رہیں گے پاکستان
ہم لے کے رہیں گے پاکستان ہم لے کے رہیں گے پاکستان

اے پیاری بہن اب بہرِ خدا
بیدار ہو غفلت کر نا ذرا
ہے قوم پہ تیری وقت کڑا
ہر سمت بپا ہے اک طوفان

ہر سمت بپا ہے اک طوفان
ہم لے کے رہیں گے پاکستان

اے مسلمہ بہت کچھ دکھلا
اب تیری مدد کا وقت آیا
کچھ قوم کا اپنی ہاتھ بٹا
کر حوصلہ اتنا تو اے ذیشان

کر حوصلہ اتنا تو اے ذیشان
ہم لے کے رہیں گے پاکستان

مرکز ہو ہمارا پاکستان
اور گھر ہو ہمارا پاکستان
ہو جان سے پیارا پاکستان
حاصل ہو خدارا پاکستان

حاصل ہو خدارا پاکستان
ہم لے کے رہیں گے پاکستان

اغیار بھی اب اس سوچ پر ہے
اب قوم مسلماں اوج پر ہے
اسلام کا دریا موج پر ہے
ہے قائد اعظمؒ کشتی بان

ہے قائد اعظمؒ کشتی بان
ہم لے کے رہیں گے پاکستان

ہر جا پہ ہماری فتح ہوئی
ہر صوبہ میں لیگ کی جیت ہوئی
کیا رحمت خالق ہم پہ ہوئی
ہے شکر خدائے ہر دو جہاں

ہے شکر خدائے ہر دو جہاں
ہم لے کے رہیں گے پاکستان

ہوں سر پہ محمد ﷺ اور علی
پھر کیوں نہ ہوں حاصل کام دلی
سب بگڑی ہوئی اب بات بنی
کیا خوب ہوئی اسلام کی شان

کیا خوب ہوئی اسلام کی شان
ہم لے کے رہیں گے پاکستان

اب عرض ہماری آپ سے ہے
کچھ کام سخاوت سے لیجئے
کچھ آج عنایت کر دیجئے
اور کیجئے حاصل پاکستان

اور کیجئے حاصل پاکستان
ہم لے کے رہیں گے پاکستان

(مسرت جہاں صدیقی )

____________________________________________

"نذرِ پاکستان" صفحہ نمبر 15-11 مصنفہ مسرت جہاں صدیقی
قائداعظمؒ پیپرز مطبوعہ مواد حوالہ نمبر 245
نوٹ: نذرِ پاکستان کل 14 صفحات کا ایک کتابچہ ہے جس کی لمبائی '7 اور چوڑائی تقریباً '5 ہے۔ عباسی میتھو آفسٹ پریس کراچی کا شائع کردہ ہے۔ مصنفہ مسرت جہاں صدیقی نے کوئی پیش لفظ تحریر نہیں کیا۔
اور نہ ہی کتابچہ کی کل تعداد اور شائع کردہ تاریخ درج کی گئی ہے۔ ابتداء "حمدِ باری" سے کی ہے اور آخری نظم "دعاء حصول پاکستان" ہے۔
یہ کتابچہ کل 13 نظموں پر مشتمل ہے جن میں "دعائے کشمیر"، "یوم حیدر آباد"، "معجزہ قرآن" اور خاتون مسلم سے خطاب وغیرہ بھی شامل ہے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
11

تیرے در پر پہنچی صدا میرے مولا


ہے بندوں کی تجھ سے دعا میرے مولا
تو سن سب کی اب التجا میرے مولا
تیرے در پہ آئے ہیں پھیلا کے دامن
نہ خالی پھریں یہ گدا میرے مولا
نہ تجھ سے کہیں تو کہیں اور کس سے
تو ہی سن لے بس مدعا میرے مولا
گنہگار ہم حد سے بڑھ کر ہیں آقا
ولے اپنی رحمت پہ جا میرے مولا
بھنور میں پھنسی ہے بہت آ کے کشتی
کنارے پہ اس کو لگا میرے مولا
پکاریں کسے اور کس در پہ جائیں
ترا ہی ہے بس آسرا میرے مولا
جو حالت ہماری ہے تو دیکھتا ہے
ہیں کس حال میں مبتلا میرے مولا
نہ چین شب کو نہ آرام دن کو
عجب غم میں ہیں مبتلا میرے مولا
بشرم و ندامت ترے در پہ آ کر
سر عجز ہے رکھ دیا میرے مولا
ہے نرغہ میں اغیار کے آہ ناؤ
تو ہی پار بیڑا لگا میرے مولا
تو ہے حاکم الحاکمین یا الٰہی
تو ہی کر کچھ اب فیصلہ میرے مولا
یہ اک دل شکستہ کے جذبات بن کر
ترے در پہ پہنچی صدا میرے مولا

(مسرت جہاں صدیقی)

____________________________________________

"نذرِ پاکستان" از مسرت جہاں صدیقی (مطبوعہ مواد) قائداعظمؒ پیپرز حوالہ نمبر 245 صفحہ نمبر 16-15
 

غدیر زھرا

لائبریرین
12

پاکستان


کیوں مسلماں کی جہاں میں ہو نہ عالی شان آج
لے چکا ہے اپنی ہمت سے وہ پاکستان آج
خونِ مسلم سے ہوا سرسبز پاکستان کا باغ
جان قربان کر کے ہاتھ آیا ہے پاکستان آج
اے مسلماں تو نے قربانی کا حاصل پا لیا
خالقِ عالم کا ہے تجھ پر بڑا احسان آج
جو مخالف تھے وہ سارے ہاتھ ملتے رہ گئے
لے گیا بازی مسلمان لے کے پاکستان آج
یہ علی و فاطمہ کی برکتوں کا ہے ظہور
سامنے عالم کے ہے موجودہ پاکستان آج
ہو مبارک قائد اعظمؒ کو یہ لیل و نہار
حق تعالیٰ نے عطا کی ان کو جو یہ شان آج

صد مبارک قائدِ ملت اور اے غازی دیں
کامیابی فتح یابی اور پاکستان آج

(مسرت جہاں صدیقی)

____________________________________________

"نذرِ پاکستان" مصنفہ مسرت جہاں صدیقی (مطبوعہ مواد) قائداعظمؒ پیپرز حوالہ نمبر 245 صفحہ نمبر 5
 

نایاب

لائبریرین
29​

قائد اعظم سے خطاب​

ہمارا قائد اعظم ہمارا پاسباں تو ہے
سواد ہند کے اسلام کا روح رواں تو ہے

جمال الدین افغانی نے جس بربط کو چھیڑا تھا
اسی ساز کہن پر طرز نو سے نغمہ خواں تو ہے

ہو پاکستان کے کیوں رہبروؤں کو خطرہ منزل
ہمارے کارواں کا جبکہ میر کارواں تو ہے

پریشاں قوت ایمان سے جس کی ہیں حریف اکثر
مصاف حق و باطل میں وہ تیغ بے اماں تو ہے

تری عقل و فراست نے کیا ثابت زمانے پر
سیاست آشنائے محفل ہندوستاں تو ہے

جو تیرے عزم سے ٹکرائے گا مٹ جائے گا یکسر
جہاں میں فرق باطل کے لئے کوہ گراں تو ہے

فاروق
رکن ادارہ الااسلام​


1 " الا اسلام ہفتہ وار " کوئٹہ ضمیمہ 3 جولائی 1943 میں شائع ہوئی
2 محترمہ فاطمہ جناح پیپرز (مطبوعہ مواد ) حوالہ نمبر 726 صفحہ نمبر 14
نوٹ
قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل صوبہ بلوچستان کا صرف دو مرتبہ دورہ کیا ایک 26 جون تا 18 جولائی 1943 اور دوسرا ستمبر۔اکتوبر 1945 ۔
ہفتہ وار الا اسلام کوئٹہ واحد اخبار ہے جس کی بدولت آپکے پہلے دورے کی مکمل منظر کشی محفوظ ہے ۔ 25 جون سے 26 جولائی تک کی مکمل کاروائی ادارہ الا اسلام نے قائد اعظم کو پیش کر کے ایک بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے ۔ اور یہ قوم کی خوش قسمتی ہے کہ ایک مقامی اخبار کے یہ چند اوراق قائد اعظم پیپرز میں محفوظ ہیں کیونکہ تقسیم کے وقت ادارہ الا اسلام کا ذاتی مجموعہ آگ لگنے کی وجہ سے ضائع ہو گیا تھا اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا مقامی اخبار بھی دستیاب نہ ہو سکا ۔ اس طرح سے یہ نظم بھی ایک نایاب نظم ہے ۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
13

پاکستان مبارک


اے مسلماں! حافظِ ناموسِ دینِ مصطفیﷺ
اے کہ ہستی سے تری ہے رونقِ ارض و سما
صد مبارک، صد مبارک تجھ کو پاکستان ہو
یہ نظامِ حق فروغِ قوتِ ایمان ہو
تیری جرات سے ہے حاصل قوم کو عز و وقار
خون نے تیرے عطا کی باغِ امت کو بہار
آج صدیوں کی غلامی سے ملی تجھ کو نجات
مردِ حر ہی کےلئے دنیا میں ہے لطفِ حیات
اک نفس آزاد کا بہتر ہے صد ہا سال سے
جو بچاتا ہے اسے ابلیس کی ہر چال سے
مل گیا دین و سیاست میں تجھے جب اختیار
ہر عمل سے کر بپا ایماں کی زندہ یادگار!
جادہ ہستی میں اب قرآن کو رہبر بنا
اسوۂ نبوی سے دے اخلاق کو اپنے جلا
فرقہ بندی اور نفرت کے بتوں کو توڑ دے
نشترِ توحید سے شیطاں کی آنکھیں پھوڑ دے
امتیازِ رنگ و نسل و ذات کا وہم و خیال
اب تلک ہے تیری ملت کےلئے وجہ زوال
اتحاد و انس و الفت سے بنا تازہ جہاں
اور کر ایثار و ہمدردی سے اس کو جاوداں
اقتصادی زندگی کو دے تجارت سے فروغ
اجتماعی قوتوں کو دے شجاعت سے فروغ
رکھ گیا اقبال جس دستورِ محکم کی بنا
اور ہر ہر لفظ سے جس نے دیا درسِ بقا
قائداعظمؒ اسی کے خواب کی تعبیر ہے
اس مبارک ہاتھ سے ہی قوم کی تعمیر ہے
روحِ اقبال آج اس منظر پہ بے حد شاد ہے
قلبِ مسلم بھی نئے جذبات سے آباد ہے

مردِ مومن! ڈوب جا اب سربسر قرآن میں
اور نافذ کر یہی قانون پاکستان میں

عبدالرحمٰن بی۔ اے۔
مولف "جہانِ اقبال"

____________________________________________

قائداعظمؒ پیپرز (مطبوعہ مواد) حوالہ نمبر 15 صفحہ نمبر 272
نوٹ: یہ نظم قیامِ پاکستان کے مبارک موقع پر ملک دین محمد اینڈ سنز تاجرانِ کتب ہل روڈ لاہور نے چھپوا کر غالباً مفت تقسیم کی۔ یہ نظم ایک اشتہار کی شکل میں ہے جو 10' × 7' جسامت کا ہے اس کی طباعت میں پانچ شوخ رنگ استعمال کیے گئے ہیں زمین پیلی ہے جس پر سیاہ رنگ میں چھپائی کی گئی ہے۔ اوپر کی طرف دائیں و بائیں دو تصویریں ہیں۔ دائیں طرف والی تصویر بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی ہے جبکہ بائیں طرف مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال ہے۔ دونوں تصویریں چاند نما دائرہ میں ہیں۔ جن کی حاشہ داری گلاب کے پھولوں سے کی گئی ہے دونوں تصویروں کے درمیان سبز ہلالی پرچمِ پاکستان ہے۔ یہ ایک نایاب نظم ہے اور قائداعظمؒ پیپرز میں اس کی صرف ایک ہی کاپی محفوظ ہے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
14

"اتحادِ کفر و اسلام"


یہ اہلِ وطن آخر کیا اٹھے ہیں سمجھانے
کس طرح کوئی سمجھے کس طرح کوئی مانے
ہندؤو مسلمان میں ہم صلح کرا دیں گے
کیسے یہ دماغوں میں آیا ہے خدا جانے
یہ لیگ کی خواہش ہو یا کانگرسی کوشش
بیکار یہ قصے ہیں بے سود یہ افسانے
منزل ہے جدا ان کی جادہ ہے الگ ان کا
یہ دیر کے بندے ہیں کعبہ کے وہ دیوانے
دنیا کی نگاہوں نے گرتے کبھی دیکھے ہیں
بت خانے کی شمعوں پر اسلام کے پروانے
پیمانِ محبت کا امکان نہیں ہوتا
دل ہوں جو مقدر سے ٹوٹے ہوئے پیمانے
کیا جانئے لکھا ہے کیا ہند کی قسمت میں
مشکل ہی سے بستے ہیں اجڑے ہوئے کاشانے
یہ درد ہے وہ جس کا درمان ہی نہیں کوئی
بیٹھے ہیں یہ باتوں سے کیا درد کو بہلانے

کس وہم میں ہیں لیڈر یہ بھی کہیں ممکن ہے
زنار کا ڈورا ہو تسبیح کے ہوں دانے

رعنا ؔ اکبر آبادی

____________________________________________

قائداعظمؒ پیپرز حوالہ نمبر 824 صفحہ نمبر 263 تا 265 یہ ایک غیر مطبوعہ نظم ہے جو کہ خاص طور پر یومِ نجات کے سلسلہ میں شاعر نے قائداعظمؒ کو مورخہ 2 دسمبر 1939 کو روانہ کی۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
15-16

نیند سے بیدار ہوئے


اب سنبھل جاؤ کہ ہم نیند سے بیدار ہوئے
خوابِ غفلت میں پڑے سوئے تھے ہوشیار ہوئے
ملتِ مصطفوی نصف سے زیادہ ہیات
سیکڑوں سال اسے ہو گئے بیکار ہوئے
کھو دیا قوم کو مردوں کی بداندیشی نے
بدعمل ہم کو رکھا آپ بھی نادار ہوئے
عورتوں کےلئے اس وسعت عالم حدود
قید کی شکل میں گھر کے در و دیوار ہوئے
ایک بھی ہم کو سکھائی نہ گھریلو صنعت
اپنا محتاج دکھا باعثِ ادبار ہوئے
کانگریس والوں کے برتاؤ سے اہلِ اسلام
اپنی تنظیم جدا کرنے کو لاچار ہوئے
ماس (؟) مسلمانوں سے آساں تھا مگر
کانگریس والوں کے برتاؤ سے بے زار ہوئے
ہر الیکشن میں ہوئی لیگ کو نصرت ہر بار
جو ہوئے برسرِ پیکار وہی خوار ہوئے
بیوی شوہر سے سبق لیوے تو بھائی سے بہن
بچ سکیں پھر نہ صدف سے درِ شہوار ہوئے
دستکاری سے تو ہم پاٹ دیں بازاروں کو
اپنے ہم قوم اگر اس کے خریدار ہوئے
ووٹ کی ہم نہ حکومت کو کبھی مانیں گے
مرد بھی اپنے اگر اس کے طلب گار ہوئے
اکثریت نہو جب تک رہیں ہم ان کے غلام
کیا مسلماں اب اس درجہ تلک خوار ہوئے
(از جانب پروفیسر قاضی جلال الدین مراد آباد)

____________________________________________

1- شان لیگ (صفحہ 4-1) مؤلفہ سیدہ ریاض فاطمہ ریاض گلاؤٹھی بلند شہر قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات مائکرو فلم رول نمبر 308/آر بی۔ (نایاب کتب)
نوٹ
"شان لیگ" 24 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ ہے جس کی مؤلفہ سیدہ ریاض فاطمہ ریاض گلاؤٹھی ضلع بلند شہر ہیں۔ طباعت کے فرائض رَایل پرنٹنگ ورکس دہرودون نے انجام دئیے ہیں۔ مؤلفہ کے مطابق اس کتابچہ میں پرجوش اور بہترین قومی کلام بڑی کوششوں سے حاصل کر کے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتابچہ ناپید ہے اور قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات نے اسے مائیکرو فلم پر محفوظ کر رکھا ہے۔ کتابچہ میں کل اٹھارہ نظمیں ہیں ابتداء "دربار لیگ" سے کی گئی ہے جب کہ آخری نظم رعایا ہے۔ زیادہ تر کلام عورتوں کا درج ہے۔ جن میں کنیز فاطمہ حیا لکھنوی رَسا بیگم نواب محمد اسماعیل خاں۔ ریاض فاطمہ اور فاطمہ بیگم لاہور والی قابلِ ذکر ہیں۔
 
آخری تدوین:

غدیر زھرا

لائبریرین
17

مستقبل درخشاں ہے


خدا کا شکر ہے اب اپنا مستقبل درخشاں ہے
ضیائے لیگ سے دنیائے مسلم میں چراغاں ہے

شکوہ شان مسلم لیگ سے خیرہ ہوئیں آنکھیں
عدو اب محوِ حیرت ہے ہراساں ہے پریشاں ہے

مچی ہے خانہ دشمن میں ہلچل کیا قیامت ہے
کہ ایکدم بڑھ گئے مسلم یہ کس آفت کا ساماں ہے

ہمارے قائداعظمؒ وہ دانائے سیاست ہیں
کہ جن کے سامنے گاندھی بھی ایک طفل دبستان ہے

ضیائے لیگ سے کاشانہ مسلم منور ہے
فروغِ لیگ سے کوکب مسلماں کا فروزاں ہے

جو مستورات کی خدمت پہ ہے یوں معترض شاید
نہیں اسلام کی تاریخ سے واقف وہ ناداں ہے

یہ مستورات کی شرکت کا ہے سب فیض اے واعظ
جو مسلم لیگ کا اجلاس اک رشکِ گلستان ہے

ہمارا دین خطرہ میں ہو اور ہم محوِ رعنائی
ہمارے واسطے زیور نہیں اب زنجیرِ زنداں ہے

رسا ؔ اک آگ لگ جائے نہ کیوں سارے زمانہ میں
کہ ہر مسلم خدا کے فضل سے شعلہ بداماں ہے

رسا ؔ (بیگم نواب محمد اسماعیل خان)

____________________________________________

1- شان لیگ (صفحہ نمبر 11-12) مؤلفہ سیدہ ریاض فاطمہ ریاض گلاؤٹھی بلند شہر۔ قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات مائیکرو فلم رول نمبر 308/ آر بی (نایاب کتب)
2- یہ نظم لاہور کے اجلاس میں پڑھی گئی۔
 
آخری تدوین:

غدیر زھرا

لائبریرین
18

ہمارا اسمِ اعظم ہے محمدﷺ یا رسول اللّٰہ


مسلمانو چلو آؤ بنو فوجِ رسول اللّٰہ
کرو اسلام کی خدمت کھڑے ہو جاؤ بسم اللّٰہ

پڑھو کلمہ شہادت لا الہ اور الا اللّٰہ
ہمارا اسمِ اعظم ہے محمدﷺ یا رسول اللّٰہ

صحابہ نے کیا اسلام روشن جان دے دے کر
اسی صورت سے کتنی ہو گئی صورت فنا فی اللّٰہ

بچے غازی مرے درجہ شہادت دونوں ملتا ہے
لکھا ہے صاف لفظوں میں پڑھو دیکھو کلام اللّٰہ

تمہاری امتِ عاصی کو صدمہ اس قدر پہنچا
ہے مشکل سانس تک لینا خبر لو یا رسول اللّٰہ

ہمیشہ سے عنایت کی نظر ہے اپنی امت پر
تباہی میں پڑا مسلم کا بیڑا یا رسول اللّٰہ

ترے اسلام کا یا رب ہمیشہ بول بالا ہو
بجے ناقوس تو نکلے صدا شوق سبحان اللّٰہ

نہیں تاب دل کو اب بہت بیتاب ہے انجم ؔ
بلا لو ہند سے سوئے مدینہ یا رسول اللّٰہ

(انجم ؔ )

____________________________________________

ترانہ مسلم لیگ حصہ دوم (صفحہ نمبر 28) از شیخ محمد حفیظ صدر انجمن تنظیم المسلمین فیض آباد قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات مائیکرو فلم رول 308/ آر بی (نایاب کتب)
نوٹ۔
ترانہ مسلم لیگ حصہ دوم ایک ایسا کتابچہ ہے جو صفحہ نمبر 17 سے شروع ہو کر صفحہ نمبر 32 پر ختم ہوتا ہے۔ جناب شیخ محمد حفیظ صدر انجمن تنظیم المسلمین فیصل آباد نے حسبِ فرمائش جناب شیخ محمد شفیع اسلامی کتب فروش۔ چوک یکدرو فیصل آباد سے طبع کروانے کے بعد شائع کیا۔
کتابچہ کی ابتدا ترانہ (مسلمان بچوں کا قومی گیت) "چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا" سے کی اور آخری نظم "قومی غزل" کے طور پر پیش کی ہے کیونکہ کسی جگہ بھی کسی شاعر کا نام درج نہیں کیا گیا۔ اس لیے کسی بھی نظم میں شاعر کی نشاندہی کرنا مشکل ہے۔ چند قطعات کے علاوہ اس میں کل اٹھارہ نظمیں شامل ہیں۔ یہ ایک نایاب کتابچہ ہے لیکن قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات میں محفوظ ہے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
19

مسلمان سے خطاب


پھر نعرہ تکبیر زمانہ کو سنا دے
اللّٰہ کے پیغام کی ایک دھوم مچا دے

آ بہرِ خدا موڑ دے باطل کی کلائی
اٹھ اور سرِ نخوت و پندار جھکا دے

اللّٰہ نے دی ہے تجھے ایمان کی قوت
عشرت کدہ کفر کی بنیاد ہلا دے

پھر کفر کی ظلمت کو بنا مطلع انوار
پھر خاک کے ذروں کو ستاروں سے ملا دے

اسلام کی تاریخ کے اوراق الٹ کر
پھر معرکہ بدر زمانہ کو دکھا دے

ایمانِ ابراہیم سے لے کام جہاں میں
پھر آتشِ نمرود کو گلزار بنا دے

اسلام کی خاطر ترا جینا ترا مرنا
اسلام کے ناموس پہ گھر بار لٹا دے

یورپ کی سیاست سے ہو جو بھی متاثر
پڑھ کر اسے قرآن کی آیات سنا دے

ماہر القادری

____________________________________________

شان لیگ (صفحہ 8) مؤلفہ سیدہ ریاض فاطمہ ریاض گلاؤٹھی بلند شہر
قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات مائیکرو فلم رول نمبر 308/ آر بی (نایاب کتب)
 
آخری تدوین:

غدیر زھرا

لائبریرین
20-21

جزاک اللّہ یہ جذبہ غلامانِ محمدﷺ کا


جزاک اللّہ یہ جذبہ غلامانِ محمدﷺ کا
لبوں پر حق۔ دلوں میں پاس اعلانِ محمدﷺ کا

یہ طفلی، یہ معصوی، یہ پاس ملے بیضا
جہاں میں فخر ہے یہ پاسدارانِ محمدﷺ کا

ضعیفی فخر کرتی ہے، جوانی ناز کرتی ہے
اٹھا اس شان سے دستہ جوانانِ محمدﷺ کا

مشامِ روح کو تازہ کرے گا، بوئے الفت سے
ترو تازہ یہ گلدستہ گلستانِ محمدﷺ کا

پرو کر رشتہ وحدت میں پھر موتی اخوت کے
دکھائے گا یہ جلوہ دہر کو شانِ محمدﷺ کا

کرے گا آبیاری گلشنِ اسلام و ملت کی
نگہبان اس زمین پر ہے خیابان محمدﷺ کا

وہ مسلم تنگ آئے ہیں جو اہلِ جور کے ہاتھوں
کرے گا ان پہ سایہ پھر سے دامان محمدﷺ کا

وہ اہلِ حق جنہوں نے ظلم کی کڑیاں اٹھائیں ہیں
انہیں پہنچائے گا پیغام اعوان محمدﷺ کا

جنہیں غیروں نے سمجھا ہے بے سرو سامان زمانے میں
سنائے گا انہیں مژدہ یہ سامان محمدﷺ کا

امیروں کو جھکائے گا خدائے کعبہ کے آگے
کرے گا بول بالا پھر غریبانِ محمدﷺ کا

کہاں اے محمدﷺ کے فدائی! تجھ کو مژدہ ہو!
زمانہ منتظر ہے پھر فدایانِ محمدﷺ کا

یہ فرزندانِ ملت آج یہ کہتے ہوئے اٹھے
دبائے حق کوئی کیوں حق شناسانِ محمدﷺ کا

پہلوانانِ دنیا لاکھ مرحب اور (؟) ہوں
کریں گے سامنا کب تک جوانانِ محمدﷺ کا

____________________________________________

1-روزنامہ احسان لاہور مورخہ 2 جنوری 1941ء (ٹائٹل صفحہ)
2-یہ نظم پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی سپیشل پاکستان کانفرنس منعقدہ لاہور بتاریخ 2 مارچ 1941ء کے ضمن میں لکھی گئی تھی۔
3- "دی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن" از سرفراز حسین مرزا صفحہ 218-219

(شاعر نامعلوم)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
22

امان دے خدا تجھے۔۔۔۔۔۔نہ چھو سکے بلا تجھے


جناح نام ہے تیرا بڑا مقام ہے تیرا
زمین سے تا بہ آسمان شہرہ عام ہے تیرا
نہ تخت ہے نہ تاج ہے مگر دلوں پہ راج ہے
زباں پہ سب کی ذکرِ خیر صبح و شام تیرا

امان دے خدا تجھے۔۔۔۔۔۔نہ چھو سکے بلا تجھے

یہ عزم استوار ہے جو سچ ہے برملا کہا
تو حوصلہ کسے بھلا کہ رد کرے اسے ذرا
نحیف و زار جسم ہے مگر یہ کیا طلسم ہے
کہ تجھ سے مات کھا گئے بڑے بڑے مہاتما

اٹھایا بار بار سر۔۔۔۔۔۔شکست ہی ہوئی مگر

نہ دھمکیاں ڈرا سکیں نہ تھیلیاں جھکا سکیں
نہ شاطروں کی لوریاں تجھ کو کبھی سلا سکیں
نہ کسی کی دال گل سکی نہ کوئی چال چل سکی
نہ آشرم کی دیویاں ہی تیرا دل لبھا سکیں

عجیب پہلوان ہے۔۔۔۔۔۔خودی کا پاسبان ہے

بقاء قوم کےلئے اکیلا لڑ رہا ہے تو
سارا جہان اک طرف اور اک طرف ہے تو
مبارک ہو یہ حوصلہ میرے دلیر رہنما
جو حریت کے تاج میں نگینے جڑ رہا ہے تو

عزیز ؔ کی دعا ہے یہ۔۔۔۔۔۔بار گہہ نیاز میں

مبارک ہو خدا کرے تجھ کو بہارِ سالِ نو
زمانہ تیرے نام پر نکالے کوئی فالِ نو
بڑھائے اس طرح خدا یہ سال تیری عمر کا
کہ جیسے عارض حسین پہ رونما ہو خالِ نو

تجھے ملے وہ زندگی۔۔۔۔۔۔فنا نہ ہو جسے کبھی

عزیز ؔ محمد عرف اجی میاں الہ آبادی

____________________________________________

قائداعظمؒ پیپرز حوالہ نمبر 136 صفحہ نمبر 226 (یہ ایک غیر مطبوعہ نظم ہے جو شاعر نے خاص طور پر قائداعظمؒ کو ان کی سالگرہ کے موقع پر ارسال کی۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
23

افتخارِ قوم


جناح اے افتخارِ قوم تو وہ مردِ میداں ہے
تری ہمت کے آگے سرنگوں شیر نیستاں ہے

یقیناً قائداعظمؒ کا مذہب تجھ کو شایاں ہے
کہ تو فخرِ وطن ہے فخرِ دین ہے فخرِ دوراں ہے

سیاست تیری باندی ہے فراست زیرِ فرماں ہے
دم تحریر تیری کلک کیا ہے تیغِ بران ہے

تیرے سینے میں دل، دل میں ضیائے نورِ ایماں ہے
یہ تیرا وصف کیا کم ہے کہ تو سچا مسلماں ہے

تو ہی وہ بطل حریت ہے اس خاک غلامی میں
کہ خود طوق غلامی تیوروں سے جس کے لرزاں ہے

تیری خود داریوں سے شوکتِ اسلام ظاہر ہے
تری قربانیوں سے جوہرِ سیرت نمایاں ہے

تری تقریر سے ظاہر تری خوئے رواداری
تری تحریر سے ثابت کہ آزادی کا خواہاں ہے

ہوئی ہے تیرے دم سے لیگ کی بنیاد مستحکم
فروغِ لیگ سے کوکب مسلماں کا فروزاں ہے

الٰہی قائد اعظمؒ رہے زندہ زمانہ میں
ہے جب تک گل میں نکہت اور گل زیب گلستان ہے

فاطمہ بیگم جناح کالج لاہور

____________________________________________

شان لیگ مؤلفہ سیدہ ریاض فاطمہ ریاض گلاؤٹھی ضلع بلند شہر صفحہ نمبر 14, 15۔ قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات مائیکرو فلم رول نمبر 308/ آر بی (نایاب کتب)
 
آخری تدوین:

غدیر زھرا

لائبریرین
26,25,24

والا منزلت قائداعظمؒ محمد علی جناح


اے جناح دیدہ ور تجھ پر خدا کی رحمتیں
قوم کی خاطر اٹھائیں تو نے کتنی زحمتیں

تیرا علم و فضل اور تیرا تدبر بے مثال
ہر (؟) ناقابلِ تردید ہے تیرا کمال

تجھ کو ہر راحت میسر تھی ہر اک آرام تھا
ہاں مگر اک جذبہ اسلام تھا جو خام تھا

بے خبر تھا علم دیں سے عظمت اسلام سے
دور کی نسبت رہی تجھ کو خدا کے نام سے

ایک مدت تک رہا بے گانہ روحانیت
مادیت سے رہی مملو سراسر ذہنیت

تھا مگر سینے میں تیرے ایک قلب ناصبور
اور تمیزِ نیک و بد کا تجھ کو حاصل تھا شعور

ایک تڑپ رکھتا تھا تو اور ترے دل میں جوش تھا
بادہ سر جوش حریت سے تو مدہوش تھا

تیری سچائی دلیری اور دیانت آشکار
تھا یگانوں اور بیگانوں کو تیرا اعتبار

جب سوالِ قسمتِ ہندوستان پیدا ہوا
تو شریکِ گفتگو تھا اور بہ چشم و گوش تھا

تو نے سمجھا خوب انگریز اور ہندو کا مزاج
تجھ کو یہ احساس تھا خطرے میں ہے مسلم کی لاج

تو ہی اک آگے بڑھا قرطاس نہرو کے خلاف
رکھ دئے چودہ نکات آئینِ ہندو کے خلاف

ہو گئی کایا پلٹ دنیا میں ہل چل پڑ گئی
کھل گئی ابلہ فریبی کانگرس کے عزم کی

تیرا اک ہمنام جو مخلص بھی تھا ذی ہوش بھی
خیر کر نکلا وہ صف کو باوقار و آگئی

کانگریس اپنا وقار اپنا عزم کھونے لگی
جو غلط فہمی تھی مسلم کو رفع ہونے لگی

دوست اور دشمن کی پیدا ہو گئی ہم کو تمیز
ملک سے بڑھ کر ہوئی آزادی ملت عزیز

کاش وہ مردِ مجاہد آج ہوتا تیرے ساتھ
تیری ہر جدوجہد میں وہ بٹاتا تیرا ہاتھ

یہ مشیت میں نہ تھا صد حیف لیکن اے جناح
تھی تری قسمت میں تنہا سعی بہبود و فلاح

وہ محمدﷺ اور علی پر تھا جان و دل سے تھا نثار
ملتِ اسلامیہ کی خدمت اس کا تھا شعار

دفن ہے بیت المقدس میں وہ جنت کا مکیں
سونپ کر تجھ کو متاع ناز ختم المرسلینﷺ

امتِ مرحوم کی کشتی کا ہے تو ناخدا
زیب دیتا ہے لقب اب تجھ کو ظل اللہ کا

قوم نے پایا ہے تجھ سے جوش و استقلال و عزم
تازہ ہوتے جا رہے ہیں اس کو سب آئین رزم

منتشر اجزائے ملت منسلک ہونے لگے
کشتِ دل میں تخم یکجہتی کا سب بونے لگے

تفرقہ انداز اعدا اب ہیں پہلے سے سوا
اب نہیں اگلا سا لیکن ہم کو خوف ماسوا

کھل گئیں آنکھیں حقیقت اب نظر آنے لگی
مضمحل اعدا ہوئے آواز بھرانے لگی

اپنی ناکامی سے ہندو ایسے کھسیانے ہوئے
غصے میں جلتے ہیں اپنے آپ دیوانے ہوئے

اب اتر آئے ہیں گالی اور دھمکی پر ہنود
یہ گوارا کب ہے زائل ہو مسلماں کا جمود

پنت و گاندھی نہرو و راجا مکر جی مالوی
اور آزاد و حسین احمد ہمایوں لالچی

یعنی جو ہمدردی اسلام کا بھرتے تھے دم
بے نقاب آئے ہیں وہ اب ٹھونک کر میدان میں خم

کھل گیا انگریز سے ان کو نہ تھا کچھ اختلاف
ان کی ساری جنگ تھی بس قومِ مسلم کے خلاف

یہ تری بیدار مغزی اور تدبر کی ہے حد
ہو گئی بیکار اعدا کی ہر اک جدوجہد

تفرقے مٹنے لگے بیدار مسلم ہو گئے
جینے مرنے کےلیے تیار مسلم ہو گئے

تو نے پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا قوم کو
راز پھر خود اعتمادی کا بتایا قوم کو

قوم نے تیری قیادت میں سیاست سیکھ لی
اب سمجھتی ہے بخوبی فرق موت و زندگی

تو نے باعزت اسے اک قوم اب منوا لیا
اتنے اعدا ایک تو تیرا حامی ہے خدا

تو نے یہ انعام پایا خدمتِ اسلام کا
روشناس اسلام سے ہونے پہ تو مجبور تھا

قوم یہ کنگال تھی جز دین کیا دیتی تجھے
دین اس کے پاس تھا تجھ سے ملی دنیا اسے

تیرے بازو میں ہے طاقت نورِ ایماں کی جناح
کارنامہ ہے ترا جمعیت ملی جناح

تو نے ہر بدخواہ ملت کو دیا پیغامِ جنگ
تیری ہمت پر ہیں یکساں دوست بھی دشمن بھی دنگ

عالمان دیں کو جو کرنا تھا تو نے کر دیا
یہ سعادت تجھ کو بخشی ہے خدا نے مرحبا

ملتِ اسلام کی شیرازہ بندی تو نے کی
رائیگاں کر دی سراسر تو نے اعدا کی سعی

واردھا۔ استھان نہرو۔ لندن و واشنگٹن
ہر جگہ چرچا یہی ہے رات دن اب اے حسن ؔ

قومِ مسلم کو فنا کر دیں یہ اب آساں نہیں
چارہ دینے کے سوا اب ان کو پاکستاں نہیں

کانگرس کو کب ہے مسلم کی قیادت کا شعور
کھل پڑے اعدا غلط فہمی ہوئی مسلم کی دور

ان کو احساسِ شکستِ فاش اب ہونے لگا
گالیوں پر اب اتر آئے ہیں اعدا بے حیا

شاد باش و شاد زی اے قائد اسلامیاں
تیرے ہاتھوں میں ہے آزادی مسلم کا نشان

رہبری کی تجھ کو طاقت دے الہ العالمین
تجھ کو حاصل ہو سدا فیضانِ ختم المرسلینﷺ

نسبتیں تجھ کو محمدﷺ سے علی سے رابطے
تیرے بازو ہوں جناح خالد شہ زور سے

تیرے ہاتھوں ملتِ اسلام کی تنظیم ہو
تیری سرداری میں پاکستان کی اقلیم ہو

مسلم ہندی علمبردار حریت رہے
دہر سے نامِ غلامی ان کی کوشش سے مٹے

امن و صلح و آشتی کا بڑھ کے یہ پیغام دے
اس کی اک آواز پر لبیک پھر دنیا کہے

حیثیت اس کی ہے عالمگیر و آزاد وطن
ہر جگہ آزاد ہو مسلم بہ فضل ذوالمنن

آمین ثم آمین

حسن عبداللہ حسن ؔ
اسٹورڈ
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
1945

____________________________________________

قائداعظمؒ پیپرز (مطبوعہ شدہ مواد) حوالہ نمبر 15 صفحہ نمبر 395 تا 398
نوٹ
یہ نظم باعنوان "والا منزلت قائداعظمؒ محمد علی جناح" 1945 ایک 4 صفحات پر مشتمل کتابچہ کی شکل میں شائع کی گئی تھی شاعر کا نام درج ہے لیکن اشاعت کی تاریخ اور پریس کا نام درج نہیں ہے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
38

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

خیر مقدم

بخدمت قائداعظمؒ مسٹر محمد علی جناح ؒ صدر آل انڈیا مسلم لیگ


بن کر نگاہِ پست کی معراج آ گیا
تھے کب سے جس کے منتظر وہ آج آ گیا
آئے ہیں آگرے میں محمد علی جناح ؒ
آخر دیارِ تاج میں سرتاج آ گیا

اک زندگی کا بجتا ہوا ساز آ گیا
پھر موت میں حیات کا انداز آ گیا
غفلت کی موت جن پہ تھی طاری وہ چونک اٹھے
عیسیٰ مثال صاحبِ اعجاز آ گیا

ہم بے سروں کی فوج کا سردار آ گیا
قصرِ شکستہ حال کا معمار آ گیا
منزل کو خود ہی سامنے آنا پڑے گا اب
بھٹکی ہوئی امید کا سالار آ گیا

یوں تو بھلا ہے کام کا تیرے ٹھکانہ کیا
تیرا جواب پیدا کرے گا زمانہ کیا
"سن سو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا"
(آتش)

ناکامیوں کے سامنے ہے کامیاب تو
فتح و ظفر کی دیوی کا ہے انتخاب تو
لیکر جلو میں آیا ہے تعبیرِ خوش صفات
ہے محوِ خواب قوم کا رنگین خواب تو

حاصل کبھی کا کر بھی چکا وہ مقام تو
ہندوستاں ہے مقتدی تیرا امام تو
تو نے نشان قومی کو بخشی ہیں رفعتیں
ہاں ہے ہلال قوم کا ماہِ تمام تو

اسلامیانِ ہند کی ہے آن بان تو
ہاں ہے ہمارا جسم تو، دل تو ہے جان تو
اختر ؔ کی ہے بلندی تخیل بھی گواہ
ارضِ سیاسیات کا ہے آسمان تو

از توصیف اختر ؔ صدیقی بی۔اے (فائنل) سینٹ جانسن کالج۔ آگرہ

____________________________________________

قائداعظمؒ پیپرز حوالہ نمبر 960 صفحہ نمبر 31 (یہ ایک غیر مطبوعہ نظم ہے جو آگرہ میں قائداعظمؒ کے خیر مقدم کی نشان دہی کرتی ہے)
 
Top