مقدر میں نہ لکھا ہو گیا ہے

میاں وقاص

محفلین
مقدر میں نہ لکھا ہو گیا ہے
"عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے"

یہ دامن اب جو صحرا ہو گیا ہے
کوئی امکان پیدا ہو گیا ہے

جو اچھا تھا، برا وہ ہو گیا ہے
برا تھا جو وہ اچھا ہو گیا ہے

تعلق جس سے زرہ بھر نہیں ہے
وہی میرا حوالہ ہو گیا ہے

مری تشنہ لبی کے سامنے تو
سمندر بھی پیالہ ہو گیا ہے

مبلغ تو رہا ایثار کا، پر
ترا محور بھی پیسہ ہو گیا ہے

مری آنکھوں کا جو کانٹا تھا صاحب
تری آنکھوں کا تارا ہو گیا ہے

مرے آنسو اسے اجلا کریں گے
یہ دریا آج میلا ہو گیا ہے

میں برسوں سے سمجھ یہ کیوں نہ پایا
کہ اک پل میں وہ کیسا ہو گیا ہے

میں اپنے عکس پر اب مطمئن ہوں
کہ اب وہ میرے جیسا ہو گیا ہے

فلک اس سے یقیناً بے خبر ہے
زمیں پر جو تماشہ ہو گیا ہے

بھنور نے کرلیا شاید ذخیرہ
کہ اب ساحل بھی پیاسا ہو گیا ہے

بھنور اب میرا مرکز ہو چکا ہے
کناروں سے کنارہ ہو گیا ہے

رویہ جو تمہارا ہو گیا ہے
مری سوچوں سے بالا ہو گیا ہے

کہاں "ماضی" کے جیسا "حال" ہے اب
وہ کیسا تھا، وہ کیسا ہو گیا ہے

کسی سے رائیگاں چشم_زدن میں
محبت کا اثاثہ ہو گیا ہے

اسے شاہین دکھتا ہے سبھی کچھ
محبت میں جو اندھا ہو گیا ہے

حافظ اقبال شاہین
 
Top