مضمون : وحدتِ انسانیت - مولانا عبید اللہ سندھیؒ

وحدتِ انسانیت
زندگی کا ماحصل(خلاصہ) یہ ہے کہ آدمی ایک عقیدہ رکھے اور اس کو عملی دنیا میں مادی شکل دینے کے لئے مسلسل جہاد کرتا رہے، انسان اپنے آپ سے جہاد کرے، خاندان سے جہاد کرے ، رسم و رواج سے جہاد کرے ، قوم اس کے عقیدے کی راہ میں حائل ہوتی ہے تو اس سے جہاد کرے ، اور اگر وہ دیکھتا ہے کہ ساری دنیا اس کے عقیدے کی رُو سے غلط کار ہے تو اس کے خلاف جہاد کرے ، اگر عقیدہ محض عقیدہ رہتا ہے اور خارج میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو یوں سمجھنا چاہئے کہ عقیدہ نا پختہ ہے ، اسی طرح اگر کوئی عقیدہ رکھے بغیر جہاد کرتا ہے تو اس کا یہ جہاد بھی ناقص ہے اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا

میں نے زندگی میں عقیدہ اور عقیدے کو عملی شکل دینے کے لئے جہاد کرنے کا یہ سبق قرآن مجید سے سیکھا اور اس سبق کا عملی نمونہ مجھے رسول مقبول ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کی زندگیوں میں بدرجہ اتم نظر آیا ، میں مسلمان ہوا تو شاہ اسماعیل شہیدؒ سے مجھے خاص طور پر موانست (انس و محبت) ہو گئی اور ان کی مجاہدانہ زندگی میرے لیے کشش کا باعث بنی ، ان بزرگوں کے عمل نے میرا جذبۃ جہاد گرمایا ، اور ان کی تعلیمات نے میرے عقیدے کو وسعت اور گہرائی بخشی وہ جذبہ جو بچپن میں صرف پنجاب و سکھوں تک محدود تھا ، شاہ ولی اللہؒ ان کی جماعت کی برکت سے اتنا وسیح ہو کہ وہ ساری دنیا پر محیط ہو گیا ، ان مرشدوں ہی نے مجھے بتایا کی قرآن صرف مسلمانوں کی کتاب نہیں بلکہ کل انسانیت کا صحیفہ ہے اور مجھے اس کا مطالعہ کرتے پچاس ساٹھ برس ہونے کو ہیں لیکن مجھے ان بزرگوں کی بات پہ کبھی شبہ نہیں ہوا اس کو سو فیصد درست پایا

قرآن مجید انسانیت کی راہ نمائی کے بُنیادی فکر کا ترجمان ہے یہ بنیادی فکر نہ کبھی بدلا ہے اور نہ آئندہ کبھی بدلے گا سارے ادیان ، مذاہب اور فلسفوں کا اصل الاصول یہی فکر ہے اس بنیادی فکر کو "فطرتِ اللہ" کہہ لیجئے اسے "دین" کا نام دیجئے یا اسے ضمیر انسانی سے تعبیر کیجئے اسی ضمیر انسانی کی ترجمانی انبیاء صلحا اور حکما کرتے آئے ہیں زمانے گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی فکر میں باہر سے کدورتیں شامل ہوتی گئیں اور بار بار نئے "نذیر" اور "بشیر" کی ضرورت پڑی قرآن مجید بھی اسی بنیادی فکر کا ترجمان ہے اور یہ بنیادی فکر عالمگیر ازلی ، ابدی اور لازوال ہے قرآن میں بے شک اس فکر کا جامہ عربی ہے اور " ام القری" اور "من حولھا" (مکہ مکرمہ اور اردگرد کے علاقے) کو سمجھانے کے لئے زبان اور پیرائہ بیان میں ماحول کے لوازم کا خیال رکھا گیا ہے لیکن "مشاہدہ حق" کے بیان کے لیے ہمیشہ "ساغر و مینا" کی ضرورت پڑتی رہی ہے اہلِ نظر جانتے ہیں کہ کہنے والے نے کیا کہا ہے اور ان کو اس کا علم ہوتا ہے کہ الفاظ کی تراکیب کی سرحد سے بہت پرے معانی کا مقصود اصلی کیا ہے

قرآن مجید اسی ضمیرِ انسانی کا ترجمان ہے کیتا نے بھی اپنے زمانے میں اسی حقیقت کی ترجمانی کی تھی تورات اور انجیل بھی اسی ضمیرِ انسانی کی شارح رہے ہیں اور دیگر حکماء نے بھی کہیں کم کہیں زیادہ اسی راز سے پردہ اُٹھایا ہے تورات اور انجیل حق ہیں لیکن جو غلط معنی انکے الفاظ کو پہنائے گئے ہیں وہ باطل اسی طرح قرآن حق ہے لیکن جسطرح مسلمان اس کو عام طور پر ماننے ہیں اور جو تفسیر وہ کرتے ہیں وہ حق نہیں اگر تورات و انجیل کو غلط ماننے والے کافر قرار دیئے جا سکتے ہیں تو قرآن کو غلط مفہوم میں ماننے والے کیسے سچے مومن کہے جائیں گے

تعلیماتِ شاہ ولی اللہؒ کے آئینے میں ہم نے قرآن کو اس کی اصلی شکل میں دیکھا اور ہمیں معلوم ہوا کہ خالص اور بے میل انسانیت ہی قرآن کا صیح اور مکمل نصب العین ہے ، جو تعلیم عام انسانیت کی ترقی کے لیے معاون ہے وہ حق ہے اور جو تعلیم انسانیت کی ارتقاء میں حارج ہو وہ حق نہیں ہو سکتی ان معنوں میں قرآن مجید میرا عقیدہ بنا اور قرآن کو عملی شکل دینے کے لئے جد وجہد کرنا زندگی کا مقصد ٹھہرا ، قرآن کے اصولوں پر اس دنیا میں خالص انسانیت کا قیام ہمارا عقیدہ ہے ، ہمارے نزدیک خالص اور بے میل انسانیت ہی فطرۃ اللہ کی محافظ ہے اور سچا دین اگر ہے تو یہی ہے اسلام کی تعلیمات کا لب لباب قرآن مجید کی آیت :
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ، وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ.(الصف ۶۱: ۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا کہ اسے وہ تمام ادیان پر غالب کردے ، اگرچہ یہ بات اِن مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘

قرآن مجید کا مقصود اصلی سب دینوں سے اعلٰی دین یعنی سب فکروں سے بلند تر فکر یا سب سے بلند بین الاقومی نظریہ جو زیادہ سے زیادہ جامع ہو پیش کرنا اور اس پر عمل کرانا ہے ، یہ دین دوسرے ادیان کو مٹانے نہیں آیا ، یہ سب ادیان کی بنیادی صداقتوں کو تسلیم کرتا ہے اور سب قوموں کے وجود کو مانتا ہے لیکن اس کا یہ کہنا کہ تاریخ میں یہ ہوتا آیا ہے کہ ایک قوم ایک مذہب اختیار کرتی ہے اور جوں جوں وقت گزرتا ہے وہ اسے اپنے رنگ میں رنگتی جاتی ہے اور اس طرح انسانی دین قوی دین بن جاتا ہے لیکن اس قوم کا اصرار ہوتا ہے کہ اس کا دین ہی ساری انسانیت کا دین ہے اور صرف یہی قوم انسانیت کی حامل اور نمائندہ ہے بے شک ابتداء میں ان کا یہ دین انسانی ہوتا ہے اور اس میں ہر رنگ و نسل والے کو مقام مل جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ قومی بن جاتا ہے اور آخر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ ہر فرد یہ سمجھتا یہ میں اور صرف میں ہی حق پر ہوں باقی سب لوگ گمراہ اور کافر ہیں ہمارے نزدیک وہ دین جو ساری انسانیت کا شیرازہ بند بن کے آتا ہے ایک وقت آتا ہے وہ انتہائی انتشار اور نزاع کا باعث بن جاتا ہے قرآن نے اسی کو کفر قرار دیا ہے

قرآن نے یہ کیا کے ان تمام قومی مذاہب کو جو انسانیت کو ٹکرے ٹکرے کرنے کا سبب بن گئے تھے مردود قرار دیا اور یہ تلقین کی کہ خدا کا سچا مذہب وہ ہے جو خدا سے زیادہ قریب ہو اور خدا سے قربت کے معنی یہ ہیں کہ وہ فرقوں اور قوموں سے بالا تر ہو کر ساری انسانیت کو اپنے دامن میں سمیٹ لے ہمارے نزدیک قرآن نے تمام اقوام ، ادیان اور مذاہب کے مرکزی نکات کو جو کل انسانیت پر منطبق ہو سکتے ہیں یکجا کیا اور ساری دنیا کو دعوت دی کے صرف یہی ایک بنیاد ہے جس پر صیح انسانیت کی تعمیر ہو سکتی ہے ، اگر یہودیوں کی قوم میں انسانیت کا فقدان ہے تو وہ خواہ اپنے منہ سے نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ( ہم خدا کے بیٹے اور اس کے محبوب ) بنیں گمراہ ہیں اگر عیسائی اس سے خالی ہیں تو عیسیؑ کو خدا کا بیٹا ماننا کسی کام نہ آئے گا اور اگر ہندو میں اس کی کمی ہے تو اس کا "پوتر" پاک ہونا محض خام خیالی ہے اسی طرح مسلمانوں پر بھی اس حکم کا اطلاق ہو سکتا ہے قرآن ایک میزان ہے جس میں سب تولے جا سکتے ہیں

میرے نزدیک اصل دین یہی ہے باقی "رسوم" و روایتیں ہیں قرآن کا مقصد انسانیت کو ان" رسوم و رواتیوں کے بندھنوں سے آزاد کرانا ہے" بد قسمتی سے ہر قوم نے ان "رسوم" کو اصل سمجھ لیا ہے اور ان کے پیچھے لوگ ایک دوسرے سے لڑنے لگے، قرآن کا سچا ماننے والا وہ ہے جو ان بے روح " رسوم" کے خلاف جہاد کرے اور خلوصِ دل سے "رسوم شکن" (رسوم توڑنے والا ) ہو قرآن کا ماننے والا موحد ہوتا ہے اور اس کی عادت واقعی ترکِ رسوم ہے جب "رسوم" مذہب کا درجہ اختیار کر لیں اور مذہب کا یہ لباس مظہر وجود کی بجائے ننگ وجود ہو جائے تو اس وقت ان "رسوم کا مٹانا قرآن کے ماننے والے پر فرض ہو جاتا ہے

میں ان معنوں میں پکا موحد ہوں اور ترکِ "رسوم" کا دل و جان سے حامی ہوں لیکن میں ترک ِ رسوم کا بھی ایک حد تک قائل ہوں میرا کہنا یہ ہے زندگی جب اس دنیا میں اسباب و حالات کا جامہ پہنتی ہے تو اسے ممکن اور موجود ہونے کے لیے لامحالہ رسوم اختیار کرنی پڑتی ہیں ان رسوم کے بغیر زندگی زمان و مکان کے اس دائرے میں وجود پذیر نہیں ہو سکتی لیکن ہونا یہ چاہئے یہ ان رسوم کو رسوم ہی سمجھا جائے ، لباس ، لباس ہی رہے رہے اسے صاحبِ لباس نہ مان لیے جائے لیکن جب لباس پر ہی زور دیا جائے اور رسوم ہی اصل دین کا درجہ اختیار کر لیں اور اکثریت قبلہ کو "قبلہ نما" سمجھنے سے عاری ہو جائے تو پھر یہ رسوم بت بن جاتی ہیں اور جس طرح کبھی لات وہبل کو ریزہ رہزہ کر دیا گیا انہیں بھی توڑ پھوڑ دینا پڑتا ہے قرآن اسی توحید کی دعوت دیتا ہے اور اس لے خلاف تمام شعائر کو کفر سمجھتا ہے

یہ شعائر کفر ہمیشہ پتھر اور سونے چاندی کے بت نہیں ہوتے ہماری رسوم ہمارے اخلاقی معیار ہمارے آداب و اطوار اور ہمارے نام نہاد مذاہب بھی ایک وقت میں بُت بن جاتا ہے اور جس طرح سے کبھی پتھر کے بت غیر اللہ بن گئے تھے اسی طرح جب رسوم کہ یہ بُت غیر اللہ بن جائیں تو ان کے خلاف بھی قرآن جہاد کی تلقین کرتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انسان ان رسوم کو پڑ کر یہ بھول نہ جائے کہ سارے انسان ایک ہیں اور قوموں فرقوں اور طبقوں کی تقسیم حقیقی نہیں در اصل سب کی اصل ایک ہے ساری انسانیت ایک ہے کل کائنات ایک ہے اور یہ وجود ایک ہی ذات کا پَرتَو یا فیضان ہے ہر ذرہ اسی وجود کا ظہور ہے اور ہر انسان میں اسی نور کی جلوہ گری ہے

قوموں کی زندگی میں ایک ایسا دور آتا ہے جن تعینات ، قوانین اور نام نہاد مذاہب پردے بن کر خدا اور بندے کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں تو اس وقت فطرتِ انسانی ان کے خلاف بغاوت کرتی ہے اور نئے دور کا ظہور ہوتا ہے جس میں ہر فرد کا رشتہ نئے سرے سے روحِ کل سے جُڑ جاتا ہے یہ عمل تاریخ میں برابر ہوتا رہتا ہے اور جس دن انسانیت اپنے تقاضۃ زندگی سے محروم ہو گئی وہ دن انسانیت کی موت کا دن ہو گا یہ روح ہے قرآنی تعلیمات کی میں انسانیت تو کیا کل کائنات کی وحدت کا قائل ہوں لیکن جس طرح کائنات کی کثرت صاحبِ نظر کو پریشان نہیں کرتی اور وہ جانتا ہے کہ ان سب مختلف شکلوں میں ایک ہی جلوہِ عکس ریز ہے اس طرح مجھے انسانوں کا قوموں گروہوں اور افراد میں بٹا ہونا وحدتِ انسانیت کے منافی نظر نہیں آتا ہر فرد اپنی جگہ اپنی مستقل اکائی ہے جماعت بھی ایک مستقل اکائی ہے جو افراد پر مشتمل ہے اس طرح ہر ایک قوم اپنی جگہ مستقل وجود رکھتی ہے اور انسانیت سب قوموں کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے فرد کا صالح ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ جماعت کا اچھا جزو ہو اچھی جماعت وہ ہے جو قوم سے تضاد نہیں مطابقت رکھتی ہو ، اچھی قوم اسے کہیں گے جو گل انسانیت کے جزو صالح کا حکم رکھتی ہو انفرادیت ان معنوں میں کہ ہر فرد ہر جماعت اور ہر قوم ایک دوسرے سے برسرِ نزاع ہو ، غلط اور مردور ہے حاصلِ مطلب یہ ہے کہ میں وحدتِ انسانیت کو مانتا ہوں اور قرآن مجید کو اس وحدت کا شارح سمجھتا ہوں میرے نزدیک قرآن تعلیمات کا یہی مقصود ہے کہ اس وحدت کا قیام عمل میں آئے اور لوگ عقیدۃََ علماََ اور عملاََ موحد بن جائیں
 
Top