معراج النبی ﷺ

ضیاء حیدری

محفلین
معراج النبی ﷺ
معراج النبی ﷺ ہجرتِ نبو ی سے کم وبیش ڈیڑھ سال قبل27رجب المرجب کی شب کو وقوع پذیر ہوئی تھی۔
سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتنا انہ ھو السمیع البصیرo‘‘
پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرم سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول میں ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
مَا كَذَبَ ٱلْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ﴿١١﴾ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿١٢﴾
’’نگاہِ(مصطفی) نے جو دیکھا ، قلبِ (مصطفیٰ) نے اُس کی تکذیب نہیں کی (یعنی تصدیق کی ) ،کیا تم اُن سے اُس پر جھگڑ تے ہو،جواُنہوں نے دیکھا ،(النجم: 11-12)‘‘۔
معراج النبی ﷺ کی تکذیب سب سے پہلے کفار مکہ نے کی تھی، مگر ابوبکر صدیق نے تصدیق کی، بے شک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے درجہ والے ہیں۔ صواعق مرحقہ میں بروایت ابن عساکر ہے، حضرت علی کر م اللہ وجھہ الکریم یوں ارشا د فر ماتے ہیں:
’’ سچائی لانے والے حضو ر ہیں جو بظاہر اعلان نبوت سے پہلے ہی صا دق الو عد الا مین سے مشہور تھے ۔یہ لقب نہ پہلے کسی کو ملا تھا نہ ہی قیا مت تک کسی کو ملے گا،اور سچائی کی تصدیق کر نے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اللہ کے وہاں اِن کا بڑا درجہ، بڑی عزت ،بہت شان و شوکت ہے، یہ آیت کریمہ اس امر کی گواہ ہے(تفسیر نو رالعر فان)۔
آج بھی کچھ لوگ معراجِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں ،بلکہ اِسے ’’رُؤیا‘‘(یعنی خواب )سے تعبیر کرتے ہیں، غلام احمد پرویز سرے سے کسی معراجِ جسمانی یا مَنامِی کے قائل نہیں ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی بھی حالتِ بیداری میں معراجِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں ،بلکہ اِسے خواب سے تعبیر کرتے ہیں، سرسید احمد خاں سرے سے معجزات کے قائل ہی نہیں ہیں ، اگرچہ سرسید معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور فاتر العقل قرار دیتے ہیں ،لیکن قدرتِ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی عشقِ مصطفی ﷺ کا تقاضا ہے۔شبلی نعمانی معراجِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں، لیکن وہ مَصْلِحَۃا اس کو بیان نہیں کرنا چاہتے ہیں،
رسول اللہ ﷺ کے اِس دعوائے معراج کو کُفارِ مکہ نے خواب پر محمول نہیں کیا ،بلکہ عالمِ بیداری میں بظاہر ایک ناقابلِ یقین سفرکا دعویٰ سمجھا ۔اِسی لیے توقرآن نے اِسے فتنہ یعنی آزمائش قرار دیاہے اوراس کسوٹی کے ذریعے مومنینِ صادقین اور معانِدین و مُنکرین کو چھانٹ کر جداکردیا ۔ کُفارِ مکہ نے اِسے قوانینِ فطرت کے خلاف اور عقل کی ضِد جانا اور حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے معراج کی بابت سوال ہوا:کیا آپ نبی ﷺ کے اس دعوے کی تصدیق کریں گے کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے واپس آگئے، انہوں نے فرمایا: بالکل! میں ضرور اس سے بھی زیادہ عقل کے لیے حیران کن چیزوں کی تصدیق کروں گا، وہ صبح وشام آسمان کی خبریں لاتے ہیں اور میں اُن کی تصدیق کرتا ہوں، (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد، ج:3،ص:94)‘‘۔
آج کے دور میں جو لوگ اسے قوانینِ فطرت کے خلاف اور عقل کی ضِد کہتے ہیں وہ دراصل کفار مکہ کے پیروکار ہیں،
امام احمد رضا قادری نے کہا :
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے ، سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہیںجن کے ہیں یہ مکاں ، وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
 
Top