ملزم ہو تو مشرف جیسا

130430131731_musharraf-house-.jpg

فارم ہاؤس کے اندر رینجرز کے اہلکار تعینات ہیں اور اُنہوں نے فارم ہاؤس کے اندر بھی حفاظتی بنکرز بنائے ہوئے ہیں: پولیس حکام

پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید ملزمان یقیناً سابق صدر پرویز مشرف پر رشک کر تے ہوں گے کہ قتل کے مقدمے کے ملزم کو اتنی سہولتیں دی گئی ہیں تو اُنہوں نے کیا قصور کیا ہے کہ اُنہیں ان سہولتوں کا عشرِ عشیر بھی حاصل نہیں ہے جبکہ سپریم کورٹ کے بقول قانون کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف ان دنوں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو حبس بےجا میں رکھنے اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں اپنے فارم ہاؤس میں قید ہیں۔اس فارم ہاؤس کو اسلام آباد کی انتظامیہ نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر سب جیل قرار دیا ہے۔
فارم ہاؤس میں ذرائع کے مطابق سابق صدر مشرف کو دورانِ قید ذاتی باورچی کی خدمات حاصل ہیں اور انہیں کھانا دینے سے پہلے ایک ڈاکٹر کھانا چیک کرتا ہے۔فارم ہاؤس میں جن کمروں کو سب جیل قرار دیا گیا ہے وہ بھی مشرف نے خود ہی منتخب کیے ہیں۔
سکیورٹی کے پیش نظر جیل کے عملے کو بھی مشرف کے کمروں تک رسائی نہیں دی گئی ہے تاہم اڈیالہ جیل کے حکام اس کی تردید کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں واقع اس فارم ہاؤس کے باہر چاروں اطراف پیرا ملٹری فورس رینجرز نے سات چیک پوسٹیں قائم کی ہیں جبکہ پولیس نے بھی اتنی ہی تعداد میں عارضی چوکیاں قائم کر رکھی ہیں۔ ان چوکیوں پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔
ایک سو اسی کے قریب اسلام آباد پولیس کے اہلکار روزانہ تین شفٹوں میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔
سکیورٹی ڈویژن کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سابق صدر اور سابق آرمی چیف کی حیثیت سے سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ اُنہیں ملزم کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایات وزارتِ داخلہ کی طرف سے دی گئی ہیں۔
ملزم پرویز مشرف کی سکیورٹی کے انچارج ڈی آئی جی سکیورٹی ڈویژن طاہر عالم کو دی گئی ہے۔ پرویز مشرف جب صدر کے عہدے پر فائض تھے تو اُن کی سکیورٹی کی تمام تر ذمہ داری فوج پر تھی۔
پولیس اہلکار کے مطابق پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کے باہر پولیس اہلکاروں کی تعیناتی سے پہلے ان کی چھان بین کی گئی تھی کہ اُن کا رجحان کسی مذہبی تنظیم کی طرف تو نہیں ہے اور یا وہ کسی کالعدم تنظیم کے لیے نرم گوشہ تو نہیں رکھتے۔
ان پولیس اہلکاروں کو سب جیل کے اردگرد کے دو کلومیٹر کا علاقہ دیا گیا ہے اور اس ایریا کے دوران کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کی ذمہ داری پولیس حکام پر ہوگی۔
ان پولیس اہلکاوں کو روشنی کے گولے بھی فراہم کیے گئے ہیں تاکہ رات کے وقت شدت پسندوں کی جانب سے اگر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو ان کے خلاف کارروائی کے لیے ان گولوں کو استعمال کیا جا سکے۔
اہلکار کے مطابق فارم ہاؤس کے اندر رینجرز کے اہلکار تعینات ہیں اور اُنہوں نے فارم ہاؤس کے اندر بھی حفاظتی بنکرز بنائے ہوئے ہیں جبکہ فارم ہاؤس کے اندر اسلام پولیس کا کوئی اہلکار موجود نہیں ہے۔
ملز م پرویز مشرف کو فارم ہاؤس میں جس جگہ پر رکھا گیا ہے وہاں پر ایسے سپرنٹر بیگ رکھے گئے ہیں جس سے کسی بھی قسم کے بم دھماکے کے نتیجے میں کم سے کم نقصان ہو سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم کے ارکان ملزم پرویز مشرف کے جسمانی ریمانڈ کے دوران تین مرتبہ تفتیش کے لیے سب جیل گئے تھے اور اُنہوں نے سابق آرمی چیف سے تین گھنٹے کے قریب تفتیش کی ہے۔

130430114645_musharaf_security3041-1.jpg

پولیس اہلکاروں کو سب جیل کے اردگرد کے دو کلومیٹر کا علاقہ دیا گیا ہے

ملزم کو ابھی تک بینظیر بھٹو اور ججز کو حبس بےجا میں رکھنے کے مقدمے میں جب بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو اُن کے استعمال میں جو بُلٹ پروف گاڑی ہے اُس کے بارے میں مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک نجی تعمیراتی کمپنی کی ملکیت بتائی جاتی ہے۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک عدد ایمبولینس سمیت تیرہ گاڑیاں پرویز مشرف کے ہمراہ ہوتی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اشرف گُجر کا کہنا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کو ایسا پروٹوکول دینا کسی طور پر بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار ہونے والے کسی بھی ملزم کو اتنی مراعات نہیں دی جاتیں جتنی پرویز مشرف کو دی جا رہی ہیں۔اشرف گُجر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو اس امتیازی سلوک کا ازخود نوٹس لینا چاہیے۔
دوسری طرف فوجداری مقدمات کے وکیل احمد عالم کا کہنا ہے کہ کسی بھی مقدمے کے ملزم کی جان کو خطرات لاحق ہوں تو اُن کی سکیورٹی کے لیے کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دیا جاسکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کسی بھی ملزم کی جان کے خطرے کو جانچنے کے بعد کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔

شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
 

میر انیس

لائبریرین
بھائی عام قیدی تو رشک کریں گے ہی ۔ اب ہر شخص آرمی چیف تو نہیں رہا ہوتا نا۔ مجھ کو یاد نہیں پڑتا پاکستان میں آرمی کے کسی جنرل کو کبھی کوئی سزا ہوئی ہو۔ دوسرے مشرف کے ہر جرم میں( اگر وہ ثابت ہوگیا) صرف وہ اکیلا ہی ذمہ دار نہ تھا اس کے ساتھ اس وقت کی پوری کابینہ زمہ دار تھی ۔
 

فاتح

لائبریرین
مجھے لگتا ہے اس آرٹیکل کا لکھنے والا شہزاد ملک نامی شخص کوئی منا کاکا چوچا ہے۔۔۔
پوچھیں۔۔ کیوں؟ :)
اس کا سارا زورِ خطابت اس بات پر ہے کہ "ملزم" مشرف "ملزم" مشرف۔۔۔ "ملزم" مشرف کو یوں رکھا گیا توں رکھا گیا۔۔۔۔
اس اندھے کو کوئی یہ دکھائے کہ ہمارے ہاں کتنے فیصد وزرا بلکہ وزرائے اعظم اپنی وزارتوں کے قلمدان کے ساتھ ساتھ "ملزم" کا عہدہ بھی سنبھالے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ تفصیل لکھنے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ ان "ملزم" وزرا اور وزرائے اعظم کو کیا کیا سہولیات میسر ہوتی ہیں۔
 
Top