ناصر علی مرزا
معطل
منو بھائی
گزشتہ صدی کے نصف آخر میں صحافت کی دنیا میں عام طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ”معتبر ذرائع“ ہوتے تھے۔ ہمارے ساتھیوں کو جو بات سب سے زیادہ قابل توجہ بنانے کی ضرورت ہوتی تھی اس کے بیان یا انکشاف کے لئے ”معتبر ذرائع“ کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ ”معتبر ذرائع“ کے حوالے سے بیان کی جانے والی یا شائع ہونے والی بعض باتوں میں ہمارے خبر نگاروں کی اپنی خواہشات، اپنی تمنائیں، اپنی نفرت، غصہ یا تعصب بھی شامل یا شریک ہوتا ہوگا مگر”معتبر ذرائع“کا اعتبار یا بھرم قائم رکھنے کی غرض سے مذکورہ بالا آلائشوں کو چھپانے اور پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی چنانچہ خبروں میں اعتبار اور اعتماد کا عنصر موجود رہتا تھا یہ عنصر آج بھی خبروں میں بہت حد تک موجود ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ”معتبر ذرائع“ اب کچھ زیادہ ”معتبر “ نہیں رہے اگرچہ پوری طرح غیر معتبر یا مشکوک بھی نہیں ہوئے لیکن پہلے جیسا اعتبار اور اعتماد بھی نہیں رہا۔
وطن عزیز کی اکیسویں صدی عیسوی اور نئے ”ہزاریئے“ (ملینیم) کا آغاز ملک کے چوتھے فوجی حکمران کے دور میں ہوا اور گزشتہ صدی کے نصف آخر سے اکیسویں صدی کے آغاز تک عالمی سطح پر بہت سی نمایاں تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئیں۔ سوویت یونین کا خاتمہ ہوا جس کو سوشلزم کی شکست سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر بائیں بازو کے ایک مضبوط دھڑے کے خیال میں سوویت یونین جس سوشلزم کی پرورش کررہا تھا وہ صحیح معنوں میں سوشلزم نہیں تھا سٹالن ازم تھا۔ عالمی سطح پر نمایاں ہونے والی ایک تبدیلی یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ کیپیٹل ازم کو جس نوعیت کا خوف، اندیشہ، غصہ یا تعصب سوشلزم سے تھا اس سے زیادہ خوف، اندیشہ، غصہ اور تعصب عالمی سرمایہ داری اور سامراجی نظام کو نام نہاد اسلامی بنیاد پرستی یا دہشت گردی سے لاحق ہوچکا ہے مگر یہاں منیر نیازی مرحوم کا یہ شعر
بھی یاد کیا جاتا ہے کہ:
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
اردو زبان میں اس کا ترجمہ یوں ہوسکتا ہے کہ:
میں خود مرنے پہ راضی تھا قضا کے ہاتھ کیا آیا
عیسوی تقویم (کیلنڈر) کے پہلے ”ہزاریئے“ نے دوسرے ”ہزاریئے“ کا روپ دھارا تو اس عرصہ میں وطن عزیز میں کچھ نئے تقدس مآب عناصر وجود میں آگئے۔ ان میں ایک ”سول سوسائٹی“ کا عنصر دوسرا ”وکلاء برادری“ کا عنصر، تیسرا ٹی وی چینل کے پروگراموں کے میزبانوں کا عنصر اور چوتھا ”سینئر تجزیہ نگاروں“ کا عنصر ہے جن میں سے آدھے سے زیادہ اس عنصر میں فوجی وردیاں اتارنے کے بعد شامل ہوئے ہیں۔ جس طرح سوچا جا سکتا ہے کہ اگر ”معتبر ذرائع“ ہوسکتے ہیں تو پھر ”غیر معتبر ذرائع“ اور ”مشکوک ذرائع“ بھی ہوتے ہوں گے اسی طرح پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ”سینئر تجزیہ نگار“ ہوتے ہیں تو پھر ”جونیئر تجزیہ نگار“ بھی ہوتے ہوں گے لیکن ان کا کسی پروگرام میں بھی کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ کوئی حوالہ نہیں دیا جاتا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ تجزیہ نگار کتنے سالوں کی تجزیہ نگاری کے بعد ”سینئر تجزیہ نگار“ کہلانے کے حق دار سمجھے جاتے ہیں؟
وطن عزیز کے چوتھے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اپنے وطن کی بہت ساری منفی خدمات کا سہرا باندھا ہے مگر ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ”معتبر ذرائع“ کی جگہ فیصلے صادر کرنے والے ذرائع نے لے لی تھی بلکہ فتوے جاری کرنے والوں اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا تاثر دینے والوں نے بھی خبروں کو افواہوں میں بدلنے کی خدمات سرانجام دینا شروع کر دی تھیں۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے خبروں اور افواہوں کے درمیان ایک ’تیسری جنس“ ، ”درفنطنی“ کے نام سے وجود میں آچکی تھی مگر اس میں افواہ سے زیادہ شرارت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے اور کسی حد تک اس میں ”پیش گوئی یا ”پیشن گوئی“ بھی اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔
گزشتہ روز ایک ”درفنطنی“ میں بتایا گیا اور ”معتبر ذرائع“ کے حوالے سے بتایا گیا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی امریکہ سے واپسی پر این اے 58(اٹک) سے استعفےٰ دے کر اپنے صاحب زادے مونس الٰہی کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 110گجرات سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ مونس الٰہی چودھری اس نشست سے استعفیٰ دے دیں گے اور چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرکے ان کے اقتدار کا تختہ الٹ دیں گے کہ آئندہ چند روز میں پنجاب اسمبلی میں ”ق“لیگ کے فارورڈ بلاک کو پارٹی میں واپس لانے کی کوششیں تیز تر ہو جائیں گی اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اقتدار کی باقی مدت ”ق لیگ“کے ساتھ مل کر پوری کرے گی۔
ایک روز ”درفنطنی“ کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو ایوان صدر سے نکالنے یا مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کی راہ میں ایک دشواری یہ پائی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف ان کے متبادل بن کر سامنے آجائیں گے اور شاید ”ریاست“ چلانے والے یہ نہیں چاہتے چنانچہ جس طرح صدر آصف علی زرداری میاں نواز شریف کی سیاسی مدد فرما رہے ہیں اسی طرح میاں نواز شریف بھی صدر آصف علی زرداری کی مدد فرمانے میں مصروف ہیں جو کہ ”فرینڈلی اپوزیشن“ سے آگے کی بات ہے جو لازم و ملزوم کے قریب تر ہے۔
تیسری ”درفنطنی“بھی سن لیجئے کہ امریکہ بہادر افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور اس کے فوراً بعد طالبان اور ”وار لارڈز“ کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور دونوں ایک دوسرے کو ختم کرکے رکھ دیں گے۔ کیوں جناب! یہ کیسی دلچسپ ”درفنطنیاں“ ہیں؟
(بشکریہ روزنامہ جنگ)
گزشتہ صدی کے نصف آخر میں صحافت کی دنیا میں عام طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والے ”معتبر ذرائع“ ہوتے تھے۔ ہمارے ساتھیوں کو جو بات سب سے زیادہ قابل توجہ بنانے کی ضرورت ہوتی تھی اس کے بیان یا انکشاف کے لئے ”معتبر ذرائع“ کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ ”معتبر ذرائع“ کے حوالے سے بیان کی جانے والی یا شائع ہونے والی بعض باتوں میں ہمارے خبر نگاروں کی اپنی خواہشات، اپنی تمنائیں، اپنی نفرت، غصہ یا تعصب بھی شامل یا شریک ہوتا ہوگا مگر”معتبر ذرائع“کا اعتبار یا بھرم قائم رکھنے کی غرض سے مذکورہ بالا آلائشوں کو چھپانے اور پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی چنانچہ خبروں میں اعتبار اور اعتماد کا عنصر موجود رہتا تھا یہ عنصر آج بھی خبروں میں بہت حد تک موجود ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ”معتبر ذرائع“ اب کچھ زیادہ ”معتبر “ نہیں رہے اگرچہ پوری طرح غیر معتبر یا مشکوک بھی نہیں ہوئے لیکن پہلے جیسا اعتبار اور اعتماد بھی نہیں رہا۔
وطن عزیز کی اکیسویں صدی عیسوی اور نئے ”ہزاریئے“ (ملینیم) کا آغاز ملک کے چوتھے فوجی حکمران کے دور میں ہوا اور گزشتہ صدی کے نصف آخر سے اکیسویں صدی کے آغاز تک عالمی سطح پر بہت سی نمایاں تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئیں۔ سوویت یونین کا خاتمہ ہوا جس کو سوشلزم کی شکست سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر بائیں بازو کے ایک مضبوط دھڑے کے خیال میں سوویت یونین جس سوشلزم کی پرورش کررہا تھا وہ صحیح معنوں میں سوشلزم نہیں تھا سٹالن ازم تھا۔ عالمی سطح پر نمایاں ہونے والی ایک تبدیلی یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ کیپیٹل ازم کو جس نوعیت کا خوف، اندیشہ، غصہ یا تعصب سوشلزم سے تھا اس سے زیادہ خوف، اندیشہ، غصہ اور تعصب عالمی سرمایہ داری اور سامراجی نظام کو نام نہاد اسلامی بنیاد پرستی یا دہشت گردی سے لاحق ہوچکا ہے مگر یہاں منیر نیازی مرحوم کا یہ شعر
بھی یاد کیا جاتا ہے کہ:
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
اردو زبان میں اس کا ترجمہ یوں ہوسکتا ہے کہ:
میں خود مرنے پہ راضی تھا قضا کے ہاتھ کیا آیا
عیسوی تقویم (کیلنڈر) کے پہلے ”ہزاریئے“ نے دوسرے ”ہزاریئے“ کا روپ دھارا تو اس عرصہ میں وطن عزیز میں کچھ نئے تقدس مآب عناصر وجود میں آگئے۔ ان میں ایک ”سول سوسائٹی“ کا عنصر دوسرا ”وکلاء برادری“ کا عنصر، تیسرا ٹی وی چینل کے پروگراموں کے میزبانوں کا عنصر اور چوتھا ”سینئر تجزیہ نگاروں“ کا عنصر ہے جن میں سے آدھے سے زیادہ اس عنصر میں فوجی وردیاں اتارنے کے بعد شامل ہوئے ہیں۔ جس طرح سوچا جا سکتا ہے کہ اگر ”معتبر ذرائع“ ہوسکتے ہیں تو پھر ”غیر معتبر ذرائع“ اور ”مشکوک ذرائع“ بھی ہوتے ہوں گے اسی طرح پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ”سینئر تجزیہ نگار“ ہوتے ہیں تو پھر ”جونیئر تجزیہ نگار“ بھی ہوتے ہوں گے لیکن ان کا کسی پروگرام میں بھی کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ کوئی حوالہ نہیں دیا جاتا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ تجزیہ نگار کتنے سالوں کی تجزیہ نگاری کے بعد ”سینئر تجزیہ نگار“ کہلانے کے حق دار سمجھے جاتے ہیں؟
وطن عزیز کے چوتھے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اپنے وطن کی بہت ساری منفی خدمات کا سہرا باندھا ہے مگر ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ”معتبر ذرائع“ کی جگہ فیصلے صادر کرنے والے ذرائع نے لے لی تھی بلکہ فتوے جاری کرنے والوں اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا تاثر دینے والوں نے بھی خبروں کو افواہوں میں بدلنے کی خدمات سرانجام دینا شروع کر دی تھیں۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے خبروں اور افواہوں کے درمیان ایک ’تیسری جنس“ ، ”درفنطنی“ کے نام سے وجود میں آچکی تھی مگر اس میں افواہ سے زیادہ شرارت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے اور کسی حد تک اس میں ”پیش گوئی یا ”پیشن گوئی“ بھی اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔
گزشتہ روز ایک ”درفنطنی“ میں بتایا گیا اور ”معتبر ذرائع“ کے حوالے سے بتایا گیا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی امریکہ سے واپسی پر این اے 58(اٹک) سے استعفےٰ دے کر اپنے صاحب زادے مونس الٰہی کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 110گجرات سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ مونس الٰہی چودھری اس نشست سے استعفیٰ دے دیں گے اور چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرکے ان کے اقتدار کا تختہ الٹ دیں گے کہ آئندہ چند روز میں پنجاب اسمبلی میں ”ق“لیگ کے فارورڈ بلاک کو پارٹی میں واپس لانے کی کوششیں تیز تر ہو جائیں گی اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اقتدار کی باقی مدت ”ق لیگ“کے ساتھ مل کر پوری کرے گی۔
ایک روز ”درفنطنی“ کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو ایوان صدر سے نکالنے یا مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کی راہ میں ایک دشواری یہ پائی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف ان کے متبادل بن کر سامنے آجائیں گے اور شاید ”ریاست“ چلانے والے یہ نہیں چاہتے چنانچہ جس طرح صدر آصف علی زرداری میاں نواز شریف کی سیاسی مدد فرما رہے ہیں اسی طرح میاں نواز شریف بھی صدر آصف علی زرداری کی مدد فرمانے میں مصروف ہیں جو کہ ”فرینڈلی اپوزیشن“ سے آگے کی بات ہے جو لازم و ملزوم کے قریب تر ہے۔
تیسری ”درفنطنی“بھی سن لیجئے کہ امریکہ بہادر افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور اس کے فوراً بعد طالبان اور ”وار لارڈز“ کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور دونوں ایک دوسرے کو ختم کرکے رکھ دیں گے۔ کیوں جناب! یہ کیسی دلچسپ ”درفنطنیاں“ ہیں؟
(بشکریہ روزنامہ جنگ)