مصیبتوں کی بارش

زبیر مرزا

محفلین
اور ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے ، کچھ خوف و ہراس اور بھوک سے اور مال وجان اور پھلوں میں کمی سے اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
[ البقرۃ : ۱۵۵ تا ۱۵۷ ]
اس دنیاوی زندگی کو ہمنے پکنک سمجھ لیا ہے اور تصور کرلیا ہے کہ تمام آسائشیں اور نعمتیں ہم مسلمانوں کو اسی دنیا میں میسر آجائے جبکہ اللہ نے ہمارا حصہ آخرت میں دینا ہے- استغفاراور صبر ہمیں ان آفات سے نپٹنے کا حوصلہ دے گا-
 
بنیادی طور پر جو سوالات سامنے ائیں ہیں وہ یہ ہیں کہ اگر قدرتی افات ہمارے اعمال کا سبب ہیں تو پھر یہ کافروں پر نازل کیوں نہیں ہوتے جو کہ علانیہ کفر کرتے ہیں؟ یا وہ علاقے جہاں انسان ہی نہیں بستے وہاں کیوں زلزلے وغیرہ اتے ہیں؟ یہی سوال ہیں یا کسی بھائی نے کچھ اور پوچھا ہے؟

میرا ارادہ تو مزید قصے درج کرنے کا ہے اس کے بعد انشاللہ کوشش کروں کا اپنی فکر عیاں کرسکوں۔ فوری طور پر اپکے ایک سوال کا جواب حاضر ہے

مسجدیں جتنی آج نمازیوں سے بھری نظر آتی ہیں ۔ اس سے پہلے کبھی اس کی مثال نہیں ملتی ۔ لوگ مذہب کی طرف آج جتنے مائل ہیں ۔ گذشتہ کئی عشروں سے ایسا منظر پہلے نظر سے نہیں گذرا ۔ تبلیغی جماعتوں کے اجتماع ، لوگوں کے جوق در جوق غول ، مدرسوں میں طالبعلوں کی ناقابلِ یقین تعداد ، رمضانوں میں عام مسلمانوں ، خصوصا ً نوجوانوں کا مسجدوں کی طرف رخ اور پھر اعتکاف کے لیئے مسجدوں میں جگہ کا کم پڑ جانا ۔ ٹی وی ہر چار مباحثہ میں دو مباحثہ صرف مذہب پر ہونا ۔ دینی عالموں کی ناقابلِ گنتی میں تعداد وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ۔ کیا اسلام سے دوری کو ظاہر کرتی ہے ۔

بلاشبہ لوگ مذہب کی طرف راغب ہورہے ہیں مگر اس تیزی سے لوگ برائی کی طرف بھی راغب ہیں۔ میں کہیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ پولاریزیشن بہت بڑھتی جارہی ہے اور آخر میں ٹکراو ہوگا۔ وہ چیز جو ہم تصور بھی نہیں کرتے تھے اب لوگ اپنی فیملیز کےساتھ انجوائے کرتے ہیں۔ بلکہ پروموٹ کرتے ہیں۔ باقی رہے رسومات تو ظاہرمیں تو ہیں مگر اسلام کا آصل ایسنس غائب ہے جس کی وجہ سے رسومات صرف ظاہری چیز رہ گئی ہیں۔ ٹی وی پر ہر مباحثہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہی ہورہا ہوتا ہے۔ دینی عالموں کو قتل کردیا گیا ہے اور اعلیٰ پائے کے عالم موجود نہیں۔ غرض کہ یہ سب حالت مجموعی طور پر اسلام سے دور ہی لے جارہی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
بنیادی طور پر جو سوالات سامنے ائیں ہیں وہ یہ ہیں کہ اگر قدرتی افات ہمارے اعمال کا سبب ہیں تو پھر یہ کافروں پر نازل کیوں نہیں ہوتے جو کہ علانیہ کفر کرتے ہیں؟ یا وہ علاقے جہاں انسان ہی نہیں بستے وہاں کیوں زلزلے وغیرہ اتے ہیں؟ یہی سوال ہیں یا کسی بھائی نے کچھ اور پوچھا ہے؟

میرا ارادہ تو مزید قصے درج کرنے کا ہے اس کے بعد انشاللہ کوشش کروں کا اپنی فکر عیاں کرسکوں۔ فوری طور پر اپکے ایک سوال کا جواب حاضر ہے
پہلے تو آپ اپنی فکر عیاں کریں تبھی معلوم ہوسکے گا بحث کوکس نہج پر جانا چاہیئے ۔ ادھر اُدھر کی باتوں سے اچھا ہے کہ آپ اپنا استدلال اور فکر یہاں عیاں کریں تو شاید مجھ سمیت کچھ اور لوگوں کو بھی معلوم ہوسکے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔ :idontknow:
 

انتہا

محفلین
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ( پارہ 21 آیت 30)​
ترجمہ: خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا انکو انکے بعض عملوں کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔(فتح محمد جالندھری)​
تشریح:​
زمین کی اصلاح اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مضمر ہے​
ممکن ہے بر یعنی خشکی سے مراد میدان اور جنگل ہوں اور بحریعنی تری سے مراد شہر اور دیہات ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بر کہتے ہیں خشکی کو اور بحر کہتے ہیں تری کو خشکی کے فساد سے مراد بارش کا نہ ہونا پیداوار کا نہ ہونا قحط سالیوں کا آنا۔ تری کے فساد سے مراد بارش کا رک جانا جس سے پانی کے جانور اندھے ہوجاتے ہیں۔ انسان کا قتل اور کشتیوں کا جبر چھین جھپٹ لینا یہ خشکی تری کا فساد ہے۔ بحر سے مراد جزیرے اور بر سے مراد شہر اور بستیاں ہیں۔ لیکن اول قول زیادہ ظاہر ہے اور اسی کی تائید محمد بن اسحاق کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضور نے ایلہ کے بادشاہ سے صلح کی اور اس کا بحریعنی شہر اسی کے نام کردیا پھلوں کا اناج کا نقصان دراصل انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہے اللہ کے نافرمان زمین کے بگاڑنے والے ہیں۔ آسمان وزمین کی اصلاح اللہ کی عبادت واطاعت سے ہے۔ ابو داؤد میں حدیث ہے کہ زمین پر ایک حد کا قائم ہونا زمین والوں کے حق میں چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یہ اس لیے کہ حد قائم ہونے سے مجرم گناہوں سے باز رہیں گے۔ اور جب گناہ نہ ہونگے تو آسمانی اور زمینی برکتیں لوگوں کو حاصل ہونگی۔ چنانچہ آخر زمانے میں جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس پاک شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے مثلا خنزیر کا قتل صلیب کی شکست جزئیے کا ترک یعنی اسلام کی قبولیت یا جنگ پھر جب آپ کے زمانے میں دجال اور اس کے مرید ہلاک ہوجائیں گے یاجوج ماجوج تباہ ہوجائیں گے تو زمین سے کہا جائیے گا کہ اپنی برکتیں لوٹادے اس دن ایک انار لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگا اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے چھلکے تلے یہ سب لوگ سایہ حاصل کرلیں۔ ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے کو کفایت کرے گا۔ یہ ساری برکتیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے جاری کرنے کی وجہ سے ہونگی جیسے جیسے عدل وانصاف مطابق شرع شریف بڑھے گا ویسے ویسے خیر وبرکت بڑھتی چلی جائے گی۔ اس کے برخلاف فاجر شخص کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر بندے شہر درخت اور جانور سب راحت پالیتے ہیں۔ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ زیاد کے زمانے میں ایک تھیلی پائی گئی جس میں کجھور کی بڑی گھٹلی جیسے گہیوں کے دانے تھے اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانے میں اگتے تھے جس میں عدل وانصاف کو کام میں لایا جاتا تھا ۔ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ فساد سے شرک ہے لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ مال اور پیداوار کی اور پھر اناج کی کمی بطور آزمائش کے اور بطور ان کے بعض اعمال کے بدلے کے ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (وَبَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ١٦٨؁) 7-الاعراف:168) ہم نے انہیں بھلائیوں برائیوں میں مبتلاکیا تاکہ وہ لوٹ جائیں۔ تم زمین میں چل پھر کر آپ ہی دیکھ لو کہ تم سے پہلے جو مشرک تھے اس کے نتیجے کیا ہوئے؟ رسولوں کی نہ ماننے اللہ کیساتھ کفر کرنے کا کیا وبال ان پر آیا؟ یہ دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔(تفسیر ابن کثیر)
حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا کثير بن هشام حدثنا المسعودي عن سعيد بن أبي بردة عن أبيه عن أبي موسی قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم أمتي هذه أمة مرحومة ليس عليها عذاب في الآخرة عذابها في الدنيا الفتن والزلازل والقتل​
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 885 حدیث مرفوع مکررات 1​
عثمان بن ابوشیبہ، کثیر، ہشام مسعودی، سعید بن حضرت ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری یہ امت مرحومہ ہے اس پر آخرت میں کوئی عذاب نہ ہوگا جبکہ دنیا میں اس کے عذاب یہ ہوں گے۔ فتنے، زلزلے، قتل غارت گری۔​
 
ًًمیں اپ کے سب سوالات کا جواب بھی دوں گا انشاللہ ۔ مگر امید ہے کہ اپ نہ ذاتیات پر اتریں گے نہ موکری (انگلش)کریں گے۔
مگر پہلے میں نوح علیہ سلام کا واقعہ یاد دلانا چاہتا ہوں ۔ جو کہ توراہ، بابئل اور قران میں مذکور ہے۔

نوح علیہ سلام کا سلسلہ نسب دس پیڑھی سے ہوتا ہوا حضرت آدم علیہ سلام سے ملتا ہے۔ وہ حضرت ادریس علیہ سلام کی اولاد تھے۔ نوح(ع) توحید کی تبلیغ کرتے تھے اپنی قوم کو جو زنا اور دوسری معاشرتی برائیوںمیں مبتلا تھی۔ مگر قوم نوح اپنے رسول کی اور ان کی ھدایات کا مذاق اڑایا کرتی تھی بلکہ وہ نوح اور اسکے خاندان کو ایذا بھی پہنچایا کرتے تھے۔ مگر نوح سنت انبیا کی بنا پر صبر کرتے تھے۔ جب قوم کی ہٹ دھرمی اپنے عروج پر پہنچ گئی تو نوح نے اللہ سے قوم کی ہٹ دھرمی کا شکوہ کیا۔ اللہ نے جواب دیا کہ قوم سرکشی کی تمام حدود پھلانگ چکی ہے اور اب اس کو سزا ملے گی جو کہ انے والی نسلوں کے لیے عبرت کا سامان ہوگی۔ اللہ نو نوح کو خبر دی کہ ایک عظیم سیلاب انے والا ہے جو کہ اس سرکش قوم کو تباہ کردے گا اور ان تمام جھوٹے خداوں کو بھی جن کی یہ پوجا کرتے ہیں-

سیلاب
اللہ نے نوح کو حکم دیا کہ ایک جہاز تیار کرو اور تمام مومنین کو اور جانوروں کے ایک جوڑے اسپر رکھ لو۔ نوح نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی۔ اور ایک بہت بڑا جہاز بنانا شروع کیا۔ چونکہ وہاں کوئی سمندر یا ابی ذخیرہ نہیں تھا صرف ایک چھوٹا سا دریا تھا لہذا قوم نے ان کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ جب جہاز بن چکا تو نوح نے لوگوں کو بلانا شروع کردیا مگر لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا صرف گنتی کے چند لوگوں نے نوح کی پکار پر لبیک کہا۔
نوح کے کشتی میں بیٹھنے کے کچھ عرصہ بعد ہی بارش شروع ہوگئی ہر سمت سے زمین نے پانی اگلنا شروع کردیا۔ جب پانی چڑھنا شروع ہوگیا تولوگ اونچے درختوں اور اونچی جگہوں پر جابیٹھے۔ مگر پانی چڑھتا ہی رہا۔ کشتی نوح پانی پر تیر رہی تھی اور طوفانی اثرات سے محفوظ رہی مگر سیلابی پانی نے ہر چیز کو پاٹ دیا۔ ہر شے تباہ ہوگئی مگر صرف نوٰح کی کشتی سلامت رہی۔

ایک اور سسچا واقعہ جوقران میں درج ہے حضرت صالح علیہ سلام اور ان کی قوم کا ہے

جب قوم ثمود کوحضرت صالح علیہ سلام نے سمجھایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور اللہ نے ایک نشانی اونٹنی کی شکل میں پہاڑ سے نکال کر دکھائی مگر قوم ثمود نے اونٹنی کو مارڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم کی سرکشی کی تو انھیں زلزلے نے ان پکڑا اور وہ اپنے گھروں کو اوندھے پڑے رہ گئے

ایک اور سچا واقعہ لوط علیہ سلام اور ان کی قوم کا ہے

لوط علیہ سلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔ قومِ لوط مردوں سے شہوت رانی کرتے تھے عورتوں کو چھوڑکر۔ وہ حد سے ہی گزر گئے تھے۔ حضرت لوط کے سوال پر قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور اپنی برائی کو چھوڑنے کے بجائے کہنے لگے کہ ان لوگوں کو (مومنوں) کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔ تو اللہ نے ایک خاص طرز کی بارش برسائی اور وہ قوم تباہ ہوگئ۔ یہ خاص طرز کی بارش پتھروں کی تہ بہ تہ بارش تھی۔ اس کے ساتھ بستی کو الٹ دیا گیا۔

ایک اور سچا واقعہ مدین کی قوم کا ہے جس کی طرف شعیب علیہ سلام کو بھیجا

وہ قوم ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور لوگوں کو ان کی چیز کم کرکے دیتی تھی۔ زمین مٰیں فساد پھیلاتی تھی۔ وہ سڑکوں پر بیٹھ کر اللہ پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دیتے تھے اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے۔ قوم مدین نے بھی کہا کہ شیعب اور ان کے ساتھیوں کو بستی سے نکال دو۔ پس اس قوم کو زلزلے نے ان پکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

اوپر دئے گئے واقعات سورہ الاعراف سے اخذکے گئے ہیں

سورہ اعراف میں مزید ہے کہ اللہ نے ہر بستی میں ایک بنی بھیجا اور اس قوم بے اس کی تکذیب کی تو اللہ نے اس قوم کو سختی اور تکلیف میں پکڑا تاکہ وہ گڑگڑائیں یعنی اللہ کی جانب رجوع کریں ۔ مگر جب اس کے باوجود جب وہ احکام اللہ کی تکذیب ہی کرتے رہے تو اللہ نے اس بدحالی کو جگہ خوشحالی میں بدل دی، یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی دی اور وہ کہنے لگے کہ ہمارے آبا و اجداد کو بھی تنگی اور راحت پیش ائی تھی تو اللہ نے ان کو دفعتا پکڑلیا اور انکو خبر بھی نہ ہوئی۔

سورہ اعراف میں مذکور ہے کہ اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے اتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو اللہ ان پر اسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی اور اللہ نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑلیا۔

سورہ اعراف میں مزید مذکور ہے کہ کیا وہ لوگ جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان مذکورہ واقعات کے بعد) اللہ نے یہ بات نہیں بتلائی کہ اللہ چاہے تو ان کے جرائم کے سبب ان لوگوں کو ہلاک کردے اور اللہ ان کے دلوں پر بند لگادیں پس وہ نہ سن سکیں

ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کے پاداش میں ان پر سیلاب، زلزلے اور پتھروں کی بارش کرسکتا ہے اور یہ کہ یہ حالت جن ہوتی ہے جب لوگ اللہ کے احکام کی نفی کریں اور نہ مانیں اور کھلم کھلا فواحش میں پڑے رہیں اس کو اپنا کلچر بنالیں اور اس فواحش سے روکنے والوں کو برا بھلا کہیں، دھمکیاں دیں اور بستیوں سے نکال دیں۔ عمومی طور پر اللہ اس کوقوم کو پہلے سختی اور تکلیف میں پکڑتا ہے تاکہ قوم اللہ کی جانب رجوع کرے ۔ اگر پھر بھی قوم اپنی برائیوں پر جمی رہے تو اللہ اس قوم پر خوشحالی لے اتا ہے تاکہ اللہ اس کو اچانک پکڑ لے اور وہ قوم اپنے اعمال کی سزاپالے۔

جاری
 

سید ذیشان

محفلین
شاید آپ بھول رہے ہیں چاند پر" چرخے والی اماں" رہتی ہے:rolleyes:
بہت ہی گناہگار بڑھیا ہے جو اتنے زلزلے لا رہی ہے اور کمبخت کب سے بیٹھی ہے مرتی ہی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آب حیات پی رکھا ہو لیکن پھر بھی اس عمر میں تو ظالم بھیڑیے بھی پرہیزگار ہو جاتے ہیں۔

در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبریست
وقت پیری گرگ ظالم می شد پرہیزگار
 

انتہا

محفلین
وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (انفال:33)
ترجمہ: اور خدا ایسا نہ تھا کہ جن تک تم ان میں تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور نہ ایسا تھا کہ وہ بخشش مانگیں اور انہیں عذاب دے۔(فتح محمد جالندھری)
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھ پر دو امن میری امت کیلئے اترے ہیں ایک میری موجودگی دوسرے ان کا استغفار پس جب میں چلا جاؤ گا تو استغفار قیامت تک کیلئے ان میں چھوڑ جاؤں گا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان نے کہا اے اللہ مجھے تیری عزت کی قسم میں تو جب تک تیرے بندوں کے جسم میں روح ہے انہیں بہکاتا رہوں گا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے بھی میری جلالت اور میری بزرگی کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا (مستدرک حاکم) مسند احمد میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ اللہ کے عذابوں سے امن میں رہتا ہے جب تک وہ اللہ عزوجل سے استغفار کرتا ہے۔
(تفسیر ابن کثیر)
 

انتہا

محفلین
وَلَنُذِيْ۔قَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ (الم سجدہ:۲۱)
ترجمہ: اور ہم ان کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا عذاب دنیا کا بھی مزہ چکھائیں گے شاید (ہماری طرف) لوٹ آئیں۔(فتح محمد جالندھری)
تشریح:
عذاب ادنیٰ سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لئے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہوجائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں ۔ حضرت ابی فرماتے ہیں چاند کا شق ہوجانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔ کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنادیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔
(تفسیر ابن کثیر)
 
عذابوں کی بارش کی ایک بوچھاڑ لاہور میں معصوم بچوں کی اتشزدگی میں ھلاکت ہے۔ یہ ایسا دکھ ہے جو ہر انسان براہ راست محسوس کرتا ہے۔ کیا اب بھی لوگوں کا دل نہیں پسیجتا۔ کیا اب بھی اللہ سے رجوع نہیں کرنا چاہتے۔لوگوں اللہ سے اپنے برے اعمال کی معافی چاہو۔ اللہ ہم پر رحمت کے دروازے کھول دے گا
 
Top