مغرب زدہ ذہن کی واماندگیاں

سیّد قطب شھید کی کتاب معالم فی الطریق سے اقتباسات
مغرب زدہ ذہن کی واماندگیاں

جس زمانے میں میرا قیام امریکہ میں تھا اُنہی دنوں کی بات ہے کہ اسلام کے ایسے ہی نادان دوست ہمارے ساتھ الجھے رہتے تھے۔ ہم لوگ جو اسلام کی طرف منسوب تھے تعداد میں کم تھے۔ مخالفین اسلام کے مقابلے میں ہمارے بعض دوست مدافعانہ رویہ اختیار کرتے تھے مگر میں ان سب کے برعکس مغربی جاہلیت کے بارے میں جارحانہ مسلک پر قائم تھا اور احساس کہتری میں مبتلا ہوئے بغیر مغربی جاہلیت کے بودے اور متزلزل مذہبی عقائد پر تلخ تنقید کرتا ، مغربی جاہلیت کے انسانیت سوز معاشرتی اور اقتصادی اور اخلاقی حالات کو بے جھجک ننگا کرتا اور بتاتا کہ مسیحیت کے یہ اقانیم ثلاثہ ، اور گناہ و کفارہ کے نظریات عقل سلیم اور ضمیر پاکیزہ کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اجارہ داری اور دوسرے ظالمانہ اور انسانیت کش حربے، اور یہ خودسرانفرادی ازادی جس میں اجتماعی کفالت اور باہمی ہمدردی کے لیے اس وقت تک کوئی گنجائش نہیں جب تک قانون کا ڈنڈا حرکت میں نہ آئے، زندگی کا یہ مادہ پرستانہ سطحی اور بے جان تصور، یہ چوپائیوں کی سی بے لگامی جسے آزادی اختلاط کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بردہ فروشی جسے ازادی نسواں سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ نظام و طلاق کے رکاکت امیز، تکلیف دہ، اور عملی زندگی کے منافی قوانین و ضوابط، یہ ناپاک اور مجنونانہ نسلی امتیاز یہ سب کچھ عقلِ سلیم کے خلاف اور انسانیت کے لیے باعث ِعار ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں ان کو یہ بھی بتاتا تھا کہ اسلام کس قدر عقلی و علمی نظریہ ہے، کس قدر بلند نگاہ، انسانیت نواز اور شاداب ق زرخیز نظام ہے، یہ اُن اُفقوں تک اپنی کمندیں پھینکتا ہے جن تک انسان پرواز کرنا چاھتا ہے مگر آج تک پہنچنے سے عاجز ہے۔ اسلام عملی زندگی کا نظام ہے اور یہ زندگی کی تمام گھتیوں کو انسان کی فطرت سلیم کے تقاضوں کی روشنی میں سُلجھاتا ہے۔

مغرب کی زندگی کے یہ عملی حقائق تھے جن سے ہم سب کو پالا پڑا تھا۔ اور جب اسلام کی روشنی میں ان حقائق کا جائزہ لیا جاتا تھا تو ان کے متوالوں کے سر بھی شرم سےجھک جاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام کے ایسے دعویدار بھی موجود تھے جو اس نجاست سے مرعوب ہوچکے ہیں جس میں جاہلیت میں لت پت ہے اور وہ مغرب کے اس کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے اندر اور مشرق کی شرمناک اور کریہہ المنظر مادہ پرستی کے اندر وہ چیزیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں جن کی اسلام سے مشابہت ثابت کرسکیں یا اسلام کو ان کے مشابہ و مماثل قراردے سکیں۔

داعیان حق کے لیے صحیح طرز عمل
اس کے بعد مجھے یہ کہنے کی حاجت محسوس نہیں ہوتی کہ ہمیں دعوتِ اسلامی کے علمبرداروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم جاہلیت کا کس پہلو سے ساتھ دیں، جاہلیت کے کسی نظریہ یا جاہلیت کے کسی نظام کے ساتھ یا جاہلیت کی کسی روایت کے ساتھ کسی نوعیت کی سودابازی کریں، چاہے ہم پر کوہ غم ہی ٹوٹ پڑے۔ اور جبر و تشدد کا نظام ہمارے خلاف آزمائشوں کا طوفان برپا کردے۔
ہمارا اوّلین کام یہ ہے کہ ہم جاہلیت کو مٹا کر اُس جگہ اسلامی نظریات اور اسلامی اقدار و روایات کو براجمان کریں۔ یہ منشا جاہلیت کی ہمنوائی سے اور آغازِسفر میں چند قدم اُس کا ساتھ دینے سے پورا نہیں ہوسکے گا۔ ہمارے بعض دوست اس طرح کی باتیں با لفعل سوچ رہے ہیں مگر اس کا مطلب ہوگا کہ ہم نے اوّل قدم ہی پر اپنی شکست کا اعلان کردیا۔
بے شک رائج الوقت اجتماعی تصّورات اور فروغ پذیر معاشرتی روایات کا دباؤ نہایت شدید اور کمر شکن ہے، بالخصوص عورت کے معاملے میں یہ دباؤ اور بھی زیادہ ہے۔ بے چاری مسلمان عورت اس جاہلیت کے طوفان میں بڑے سنگ دلانہ دباؤ سے دوچار ہے۔ لیکن امر محتوم سے کوئی مفر نہیں ہے۔ لازماّ ہمیں پہلے ثابت قدمی اور جگر داری کا ثبوت دینا ہوگا اور پھر حالات پر غلبہ حاصل کرنا ہوگا۔ اسی طرح ہمیں جاہلیت کے اُس گہرے کھڈ کے حدود اربعہ کا مشاہدہ بھی کرانا ہوگا جس میں وہ اب گری پڑی ہے اور مقابلۃّ دنیا کو اُس اسلامی زندگی کے وہ نور افگن اور بلند و بالا افق دکھانے ہوں گے جس کے ہم داعی ہیں۔

اتنا عظیم کام یوں نہیں سرانجام پاسکتا کہ ہم چند قدم جاہلیت کے دوش بدوش چلیں اور نہ اس طرح انجام پاسکتا کہ ہم جاہلیت کا یکسر مقاطعہ کردیں اور اس سے الگ تھلگ ہو کر گوشہ عزلت میں جا بیٹھیں۔ یہ دونوں فیصلے غلط ہیں۔ ہم جاہلیت کے ساتھ ہم آمیز تو ہوں مگر اپنا تشخّص باقی رکھ کر، جاہلیت کے ساتھ لین دین کریں مگر دامن بچا کر، حق کا واشگاف اعلان کریں مگر سوز و محبت کے ساتھ، ایمان و عقیدہ کے بل پر اُونچے رہیں مگر انکساری اور تواضع کے جلو میں، اور آخر میں یہ حقیقت نفس الامری ہمارے قلب و ذہن پر پوری طرح ثبت ہونی چاہیے کہ: ہم جاہلی فضا میں زندگی بسر کررہے ہیں، اس جاہلیت کے مقابلے میں ہماری راہ زیادہ راست اور سیدھی ہے، ہمارا مشن ایک دوررس تبدیلی برپا کرنا ہے، یعنی انسانیت کو جاہلیت کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں داخل کرنا ہے۔ جاہلیت اور اسلام کے مابین ایک وسیع و عریض وادی ہے جس پر کوئی پُل اس غرض کے لیے کھڑا نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں بین بین آکر مل سکیں، بلکہ ایسا پُل اگر قائم کیا جاسکتا تو صرف اس غرض کے لیے کہ اہل جاہلیت اُسے عبور کرکے آغوش اسلام میں آپناہ لیں خواہ و ہ مبینہ اسلامی وطن کے رہنے والے مدّعیان ِاسلام ہوں یا اس کے باھر کے لوگ ہوں۔ تاکہ وہ اندھیروں سے نکل کر اُجالے میں آئیں، اور اُس زبوں حالی سے نجات پائیں جس میں سرتا پا غرق ہیں اور اُس "خیر" سے مستفید ہوسکیں جس سے وہ گروہ شادکام ہوچکا ہے جس نے اسلام کو پہچان لیا ہے اور جو اسلام ہی کے سائے میں جینے کی کوشش کررہا ہے۔ اور اگر کسی کو یہ دعوت پسند نہیں ہے تو ہمیں اُس سے وہی کہہ دینا چاھیے جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول کو دیا تھا: لکم دینکم ولی دین (تہمارے لیے تہمارا دین اور میرے لیے میرا دین ) سورہ الکافرون
 

جاسمن

لائبریرین
زندگی کا یہ مادہ پرستانہ سطحی اور بے جان تصور،۔۔۔چوپائیوں کی سی بے لگامی۔۔۔۔۔۔۔۔مغرب کے اس کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے اندر اور مشرق کی شرمناک اور کریہہ المنظر مادہ پرستی کے اندر وہ چیزیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں جن کی اسلام سے مشابہت ثابت کرسکیں یا اسلام کو ان کے مشابہ و مماثل قراردے سکیں۔،۔۔۔۔۔۔۔تنا عظیم کام یوں نہیں سرانجام پاسکتا کہ ہم چند قدم جاہلیت کے دوش بدوش چلیں اور نہ اس طرح انجام پاسکتا کہ ہم جاہلیت کا یکسر مقاطعہ کرد۔۔۔۔حق کا واشگاف اعلان کریں مگر سوز و محبت کے ساتھ، ایمان و عقیدہ کے بل پر اُونچے رہیں مگر انکساری اور تواضع کے جلو میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت خوب! زبردست!
 
Top