کسی دیوار میں ایک دراڑ تھی اور اس میں بہت سی چیونٹیوں نے اپنا گھر بنا لیا تھا۔ ان میں ایک مغرور اور موٹی چیونٹی بھی شامل تھی۔ اسے اپنی طاقت اور ذہانت پر بڑا غرور تھا اور اکثر غول کا سردار بننے کا سوچا کرتی لیکن غول کی سردار چیونٹی اتنی عقلمند اور رحم دل تھی کہ اس کے آگے موٹی چیونٹی کی ایک نہ چلتی۔
اس کے سازشی ذہن نے بڑے بڑے لالچ دے کر تمام چیونٹیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کئی بار کوشش کی لیکن چیونٹیاں اپنی سردار سے اس قدر محبت کرتی تھیں کہ ایک بھی چیونٹی اس کے ورغلانے میں نہیں آئی۔
نرمی سے کام نہیں بن سکا تو اپنی طاقت کے سہارے یہ ان پر ظلم و ستم کرنے لگی۔ وقت بے وقت کسی نہ کسی کو مارنے لگتی اور موقع ملتے ہی ان کا دانہ چھین لیتی۔ تھوڑے ہی دنوں مین سارے غول میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہر چیونٹی اس کے ظلم سے پریشان رہنے لگی۔
جب بہت جینا دُشوار ہو گیا تو ایک دن تمام چیونٹیاں فریاد لے کر سردار کے پاس پہنچ گئیں۔ سردار پوری توجہ اور ہمدردی سے ایک ایک کی شکایت سنتی رہی پھر بڑے خلوص اور سنجیدگی سے بولی، " بہنو ! آپ سب کی دُکھ بھری کہانی سن کر بہت ہی افسوس ہوا اور یہ آپ سب کا ہی نہیں میرا بھی مسئلہ ہے۔ نیری یہی خواہش ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے اس لئے میں اس کا فیصلہ خدا کے سپرد کرتی ہوں کیونکہ وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے! " پھر سردار چیونٹی انھیں صبر کی نصیحت کرنے لگی۔ تمام چیونٹیوں کو اپنی سردار کی نیک دلی اور عقلمندی پر پورا بھروسہ تھا چنانچہ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی سردار کی نصیحتیں سن کر ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔