مضطر خیر آبادی

تابِ دیدار بھلا چشمِ طلب کو کب تھی
تیری درگاہ میں پہنچا تو فقط دل پہنچا

مٹ کے مضطر در ِجاناں پہ رسائی ہو گی
تب میں جانوں گا مسافر سرِ منزل پہنچا

مضطر خیرآبادی
 
اپنی فریاد کا بگڑا ہوا اک ساز ہوں میں
قلبِ مایوس کی بیٹھی ہوئی آواز ہوں میں

مختصر طور پر اتنا ہی فسانہ ہے میرا
پہلے جلوہ تھا اور اب جلوہ گہِ ناز ہوں میں

اہلِ دل مجھکو جو سنتے ہیں تو رو دیتے ہیں
کس دُکھے قلب کی نکلی ہوئی آواز ہوں میں

مجھکو ہستی کے حجابوں نے چھپا رکھا ہے
ورنہ دراصل حقیقت کا بڑا راز ہوں میں

اس تمنا میں کہ وہ جلد پکارے مضطرٓ
آج تک زیرِ لحد گوش برآواز ہوں میں

مضطرٓ خیرآبادی
 
تربت میں سلائے گی اک دن تری رو پوشی
اس پردے میں نکلے گا ارمانِ ہم آغوشی

کیوں پوچھو کہ کیا پایا میخانے میں مے پی کر
یہ پوچھو کہ کیا دیکھا با عالمِ بے ہوشی

اب کون بُلاتا ہے، اب کون پلاتا ہے
ساقی ہی کے دم تک تھی مے نوشوں کی مے نوشی

ساقی تیری حسرت میں آنکھیں مری روتی ہیں
ماتم کی شہادت ہے پُتلی کی سیہ پوشی

اک راز ہے اے مضطرٓ تربت کا اندھیرا بھی
آئی ہے پئے ماتم کعبے کی سیہ پوشی

مضطرٓ خیرآبادی
 
Top