مقصدِ فرضیتِ صوم

سید عمران

محفلین
روزہ کا مقصد حصول تقویٰ ہے
روزہ کو عربی میں صوم کہتے ہیں اور صوم کے معنی ہیں کسی چیز سے رکنا یا اسے چھوڑ دینا۔روزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پوری کرنے سے رُک جانے کا نام روزہ ہے۔ روزے رکھنا نیک بختی کی علامت ہے۔ اور رمضان کے روزے تو اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں پر فرض کیے ہیں۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اے ایمان والو! تم پر روزے ایسے ہی فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن سکو۔معلوم ہوا کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے، اسی لیے سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے ہیں ۔

روزے کا اصل مقصد
بندہ روزے کی حالت میں اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو بھی ترک کر دیتا ہے مثلاً کھانا، پانی وغیرہ۔عارضی طور پر حلال چیزوں کو ترک کرنا اصل میں دائمی طور پر حرام چیزوں یعنی گناہوں کو ترک کرنے کی تربیت ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لِکُلِّ شَیْءٍ زَکوٰۃٌ وَ زَکوٰۃُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ(ابن ماجہ ص:۱۲۵) ہر چیز کی صفائی کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے اور بدن کی صفائی کا ذریعہ روزہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔(صحیح بخاری)

ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلَّا الْجُوْعُ وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ قِیَامِہ اِلَّا السَّہْرُ (سنن ابن ماجہ حدیث ۱۶۹۰۔سنن نسائی حدیث ۳۳۳۳) بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر گناہوں (غیبت وریا وغیرہ) سے نہ بچے تو روزہ، تراویح اور تہجد وغیرہ سب بیکار ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَالَمْ یَخْرِقْہَا (نسائی شریف حدیث ۲۲۳۳، مسند احمد حدیث ۱۶۹۰) روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے، جب تک گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔

ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری ۱؍۲۵۴، حدیث ۱۸۹۴، صحیح مسلم حدیث ۱۱۵۱)

روزے کے فضائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ’’رَیّان‘‘ کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزے دار جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے کو اس دروازے سے داخل ہونے کی اجازت نہ ہو گی۔ فرشتے پکاریں گے کہ روزے دار کہاں ہیں؟ روزے دار اس آواز کو سن کر جنت میں داخل ہونے کے لیے اس دروازے کی طرف بڑھیں گے اور جب روزے دار جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی شخص اس دروازے سے داخل نہ ہو سکے گا۔ اور فرشتے انہیں کہیں گے كُلُوا وَ اشْرَبُوا ہَنِیئًا بِمَا اَسْلَفْتُمْ فِی الْأَیَّامِ الْخَالِیَۃِ دنیا کی زندگی میں تم نے جو اعمال کیے ہیں ان کے بدلے میں خوب کھاؤ اور پیو۔(الحاقہ:۲۴) مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ آیت روزے داروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے (رمضان کے)اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کروایا تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے اور اسے روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزے دار کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کروانے کا سامان میسر نہیں ہوتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا صرف پانی ہی کے گھونٹ کے ذریعے کسی روزے دار کو افطار کروادے۔ اور جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلادے اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض یعنی حوضِ کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اسے کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔

حدیث مبارک میں ہے کہ ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے، ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے سوائے روزے کے کیوں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے عمل کرنے کے لیے کوئی حکم دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے رکھو، کیوں کہ روزہ بے نظیر عمل ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی امید سے روزے رکھے گا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔حدیث مبارک میں آتا ہے کہ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے یہاں کستوری کی خوشبو سے بھی اچھی ہے۔

روزہ قیامت کے دن روزے داروں کے لیے شفاعت کرے گا اور کہے گا کہ اے اللہ میں نے تیرے اس بندے کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا اس لیے اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے نہیں دیا اس لیے میری بھی اس کے بارے میں شفاعت قبول فرما۔ تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت قبول فرمالیں گے۔

جس طرح روزے کے فضائل عظیم الشان ہیں اسی طرح روزے نہ رکھنے پر حدیث شریف میں اتنی سخت وعید آئی ہے کہ صرف ایک دن کا روزہ نہ رکھنے کی تلافی ساری زندگی روزے رکھ کر بھی نہیں کی جاسکتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے رمضان میں (بے عذر شرعی) ایک روزہ بھی چھوڑ دیا تو اس روزہ کے بدلے اگر تمام عمر روزہ رکھے تو کافی نہ ہوگا۔

زندگی میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت بندوں پر بے حساب برستی ہے تاکہ مومن اس رحمت کو پا کر ہمیشہ ہمیشہ کی بد بختی سے بچ جائے۔رمضان کے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی کرم نوازیاں اور عنایات بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ ڈھیروں ڈھیر اجر سے نواز رہے ہیں اور مانگنے والوں کے لیے خیر و برکات کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ ہماری خیر و بھلائی اسی میں ہے کہ اس ماہ تن من دھن سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیں اور مغفرت کی اس عظیم نعمت کو حاصل کرلیں جو خدا کی رضا کے بغیر ہفت اقلیم کی دولت دے کر بھی نہیں ملتی۔
 
آخری تدوین:
Top