مظہر قلندرانی۔۔۔۔۔۔۔۔"دُنياؤں سے ہٹ کر دُنيا"

فیصل عزیز

محفلین
"دُنياؤں سے ہٹ کر دُنيا"

دور افق سےبہت ہی آگے
سورج کی شاہی سے کٹ کر
دنياؤں سے آگے ہٹ کر
اپنی اپنی ذات ميں ريزہ ريزہ بٹ کر


" سرکنڈوں کی اک کٹيا ہے "

اس کٹيا کے آگے آگ کا مچ جلتا ہے
اس کٹيا سے اک اک کر کےسارے " بابا لوگ" نکل کر
باہر مچ پرآجاتے ہيں


ديکھو۔۔۔۔۔۔۔ پہلے سعدی نکلا

اس درويش نے اپنے پاؤں کے نيچے سے سِرکا کر آدھی دنيا؛
آدھی دھرتی سب کے آگے رکھ دی


پھر کٹيا سے حافظ ، جامی ، رومی نکلے
سب نے اپنے اپنے کاسے خاک پہ رکھے


پھر اجمير کا شہزادہ کٹيا سے نکلا
جس کی گود ميں لاکھوں چاند سے چہرے تھے
شاہ حسين فقير نمانا، مادھولال کا جسم پہن کر باہر آيا


سيّد زادہ

بلھے شاہ نے گھنگرو باندھے؛
رقص کيا تو چاند ستارے اپنے رستے بھول گئے؛
شکرگنج نے سب کے منہ ميں شکّر بھر دی
پير فريد نے جلتی آگ کے انگاروں پر رقص کيا تو؛


دنيا کانپ اٹھی؛
روہی پھڑک اٹھی؛
دنيا دھڑک اٹھی


باہو ميں کيا وحشت جاگی ، وقت کی نبضيں ڈوب گيئں
داتا اورشہبازقلندر مل کر ناچے؛
يوں لگتا تھا،
جيسے سورج ،چاند، ستارے؛
سارے مل کر ناچ رہے ہوں؛
صحرا اور سمندر ناچے؛
سب ابدال، قلندر ناچے؛
روہی کا ہر ذرّہ ناچا؛
اُچ ،اجمير اور تونسہ ناچا؛


جلتی آگ نے مظہر ميرے سينے ميں اک ٹھنڈک بھر دی'
تو بھی ناچ۔۔۔۔۔۔۔۔ مٹّی کے مادھو۔۔۔۔۔ محفل کا ہر بابا ناچا


مظہر قلندرانی( مظّفرگڑھ ۔ کوٹ ادّو)۔گاؤں (بصيرہ)۔
 
Top