معاف کیجیے

بلال ڈار

محفلین
دیکھیں میں مانتا ہوں مجھے معاف کیجیے
میں آدمی برا ہوں مجھے معاف کیجیے

اخلاق کی تمام برائیوں کے باوجود
اک بندہء خدا ہوں مجھے معاف کیجیے

حق بات کہہ کے میں نے پھیلایا تھا فساد
اب سچ سے ڈر گیا ہوں مجھے معاف کیجیے

اب مجھکو میرے عیب نہ گنوائیے حضور
میں ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے معاف کیجیے

مجھ پر نہیں ہے اثر کسی بھی دلیل کا
ضدی ہوں سر پھرا ہوں مجھے معاف کیجیے

ماضی کی راکھ کو نہ بلال اب کردیئے
میں جل کے بجھ چکا ہوں مجھے معاف کیجے​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top