مغرُور چیونٹی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کسی دیوار میں ایک دراڑ تھی اور اس میں بہت سی چیونٹیوں نے اپنا گھر بنا لیا تھا۔ ان میں ایک مغرور اور موٹی چیونٹی بھی شامل تھی۔ اسے اپنی طاقت اور ذہانت پر بڑا غرور تھا اور اکثر غول کا سردار بننے کا سوچا کرتی لیکن غول کی سردار چیونٹی اتنی عقلمند اور رحم دل تھی کہ اس کے آگے موٹی چیونٹی کی ایک نہ چلتی۔

اس کے سازشی ذہن نے بڑے بڑے لالچ دے کر تمام چیونٹیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کئی بار کوشش کی لیکن چیونٹیاں اپنی سردار سے اس قدر محبت کرتی تھیں کہ ایک بھی چیونٹی اس کے ورغلانے میں نہیں آئی۔

نرمی سے کام نہیں بن سکا تو اپنی طاقت کے سہارے یہ ان پر ظلم و ستم کرنے لگی۔ وقت بے وقت کسی نہ کسی کو مارنے لگتی اور موقع ملتے ہی ان کا دانہ چھین لیتی۔ تھوڑے ہی دنوں مین سارے غول میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہر چیونٹی اس کے ظلم سے پریشان رہنے لگی۔

جب بہت جینا دُشوار ہو گیا تو ایک دن تمام چیونٹیاں فریاد لے کر سردار کے پاس پہنچ گئیں۔ سردار پوری توجہ اور ہمدردی سے ایک ایک کی شکایت سنتی رہی پھر بڑے خلوص اور سنجیدگی سے بولی، " بہنو ! آپ سب کی دُکھ بھری کہانی سن کر بہت ہی افسوس ہوا اور یہ آپ سب کا ہی نہیں میرا بھی مسئلہ ہے۔ نیری یہی خواہش ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے اس لئے میں اس کا فیصلہ خدا کے سپرد کرتی ہوں کیونکہ وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے! " پھر سردار چیونٹی انھیں صبر کی نصیحت کرنے لگی۔ تمام چیونٹیوں کو اپنی سردار کی نیک دلی اور عقلمندی پر پورا بھروسہ تھا چنانچہ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی سردار کی نصیحتیں سن کر ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ایک دن کا واقعہ ہے ۔ سردار چیونٹی چند چیونٹیوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا سا دانہ دیوار پر چڑھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ لیکن وہ اتنا وزنی تھا کہ چڑھاتے چڑھاتے وہ بار بار تھک کر نڈھال ہو جاتیں۔ اس وقت بھی وہ ایک جگہ ٹھہر کر اُکھڑی ہوئی سانس درست کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ اتفاق سے موٹی مغرور چیونٹی بھی ادھر آنکلی اور انہیں ہانپتے کانپتے دیکھ کر سردار کا مذاق اُڑاتے ہوئے بڑے غرور سے کہنے لگی ، " ہونہہ۔۔۔ ایک معمولی سا دانہ تم لوگوں سے نہیں لے جایا جا رہا ہے۔ میں سردار ہوتی تو پلک جھپکتے میں اوپر پہنچا دیتی ! "

سردار کی اس توہین کو چیونٹیاں برداشت نہیں کر سکیں اور غضبناک ہو کر اس گھمنڈ کا سبق دینے کے لئے اس پر دانہ لڑھکانا چاہا لیکن سردار نے انہیں فوراً ہی روک دیا، بہنو ! ذرا اور صبر سے کام لو۔ صبر کا پھل بہت ہی میٹھا اور غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو، وہ اس کے غرور کو بھی بہت جلد خاک میں ملا دے گا۔ ۔ وہ اپنی ساتھیوں کو سمجھاتی ہوئی آہستہ سے بولی۔ چیونٹیوں کا سارا غصہ جاتا رہا اور وہ موٹی چیونٹی کی طرف سے نظریں ہٹا کر سردار کے ساتھ دانہ اوپر گھسیٹنے لگیں۔ انہیں خاموشی سے جاتے دیکھ کر موٹی چیونٹی کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ وہ یہ سمجھی کہ سردار اور اس کی ساتھی اس سے ڈر گئیں ہیں۔

اس لئے وہ ان کے پاس جا کر سرادر کی اور بھی ہنسی اڑانے لگی، تم لوگ بے وقوف ہو جو ایسی کمزور اور مریل کو اپنا سردار بنایا ہے جو تمہارے ساتھ مل کر بھی ایک معمولی سا بوجھ نہیں گھسیٹ سکتی۔ مجھے اپنا سردار بنا لو تو میں اس بوجھ کو اکیلے ہی اوپر پہنچا سکتی ہوں۔ یہ سنتے ہی سردار چینٹی کے ہونٹوں پر سنجیدہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے ایک نظر نیچے ڈالی جہاں ایک گندی نالی بہہ رہی تھی۔ پھر وہ کچھ سوچ کر موٹی چیونٹی سے بڑی نرمی سے بولی، بہن تُم سچ کہتی ہو ۔ واقعی اب میں بہت کمزور ہو چکی ہوں اور سرداری نہیں کر سکتی۔ اگر تم اس دانے کو اوپر پہنچا دو تو میں وعدہ کرتی ہوں میں اور ٍول کی تمام چیونٹیاں تمہیں اپنا سردار تسلیم کرلیں گی۔ سردار کی بات سن کر مغرور چیونٹی خوشی سے اور پُھول گئی۔ اس کے سردار بننے میں اب زیادہ دیر نہیں تھی۔

سردار کے خاموش ہوتے ہی اس نے جھپٹ کر چیونٹیوں سے دانہ لے لیا لیکن دانہ سنبھالتے ہی جیسے اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بھاری بوجھ سے اس کا بند کانپنے لگا۔ دانے کو سنبھالنا اور دیوار پر ہاتھ پاؤں جمائے رکھنا دشوار ہو گیا۔ اپنی غلطی پر بہت پچھتائی۔ دانہ نہیں سنبھالا گیا تو سردار چیونٹی اور اس کی ساتھیوں کو مدد کے لئے آواز دینا چاہی لیکن اس سے پہلے ہی اس کے ہاتھ پیر دیوار سے اکھڑ گئے اور وہ ہوا میں چکراتی ہوئی دانے کے ساتھ نیچے گندی نالی میں جا پڑی اور ابھی ہوش بھی ٹھکانے نہیں آئے تھے کہ ایک بھوکا کیڑا جو شکار کی تلاش میں قریب ہی تیر رہا تھا خداکی بھیجی ہوئی نعمت سمجھ کر اسے فوراً چٹ کر گیا !
 
Top