مقدمہ شعر و شاعری - الطاف حسین حالی

ماوراء

محفلین

صفحہ : 20 - 16


خود مختار بادشاہ جن کا کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں ہوتا اور تمام بیت المال جس کا جیب خرچ ہوتا ہے اس کی بے دریغ بخشش شعراء کی آزادی کے حق میں سم قاتل ہوتی ہے۔ وہ شاعر جس کو قوم کا سرتاج اور سرمایہء افتخار ہونا چاہیے تھا۔ ایک بندہ ہو اوہوس کے دروازہ پر دریوزہ گروں کی طرح صدا لگاتا اور شیئاللہ کہتا ہوا پہنچتا ہے۔ اول اول مدح و ستائش میں سچ بالکل قطع نظر نہیں کی جاتی۔ کیونکہ قومی عروج کی ابتدا میں ممدوح اکثر مدح کے مستحق ہوتے ہیں اور شاعر کی طبیعت سے آزادی کا جوہر رفتہ رفتہ زائل نہیں ہو جاتا لیکن جب واقعات نبٹ جاتے ہیں اور مداح سرائی کی کر ہمیشہ کے لیے شاعر کے ذمہ لگ جاتی ہے تو اس کی شاعری کا مدار صرف جھوٹی تہمتیں باندھنے پر رہ جاتا ہے۔ پھر جب آفتابِ اقبال کا دورہ جس کی عمر طبیعی شخصی سلطنتوں میں اکثر سو برس سے زیادہ نہیں ہوئی ختم ہونے کو ہوتا ہے اور سلاطین و امراء میں خوبیاں جن کے سبب سے وہ جمہور انام کے شکر و سپاس و مدح و ستائش کے مستحق اور شعراء کی مداحی سے مستغنی ہوں باقی نہیں رہتیں تو ان شاعروں کی بھٹی کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں سوجھتی جس کو سن کر ان کا نفس مونا ہو۔ لہذا ان کو شعرا کی زیادہ قدر کرنی پڑتی ہے۔ اس سے جھوٹی شاعری کو اور زیادہ ترقی ہوتی ہے پھر بہت سے نا شاعر جب شاعروں کو گراں بہا صلے اور خلعت و انعام برابر پاتے دیکھتے ہیں تو ان کو بہ تکلف اپنے تیئں شاعر بنانا پڑتا ہے لیکن چونکہ ان کی طبیعت میں شاعرانی جدت و اختراع کا مادہ نہیں ہوتا وہ اصلی شاعروں کی نہایت بھونڈی تقلید کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جس طرح بڑھاپے کی تصویر بچپن سے کچھ مناسبت نہیں رکھتی اسی طرح رفتہ رفتہ شعر کی صورت کو یا مسخ ہو جاتی ہے اور شاعری کا ماحصل سوا اس کے کہ اس سے قربِ سلطانی ہوتا ہے اور کچھ نہیں رہتا۔

 

ماوراء

محفلین
چوتھی صدی ہجری میں شعر کی نسبت کیا خیال تھا:


مرزا محمد طاہر نصر آبادی اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ایک روز رات کے وقت صاحب ابن عباد طالقانی کی مجلس میں حسب معمول فضلا اور شعراء جمع تھے۔ اثنائے سخن میں شر کا ذکر چھڑ گیا بعضے شعر کی تعریف کرتے تھے بعضے مذمت۔ جو لوگ مذمت کرتے تھے انہوں نے کہا کہ شعرا اکثر مدح یا ذم پر مشتمل ہوتا ہے اور دونوں چیزوں کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔ اس کے بعد ابو محمد خازن نے جو بہت بڑا صاحب علم و فضل تھا شعر کی تائید میں یہ کہا کہ شعر میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم باوجودیکہ ہر علم و ہنر سے بہرہ مند ہیں ان میں سے کوئی چیز ہماری کامیابی کا ذریعہ نہیں ہو سکتی۔ صرف شر ہی ایسی چیز ہے۔ جس کے ذریعے سے ہم کو سلاطین و وزراء کے ہاں تقرب کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ شعر میں اکثر جھوٹ اور مبالغہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہاں بے شک ہوتا ہے لیکن جب یہ تانبا (یعنی جھوٹ) شعر کے طلا سے مطلا کیا جاتا ہے و ہمرنگ زر خالص ہو جاتا ہے۔ اور شعر کا حسن جھوٹ کی برائی پر غالب آ جاتا ہے۔“ اس بات کو سب نے پسند کیا اور بحث ختم ہو گئی۔
اس حکایت سے علاوہ اس بات کے کہ صاحب ابن عباد کے زمانہ یعنی چوتھی صدی ہجری میں ہماری شاعری محض ایک ذریعہ سلاطین و امراء کے تقرب کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ اور مبالغہ شعر کے ذاتیات میں داخل ہو گیا تھا۔
 

ماوراء

محفلین
مسلمان شعرا کی کثرت:

یورپ کا ایک مورخ عربی لٹریچر کے ذکر میں لکھتا ہے کہ “صرف عرب کی قوم میں اتنے شاعر ہوئے ہیں کہ تمام جہاں کی قوموں کے شاع شمار میں ان کے برابر نہیں ہو سکتے۔“ ظاہر اس نے عرب قوم کے شعرا سے صرف عربی زبان کے شاعر مراد لیے ہیں اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر عربی کے ساتھ فارسی، ترکی، پشتو اور اردو کو بھی خالص مسلمانوں کی زبانیں ہیں شامل کر لیا جائے تو مسلمان شاعروں کی تعداد کس حد تک پہنچ جائے گہ۔ اور اگر بالفرض عرب کی قوم سے مطلقاً مسلمان شاعر مراد ہوں تو بھی تمام جہان کی قوموں کے شعراء سے ان کی تعداد کا زیادہ ہونا کچھ تعجب خیز نہیں۔
 

ماوراء

محفلین
اس کی کثرت کا سبب:

بظاہر اس کثرت کے دو سبب معلوم ہوتے ہیں ایک مدح و ستائش پر ممدوح کی طرف سے صلہ و انعام ملنے کا رواج جس کی وجہ سے ہر موزوں طبع کا عام اس سے کہ وہ شاعر بننے کے لائق ہو یا نہ ہو شاعری اختیار کرنے کا خیال ہوتا تھا۔ دوسرے ہر درجہ کے شعر پر سامعین کی طرف سے جا و بیجا تحسین و آفرین ہونے کا دوستور اور یہ پچھلا سبب پہلے سے بھی زیادہ شعر کوئی کی تحریک کرنے والا تھا۔ کیونکہ صلہ و انعام کا لالچ صرف انہیں لوگوں کو ہوتا تھا جنہیں اس کی احتیاج تھی۔ لیکن واہ واہ سننے کی خواہش میں بادشاہ اور امیر اور غریب سب برابر تھے۔ ان دونوں سببوں سے مسلمانوں کی شاعری کو دو طرف سے صدمہ پہونچا۔ جب صلے اور انعام مستحق اور غیر مستحق دونوں کو برابر ملنے لگے اور تحسین و آفرین کی بوچھاڑ محل اور بے محل ہر درجہ کے شعر پر ہونے لگی تو جو فی الحقیقت صلہ و تحسین کے مستحق تھے۔ ان کے دل بجھ گئے اور شاعری کی اعلی لیاقتیں جو ان کی طبیعت میں ودیعت تھیں وہ خریداروں کی بےتمیزی کے سبب جیسی ہونی چاہیے ظاہر نہ ہونے پائیں اور جو مستحق نہ تھے ان کے دل بڑھے اور ان کو قوم میں اپنی بساند پھیلانے اور شاعری پر ظلم کرنے کا موقع ملا۔
 

ماوراء

محفلین
عرب میں شعرا کی قدر:

شعرا کی قدر تمام دنیا میں ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے سلطنتوں نے ہمیشہ اس کی قدر کی ہے اور قوموں نے ان کے دل بڑھائے ہیں۔ عرب میں شاعر قوم کی آبرو سمجھا جاتا تھا جب کسی قبیلہ میں کوئی شخص شاعری میں ممتاز ہوتا تھا تو اور قبیلوں کے لوگ اس قبیلہ کو آ کر مبارک باد دیتے تھے اور سب مل کر خوشیاں کرتے تھے۔ قبیلوں کی عورتیں اپنے بیاہ کے زیور پہن کر آتی تھیں اور فخریہ اشعار گاتی تھیں کہ ہم میں ایسا شخص پیدا ہوا جو تمام قبیلہ کی ناک رکھنے والا، ان کے نسب اور زبان کی حفاظت کرنے والا اور ان کے کارہائے نمایاں اخلاف و اعقاب تک پہنچانے والا ہے۔ شعراء کی ناز برداری یہاں تک کی جاتی تھی کہ اگر وہ کوئی محال سوال کر بیٹھتا تو بھی صراحتاً اس کو رد نہ کیا جاتا تھا۔ ایک بار اعشٰی بہت سا مال و اسباب لیے بلا دنبی عامر میں ہو کر گزر اور راہزنوں کے خوف سے اثنائے راہ میں علقمہ بن علاثہ کے ہاں ٹھہر گیا اور پناہ چاہی اس نے بسر و چشم قبول کیا اعشٰی نے کہا تو نے مجھے جن و انس سے پناہ دی؟ علقمہ نے کہا ہاں۔ اعشٰی نے کہا اور موت سے؟ وہ بولا یہ تو امکان سے خارج ہے۔ اعشٰی وہاں سے ناراض ہو کر عامر بن الطفیل کے ہاں چلا گیا۔ اس نے دونوں باتوں کی حامی بھر لی۔ اعشٰی نے کہا موت سے کیونکر پناہ دی؟ کہا میری پناہ میں تجھے موت آ جائے گی تو تیرا خونبہا تیرے وارثوں کو بھیج دوں گا۔ اعشٰی بہت خوش ہوا اور اس کی مدح میں قصیدہ کہا اور علقمہ کی ہجو لکھی۔
 

ماوراء

محفلین
قومی سلطنتوں میں شعرا کی قدر مفید معلوم ہوتی ہے مگر شخصی حکومت میں مضر ہوتی ہے:


عرب کے سوال اور ملکوں میں بھی شعرا کی قدر دانی کا ایسا ہی حال رہا ہے قومی سلطنتوں میں جہاں بادشاہ حاکم علی الاطلاق نہیں ہوتا۔ ایسی قدردانیوں سے شاعری بے انتہا ترقی پاتی ہے۔ شاعر جب تک تمام قوم میں مقبول نہیں ٹھہر جاتا سلطنت سے اس کی تقویت اور امداد نہیں ہوتی اور قوم میں وہی شاعر مقبول ہو سکتا ہے جو شاعری کے فرائض بغیر امید و بیم کے نہایت آزادی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ نہ اس کو سلطنت کی دستگیری کی کچھ پرواہ ہے اور نہ بادشاہ کے مواخذہ کا کچھ خوف ہے۔
لیکن خود مختار سلطنتوں میں شاعر کو ہر حال میں دربر کی رضا جوئی کا لحاظ رکھنا اور آزادی سے دست بردار ہونا پڑا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے سچے جوش اور ولولے جن کے بغیر شعر کو ایک قالب بے روح سمجھنا چاہیے۔ سب رفتہ رفتہ خاک میں مل جاتے ہیں۔ نہ وہ اپنے دل کی امنگ سے کسی کی مدح کر سکتا ہے نہ سچے جوش سے کسی کی ہجو لکھ سکتا ہے۔ مروان بن ابی حفصہ جو کہ خلیفہ مہدی کے زمانہ میں مشہور شاعر تھا اس نے معن زائدہ کے مرثیہ میں جس کی شجاعت اور سخاوت ضربالمثل تھی یہ شعر لکھ دیا تھا۔


و قلنا این نرحل بعد معن
و قد ذھب النوال فلا نوالا​

مہدی نے اس کو دربار میں بلا کر یہ شعر پڑھوایا اور نہایت نے عزتی کے ساتھ دربار سے نکلوا دیا۔ لکھا ہے کہ جعفر برمکی کے سوا پھر کسی امیر یا خلیفہ نے اس کو صلہ نہیں دیا۔ جہاں وہ قصیدہ کہہ کر لے جاتا وہاں سے جواب ملتا۔ فیاضی تو معن کے ساتھ گئی۔ جعفر برمکی جس کا ایک زمانہ اور خاص کر شعرا مرہون احسان تھے اس کے مرثیے لکھنے پر بہت سے شاعر ہارون کے حکم سے قتل کیے گئے تو تاشی نے اکثر شعرا کے قتل کے بعد خفیہ ایک مرثیہ لکھا تھا، اس کے اخیر میں کہتا ہے۔


اما و اللہ لو لا لا خوف واش
و عین للخلیفتہ لا تنام
لطفنا حول قبرک و استمنا
کما للناس بالحجرا اسلام​

ترجمہ: واللہ اگر غماز کا اور خلیفہ کی چشم بیدار کا خوف نہ ہوتا تو ہم تیری قبر کے گد طواف کرتے اور بوسہ دیتے جیسے کہ لوگ حج اسور کو بوسہ دیتے ہیں۔
 

ماوراء

محفلین
شخصی حکومت میں شاعر کی آزادی سے اس کو نقصان پہنچتا ہے:

ایسے زمانے میں اگر کوئی مستغنی مزاج اور آزاد طبع شاعر دربار کی رضا جوئی کو خیال نہیں کرتا تو اس کو ویسے ہی ثمرے بھگتنے پڑتے ہیں جیسے کہ فردوسی کو بھگتنے پڑے۔ فردوسی ایک آزاد منش اور قانع
 
Top