مصر:صدر نے تحلیل شدہ پارلیمنٹ بحال کر دی

نبیل

تکنیکی معاون
صدارتی حکم پر غور کرنے کے لیے فوجی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے
مصر کے نئے صدر محمد مرسی نے ملک کی طاقتور فوجی کونسل کی جانب سے گزشتہ ماہ تحلیل کی جانے والی پارلیمان کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے بحال کرتے ہوئے اس کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
ادھر اس صدارتی حکم کے بعد ملک کی عدلیہ اور فوجی حکام نے صورتحال پر غور کرنے کے لیے ہنگامی اجلاس طلب کیے ہیں۔
صدر مرسی کا کہنا ہے کہ ایوان کو نئے انتخابات کے انعقاد تک بحال کر دیا جائے۔ محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمین نے اس پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں جیت رکھی ہیں۔
گزشتہ ماہ مصر کی عدالتِ عظمیٰ نے نو منتخب پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا جس پر حکمران فوجی کونسل نے پارلیمنٹ تحلیل کر دی تھی۔
عدالت کا مؤقف تھا کہ پارلیمانی انتخابات میں آزاد امیدواروں کے لیے مختص نشستوں پر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے مقابلہ کیا ہے۔
نئے صدر کی جانب سے پارلیمان کی بحالی کے حکم پر غور کرنے کے لیے اتوار کو فوجی کونسل کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جبکہ اسی سلسلے میں کونسل پیر کو بھی اجلاس کرے گی۔
ملک کی آئینی عدالت بھی صدر مرسی کے اس قدم کا جواب دینے کے لیے پیر کو اجلاس کر رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر مرسی کا فیصلہ فوجی قیادت کو براہِ راست چیلنج ہے۔ قاہرہ میں بی بی سی کے نامہ نگار جان لین کا کہنا ہے کہ محمد مرسی یہ فیصلہ کر کے ایک ایسے راستے پر چل پڑے ہیں جہاں ان کا فوج سے ٹکراؤ یقینی ہے۔
مصر میں فوج نے گزشتہ برس عوامی تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے صدر حسنی مبارک کے تیس سالہ دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک کا انتظام سنبھالا تھا۔

ابتدائی طور پر فوج کے اس قدم کا بہت سے مظاہرین نے خیر مقدم کیا تھا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت پر اقتدار نہ چھوڑنے کی منصوبہ بندی کے الزامات سے اس کی مقبولیت کم ہو گئی تھی۔
اخوان المسلمون کے حکام کا کہنا ہے بحال شدہ پارلیمان کا اجلاس پیر کو منعقد ہو سکتا ہے تاہم بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق اس اجلاس میں شرکت کے لیے جانے والے ارکانِ اسمبلی کو پہلے پولیس اور فوج کے ان اہلکاروں سے نمٹنا ہوگا جو پارلیمان کے باہر تعینات ہیں۔

مکمل خبر پڑھیں
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس خبر پر مجھے کچھ روز پہلے کا عامر خاکوانی کا ایک کالم یاد آ گیا۔

1101559605-2.gif

ماخذ
 

نایاب

لائبریرین
آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ۔
مرسی کا صدر منتخب ہونا اور پھر فوج کا انہیں اقتدار منتقل کرنا ہی عرب دنیا کو ہلانے کا سبب تھا ۔
اور اب صدر مرسی کا اپنی جماعت کی قیادت سے مستعفی ہوتے اس پارلیمان کو بحال کرنا جس میں اکثریت
اخوان المسلمین کی ہے ، عرب دنیا کی مقتدر ہستیوں کی نیند اڑانے کا سبب بن گیا ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
جسارت میں چھپا ایم عثمان کا یہ کالم بھی فکر انگیز ہے

-کسی جگہ چند اندھے جمع تھے۔ انہیں ہاتھی کو چھونے کا اتفاق ہوا۔ کسی نے کان چھوا، کسی نے سونڈ، کسی نے ٹانگ پکڑی، کسی نے پیٹ۔ ہر کسی نے جس جس حصے کو چھوا اسی کے مطابق کہنے لگا کہ ہاتھی تو ایسا ہوتا ہے۔ فرعونوں کی سرزمین مصر پر کبھی اخوان المسلمون کا نمائندہ عوام کی نمائندگی سے ملک کا سربراہ بنے گا، یہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا۔ بہت سوں کے لیے یہ حیرت انگیز بات ہے، تو بہت سوں کے لیے یہ ناقابلِ برداشت واقعہ بھی ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستانی میڈیا کو ہی لیتے ہیں۔ ذہنی طور پر مفلوج لوگ مصر کے اس ’’انقلاب‘‘ کو اپنی بند آنکھوں سے چھو چھوکر تبصرے کررہے ہیں۔ ہمدردی سے زیادہ تکلیف اور بغض ظاہر ہورہا ہے۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہی سہی، اخوان المسلمون کی تقریباً ایک صدی کی تاریخ کے اس موڑ پر فتح و کامیابی کی تعریف نہ سہی، اپنی خواہشات بھرے تبصرے تو نہ کریں۔ ہمسایہ ملکوں کو ڈرانا کہ یہ انقلاب برآمد بھی کرسکتے ہیں، یا اس کے برے اثرات یہ بھی ہوسکتے ہیں اور وہ بھی… ان باتوں کو سن کر یقینا خود تختے الٹ کر بادشاہ بننے والوں کو تو اپنی تاریخ نہیں بھولی۔ وہ تو ڈر سہم ہی جائیں گے۔ مصر میں منتخب ہونے والا شخص ایک فرد نہیں بلکہ 80 سالہ جدوجہد میں خون بہانے، جانیں دینے اور جہاد پر ایمانِ کامل رکھنے والے اخوان کا نمائندہ ہے۔ اس کے ساتھ ایک پوری ٹیم ہے۔ یہودی اور عیسائی میڈیا بھی مسلمانوں کے حالات پر تبصرے کرنے سے پہلے اپنے مسلمان دوستوں سے بحث و تمحیص کے بعد ہی مسلمانوں کے خلاف لکھتے ہیں۔ لیکن مسلمان ہونے کے دعویدار صحافیوں کو اس انقلابی سمت میں جانے والے مصر کے حالات پر اپنی خواہشات کے مطابق آنے والے خیالات سے رخ موڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے تو منہ کو بند ہی رکھیں۔ جتنی اخوان المسلمون تحریک کی عمر اور قربانیاں ہیں، انہیں ان حالات کی پیداوار صحافیوں کے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا فون سننے سے انکار اور پھر امریکی دبائو کہ ’’فون سن لیں‘‘، اس کو بھی دھتکار دینا ان کی سمجھ میں نہیں آسکتا کیونکہ ان کی پرورش جس ماحول میں ہوئی اور ان کا آئیڈیل صدر پرویزمشرف ایک امریکی فون کال پر ڈھیر ہوکر اور پھر یہ کہتا ہوا اتراتا پھرتا تھا کہ ہر ملک کا صدر مجھ سے بات کرنا پسند کرتا ہے۔ ان کی اصل تکلیف کا سبب یہ بھی ہے کہ خاتونِ اوّل کہلانے سے انکار کرنا، اور اصرار کرنا کہ مجھے بہن کہہ کر پکارو اور حاجیہ کہو۔ ’’پاکستانی حکمرانوں کی 60 سالہ تاریخ‘‘ نے ہمارا مزاج ہی کچھ ایسا بنا دیا ہے کہ جب تک پولیس کے ڈنڈے نہ کھائیں اور حاکمانہ انداز نہ دیکھیں اسے حکمران بھی تسلیم نہیں کرتے۔ صدرِ مصر مسجد میں نماز کی امامت کرتے ہیں۔ 1433 سال پہلے کی تاریخ ان کی اصل تکلیف کی وجہ ہے۔ ایران کا صدر ساٹھ سال پرانی کار پر سفر کرے، زمین پر سوئے، پرانے مکان میں رہے تو اسے صدر ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے ایک صوبے کے سینئر وزیر کی مثال سامنے ہے کہ یورپ کے دورے پر جاتا ہے تو حکومت کے خرچ پر ہوٹل میں ٹھیرنا پسند نہیں کرتا اور شہر میں کسی مسجد کا پتا پوچھتا پھرتا ہے۔ ایسے لوگ ان صحافیوں کے لیے قابلِ نفرت ہیں۔ یہ لاکھ جتن کرلیں اب حالات بدلنے والے ہیں۔ مصر کا انقلاب بھی برآمد ہوگا اور پُرامن طریقے سے برآمد ہوگا۔ علامہ اقبال کی خواہش کے مطابق اب وہ وقت آنے والا ہے کہ تہران ہی عالم مشرق کا جنیوا بنے گا۔ اگر پاکستان کے میڈیا پر قابض کچھ لوگوں کی خواہش کے مطابق مصر کا انقلاب ناکام ہوگا تو ہمیں بھی یہ خواہش ہے کہ بہت جلد اس خطے میں بھی انقلاب آئے۔ امریکا کے افغانستان سے نکلنے کی دیر ہے۔ آج جو امریکا سے نبرد آزما ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ لیے بیٹھے ہیں کل ان کا رخ پاکستان کی طرف ہو گا۔ نشانہ پاکستانی حکمران اور مقابلہ فوج سے ہو گا۔ شمال کی طرف سے آنے والا یہ طوفان اس غلاظت کو بہا لے جائے گا اور ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔ پاکستان کے صدر کی یہ آرزو کہ ’’فلاں‘‘ بہت جلد چلا جائے گا، پوری نہیں ہو گی۔ ایک سال بعد چلا جائے گا۔ دو سال بعد پابندیاں ختم ہوں گی تو ایک نئی شان سے اس انقلاب کی قیادت کرے گا۔ اخوان المسلمون کی کامیابی پر پاکستان کے ایک نامور کالم نگار اور اینکرپرسن کا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیے: ’’اخوان نے 1952ء میں قاہرہ کی ساڑھے سات سو عمارتوں کو آگ لگادی۔ سید قطب سے لے کر محمد ہادی تک شدت پسند اس کے لیڈر رہے۔ دنیا کے مشہور ترین دہشت گردوں سے رابطہ رہا۔ اس کے لنکس جرمن نازیوں سے بھی رہے۔‘‘ موصوف کی معلومات کا منبع کیا ہے، یہ تو نہیں معلوم، لیکن اسلام کی نام لیوا جماعت اخوان المسلمون کی 80 سالہ جدوجہد کی کامیابی سے جلنے کی شدید بو آرہی ہے، جانے کیوں؟
 
Top