فراز ممدوح

عدیل منا

محفلین
میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف​
میں نے کب لکھے قصیدے ترے رخساروں کے​
میں نے کب ترے سراپا کی حکایات کہیں​
میں نے کب شعر کہے جھومتے گلزاروں کے​
جانے دو دن کی محبت میں یہ بہکے ہوئے لوگ​
کیسے افسانے بنا لیتے ہیں دلداروں کے​
میں کہ شاعر تھا، میرے فن کی روایت تھی یہی​
مجھ کو اک پھول نظر آئے تو گلزار کہوں​
مسکراتی ہوئی ہر آنکھ کو قاتل جانوں​
ہر نگاہِ غلط انداز کو تلوار کہوں​
میری فطرت تھی کہ میں حسنِ بیان کی خاطر​
ہر حسین لفظ کو در مدحِ رخِ یار کہوں​
میرے دل میں بھی کھِلے ہیں چاہت کے کنول​
ایسی چاہت کہ جو وحشی ہو تو کیا کیا نہ کرے​
مجھے گر ہو بھی تو کیا زعمِ طوافِ شعلہ​
تو وہ شمع ہے کہ پتھر کی بھی پرواہ نہ کرے​
میں نہیں کہتا کہ تجھ سا ہے نا مجھ سا کوئی​
ورنہ شوریدگئ شوق تو دیوانہ کرے​
کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے​
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں کہ مہتاب نثار​
تیرے پیمانِ وفا سے میرے فن نے سیکھی​
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار​
تیرے غم نے میرے وجدان کو بخشی وہ کسک​
میرے دشمن، میرے قاتل، میرے احباب نثار​
میں کسی غم میں بھی رویا ہوں تو میں نے دیکھا​
تیرے غم سے کوئی مجروح نہیں تیرے سوا​
میرے پیکر میں تیری ذات گھلی ہے اتنی​
کہ میرا جسم، میری روح نہیں تیرے سوا​
میرا موضوعِ سخن تُو ہو کہ ساری دنیا​
درحقیقت کوئی "ممدوح" نہیں تیرے سوا​
 

عبدالحسیب

محفلین
میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف
میں نے کب لکھے قصیدے ترے رخساروں کے

میں نے کب تیرے سراپا کی حکایات کہیں
میں نے کب شعر کہے جھومتے گلزاروں کے

جانے دو دن کی محبت میں یہ بہکے ہوے لوگ
کیسے افسانے بنا لیتے ہیں دلداروں کے

میں کہ شاعر تھا مرے فن کی روایت تھی یہی
مجھ کو اک پھول نظر آئے تو گلزار کہوں

مسکراتی ہوئی ہر آنکھ کو قاتل جانوں
ہر نگاہِ غلط انداز کو تلوار کہوں

میری فطرت تھی کہ میں حسنِ بیاں کی خاطر
ہر حسیں لفظ کو درِ مدحِ رخِ یار کہوں

میرے دل میں بھی کھلے ہیں تری چاہت کے کنول
ایسی چاہت کہ جو وحشی ہو تو کیا کیا نہ کرے

گر مجھے ہو بھی تو کیا زعمِ طوافِ شعلہ
تو ہے وہ شمع کہ پتھر کی بھی پرواہ نہ کرے

میں نہیں کہتا کہ تجھ سا ہے نہ مجھ سا کوئی
ورنہ شوریدگیِ شوق تو دیوانہ کرے

کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں کہ مہتاب نثار

تیرے پیمانِ وفا سے مرے فن نے سیکھی
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار

تیرے غم نے مرے وجدان کو بخشی وہ کسک
مرے دشمن مرے قاتل ، مرے احباب نثار

میں کسی غم میں بھی رویا ہوں تو میں نے دیکھا
تیرے دکھ سے کوئی مجروح نہیں تیرے سوا

میرے پیکر میں تری ذات گھلی ہے اتنی
کہ مرا جسم مری روح نہیں تیرے سوا

میرا موضوعِ سخن تُو ہو کہ ساری دنیا
در حقیقت کوئی ممدوح نہیں تیرے سوا

-احمد فراز​
 

سلفی کال

محفلین
کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں کہ مہتاب نثار

تیرے پیمانِ وفا سے مرے فن نے سیکھی
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار
بہت خوب، کمال اظہار
اتنی عمدہ غزل شیئر کرنے پر آپ کا بہت شکریہ سلامت رہیں
ہر حسیں لفظ کو درِ مدحِ رخِ یار کہوں
 
میری پسندیدہ نظموں میں سے ایک :)
نظم کا عنوان ممدوح ہے
اس کا فارمیٹ ٹھیک کر کے لگا رہا ہوں
شراکت کا شکریہ
سلامت رہیں

ممدوح

میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف
میں نے کب لکھے قصیدے ترے رخساروں کے
میں نے کب ترے سراپا کی حکایات کہیں
میں نے کب شعر کہے جھومتے گلزاروں کے
جانے دو دن کی محبت میں یہ بہکے ہوے لوگ
کیسے افسانے بنا لیتے ہیں دلداروں کے

میں کہ شاعر تھا مرے فن کی روایت تھی یہی
مجھ کو اک پھول نظر آے تو گلزار کہوں
مسکراتی ہوئی ہر آنکھ کو قاتل جانوں
ہر نگاہِ غلط انداز کو تلوار کہوں
میری فطرت تھی کہ میں حسنِ بیاں کی خاطر
ہر حسیں لفظ کو درِ مدحِ رخِ یار کہوں

میرے دل میں بھی کھلے ہیں تری چاہت کے کنول
ایسی چاہت کہ جو وحشی ہو تو کیا کیا نہ کرے
گر مجھے ہو بھی تو کیا زعمِ طوافِ شعلہ
تو ہے وہ شمع کہ پتھر کی بھی پرواہ نہ کرے
میں نہیں کہتا کہ تجھ سا ہے نہ مجھ سا کوئی
ورنہ شوریدگیِ شوق تو دیوانہ کرے

کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے
میں نے وہ شمعیں جلائیں ہیں کہ مہتاب نثار
تیرے پیمانِ وفا سے مرے فن نے سیکھی
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار
تیرے غم نے مرے وجدان کو بخشی وہ کسک
مرے دشمن مرے قاتل ، مرے احباب نثار

میں کسی غم میں بھی رویا ہوں تو میں نے دیکھا
تیرے دکھ سے کوئی مجروح نہیں تیرے سوا
میرے پیکر میں تری ذات گُھلی ہے اتنی
کہ مرا جسم مری روح نہیں تیرے سوا
میرا موضوعِ سخن تُو ہو کہ ساری دنیا
در حقیقت کوئی ممدوح نہیں تیرے سوا​
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ عبدالحسیب بھائی اور محترم سید شہزاد ناصر۔۔۔۔!

ہمیشہ کی طرح فراز کا یہ کلام بھی لاجواب ہے۔

شکریہ اس شراکت کا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے​
میں نے وہ شمعیں جلائیں ہیں کہ مہتاب نثار​
تیرے پیمانِ وفا سے مرے فن نے سیکھی​
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار​
تیرے غم نے مرے وجدان کو بخشی وہ کسک​
مرے دشمن مرے قاتل ، مرے احباب نثار​

واہہہہہہہہہہہ
تیرے پیمانِ وفا سے مرے فن نے سیکھی​
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار
 
Top