مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے تحفہ... سورۃ مریم.. قرآن کی انیسویں سورۃ کا اردو ترجمہ

19۔ سورۃ مریم


اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
(1) کھیٰعص
(2) یہ مذکور ہے تیرے رب کی اس رحمت کا جو اس نے اپنے بندہ زکریا پر کی،
(3) جب اس نے اپنے رب کو آہستہ پکارا
(4) عرض کی اے میرے رب میری ہڈی کمزور ہو گئی اور سرے سے بڑھاپے کا بھبھوکا پھوٹا (شعلہ چمکا) اور اے میرے رب میں تجھے پکار کر کبھی نامراد نہ رہا
(5) اور مجھے اپنے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے اور میری عورت بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا دے ڈال جو میرا کام اٹھائے
(6) وہ میرا جانشین ہو اور اولاد یعقوب کا وارث ہو، اور اے میرے رب! اسے پسندیدہ کر
(7) اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا،
(8) عرض کی اے میرے رب! میرے لڑکا کہاں سے ہو گا میری عورت تو بانجھ ہے اور میں بڑھاپے سے سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا
(9) فرمایا ایسا ہی ہے تیرے رب نے فرمایا وہ مجھے آسان ہے اور میں نے تو اس سے پہلے تجھے اس وقت بنایا جب تک کچھ بھی نہ تھا
(10) عرض کی اے میرے رب! مجھے کوئی نشانی دے دے فرمایا تیری نشانی یہ ہے کہ تو تین رات دن لوگوں سے کلام نہ کرے بھلا چنگا ہو کر
(11) تو اپنی قوم پر مسجد سے باہر آیا تو انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو،
(12) اے یحییٰ کتاب مضبوط تھام، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی
(13) اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا
(14) اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا زبردست و نافرمان نہ تھا
(15) اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن مردہ اٹھایا جائے گا
(16) اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب اپنے گھر والوں سے پورب کی طرف ایک جگہ الگ گئی (17) تو ان سے ادھر ایک پردہ کر لیا، تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی (روح الامین) بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا،
(18) بولی میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے ،
(19) بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں ، کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں ،
(20) بولی میرے لڑکا کہاں سے ہو گا مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہ لگایا نہ میں بدکار ہوں ،
(21) کہا یونہی ہے تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے ، اور اس لیے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ٹھہر چکا ہے
(22) اب مریم نے اسے پیٹ میں لیا پھر اسے لیے ہوئے ایک دور جگہ چلی گئی
(23) پھر اسے جننے کا درد ایک کھجور کی جڑ میں لے آیا بولی ہائے کسی طرح میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی
اور بھولی بسری ہو جاتی،
(24) تو اسے اس کے تلے سے پکارا کہ غم نہ کھا بیشک تیرے رب نے نیچے ایک نہر بہا دی ہے
(25) اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا تجھ پر تازی پکی کھجوریں گریں گی
(26) تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دینا میں نے آج رحمان کا روزہ مانا ہے تو آج ہرگز کسی آدمی سے بات نہ کروں گی
(27) تو اسے گود میں لے اپنی قوم کے پاس آئی بولے اے مریم! بیشک تو نے بہت بری بات کی،
(28) اے ہارون کی بہن تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں بدکار،
(29) اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے
(30) بچہ نے فرمایا میں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا
(31) اور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں ،
(32) اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا اور مجھے زبردست بدبخت نہ کیا،
(33) اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں
(34) یہ ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا سچی بات جس میں شک کرتے ہیں
(35) اللہ کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنا بچہ ٹھہرائے پاکی ہے اس کو جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو یونہی کہ اس سے فرماتا ہے ہو جاؤ وہ فوراً ہو جاتا ہے ،
(36) اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو، یہ راہ سیدھی ہے ،
(37) پھر جماعتیں آپس میں مختلف ہو گئیں تو خرابی ہے ، کافروں کے لیے ایک بڑے دن کی حاضری سے
(38) کتنا سنیں گے اور کتنا دیکھیں گے جس دن ہمارے پاس حاضر ہونگے مگر آج ظالم کھلی گمراہی میں ہیں
(39) اور انہیں ڈر سناؤ پچھتاوے کے دن کا جب کام ہو چکے گا اور وہ غفلت میں ہیں اور نہیں مانتے ،
(40) بیشک زمین اور جو کچھ اس پر ہے سب کے وارث ہم ہوں گے اور وہ ہماری ہی طرف پھریں گے
(41) اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا (نبی) غیب کی خبریں بتاتا،
(42) جب اپنے باپ سے بولا اے میرے باپ کیوں ایسے کو پوجتا ہے جو نہ سنے نہ دیکھے اور نہ کچھ تیرے کام آئے
(43) اے میرے باپ بیشک میرے پاس وہ علم آیا جو تجھے نہ آیا تو تُو میرے پیچھے چلا آ میں تجھے سیدھی راہ دکھاؤں
(44) اے میرے باپ شیطان کا بندہ نہ بن بیشک شیطان رحمان کا نافرمان ہے ،
(45) اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہ تجھے رحمن کا کوئی عذاب پہنچے تو تُو شیطان کا رفیق ہو جائے
(46) بولا کیا تو میرے خداؤں سے منہ پھیرتا ہے ، اے ابراہیم بیشک اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھراؤ کروں گا اور مجھ سے زمانہ دراز تک بے علاقہ ہو جا
(47) کہا بس تجھے سلام ہے قریب ہے کہ میں تیرے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں گا بیشک وہ مجھ مہربان ہے ،
(48) اور میں ایک کنارے ہو جاؤں گا تم سے اور ان سب سے جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو اور اپنے رب کو پوجوں گا قریب ہے کہ میں اپنے رب کی بندگی سے بدبخت نہ ہوں
(49) پھر جب ان سے اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کر گیا ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیے ، اور ہر ایک کو غیب کی خبریں بتانے والا کیا،
(50) اور ہم نے انہیں اپنی رحمت عطا کی اور ان کے لیے سچی بلند ناموری رکھی
(51) اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا،
(52) اور اسے ہم نے طور کی داہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا
(53) اور اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون عطا کیا (غیب کی خبریں بتانے والا نبی)
(54) اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا،
(55) اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا
(56) اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا،
(57) اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھا لیا
(58) یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتانے میں سے آدم کی اولاد سے اور ان میں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا اور ابراہیم اور یعقوب کی اولاد سے اور ان میں سے جنہیں ہم نے راہ دکھائی اور چن لیا جب ان پر رحمن کی آیتیں پڑھی جاتیں گر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے (السجدۃ) 5
(59) تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ نا خلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے
(60) مگر جو تائب ہوئے اور ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور انہیں کچھ نقصان نہ دیا جائے گا
(61) بسنے کے باغ جن کا وعدہ رحمن نے اپنے بندوں سے غیب میں کیا بیشک اس کا وعدہ آنے والا ہے ،
(62) وہ اس میں کوئی بیکار بات نہ سنیں گے مگر سلام اور انہیں اس میں ان کا رزق ہے صبح و شام
(63) یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے ،
(64) (اور جبریل نے محبوب سے عرض کی ہم فرشتے نہیں اترتے مگر حضور کے رب کے حکم سے اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس کے درمیان ہے اور حضور کا رب بھولنے والا نہیں
(65) آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے سب کا مالک تو اے پوجو اور اس کی بندگی پر ثابت رہو، کیا اس کے نام کا دوسرا جانتے ہو
(66) اور آدمی کہتا ہے کیا جب میں مر جاؤں گا تو ضرور عنقریب جِلا کر نکالا جاؤں گا
(67) اور کیا آدمی کو یاد نہیں کہ ہم نے اس سے پہلے اسے بنایا اور وہ کچھ نہ تھا
(68) تو تمہارے رب کی قسم ہم انہیں اور شیطانوں سب کو گھیر لائیں گے اور انہیں دوزخ کے آس پاس حاضر کریں گے گھٹنوں کے بل گرے ،
(69) پھر ہم ہر گروہ سے نکالیں گے جو ان میں رحمن پر سب سے زیادہ بے باک ہو گا
(70) پھر ہم خوب جانتے ہیں جو اس آگ میں بھوننے کے زیادہ لائق ہیں ،
(71) اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو تمہارے رب کے ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے
(72) پھر ہم ڈر والوں کو بچا لیں گے اور ظالموں کو اس میں چھوڑ دیں گے گھٹنوں کے بل گرے ،
(73) اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں کون سے گروہ کا مکان اچھا اور مجلس بہتر ہے
(74) اور ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں کھپا دیں (قومیں ہلاک کر دیں ) کہ وہ ان سے بھی سامان اور نمود میں بہتر تھے ،
(75) تم فرماؤ جو گمراہی میں ہو تو اسے رحمن خوب ڈھیل دے یہاں تک کہ جب وہ دیکھیں وہ چیز جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے یا تو عذاب یا قیامت تو اب جان لیں گے کہ کس کا برا درجہ ہے اور کس کی فوج کمزور
(76) اور جنہوں نے ہدایت پائی اللہ انھیں اور ہدایت بڑھائے گا اور باقی رہنے وا لی نیک باتوں کا تیرے رب کے یہاں سب سے بہتر ثواب اور سب سے بھلا انجام
(77) تو کیا تم نے اسے دیکھا جو ہماری آیتوں سے منکر ہوا اور کہتا ہے مجھے ضرور مال و اولاد ملیں گے
(78) کیا غیب کو جھانک آیا ہے یا رحمن کے پاس کوئی قرار رکھا ہے ،
(79) ہرگز نہیں اب ہم لکھ رکھیں گے جو وہ کہتا ہے اور اسے خوب لمبا عذاب دیں گے ،
(80) اور جو چیزیں کہہ رہا ہے ان کے ہمیں وارث ہوں گے اور ہمارے پاس اکیلا آئے گا (81) اور اللہ کے سوا اور خدا بنا لیے کہ وہ انہیں زور دیں
(82) ہرگز نہیں کوئی دم جاتا ہے کہ وہ ان کی بندگی سے منکر ہوں گے اور ان کے مخالفت ہو جائیں گے
(83) کیا تم نے نہ دیکھا کہ ہم نے کافروں پر شیطان بھیجے کہ وہ انہیں خوب اچھالتے ہیں
(84) تو تم ان پر جلدی نہ کرو، ہم تو ان کی گنتی پوری کرتے ہیں
(85) جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمن کی طرف لے جائیں گے مہمان بنا کر
(86) اور مجرموں کو جہنم کی طرف ہانکیں گے پیاسے
(87) لوگ شفاعت کے مالک نہیں مگر وہی جنہوں نے رحمن کے پاس قرار رکھا ہے
(88) اور کافر بولے رحمن نے اولاد اختیار کی،
(89) بیشک تم حد کی بھاری بات لائے
(90) قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں ڈھ کر (مسمار ہو کر)
(91) اس پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے اولاد بتائی،
(92) اور رحمن کے لائق نہیں کہ اولاد اختیار کرے
(93) آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب اس کے حضور بندے ہو کر حاضر ہوں گے ،
(94) بیشک وہ ان کا شمار جانتا ہے اور ان کو ایک ایک کر کے گن رکھا ہے
(95) اور ان میں ہر ایک روز قیامت اس کے حضور اکیلا حاضر ہو گا
(96) بیشک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ان کے لیے رحمن محبت کر دے گا
(97) تو ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں یونہی آسان فرمایا کہ تم اس سے ڈر والوں کو خوشخبری دو اور جھگڑالو لوگوں کو اس سے ڈر سناؤ،
(98) اور ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں کھپائیں (قومیں ہلاک کیں ) کیا تم ان میں کسی کو دیکھتے ہو یا ان کی بھنک (ذرا بھی آواز) سنتے ہو
 
یہ اردو ترجمہ کنزالایمان کی اس جلد سے لیا گیا جو محترم استاد جی الف عین قبلہ اعجاز عبید کی لائبریریاردو کی برقی کتابیں میں موجود ہے۔ اس پوسٹ کا مطلب دنیائے عیسائیت کو ایک محبت بھرا پیغام دینا ہے کہ پیغمبر اسلام میرے آقا مدنی تاج دار حضرت محمد کے دہن مبارک سے اللہ کا یہ کلام ہمیں مِلا۔ اس دین اور قرآن میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں کیا عقائد ہیں اور کتنی عقیدت ہے۔ یہ علمی موضوع ہے۔ اس میں
اصلاََ
مسلمان اور اسلام علمی طور پر عیسائیت کے دشمن نہیں ہیں، پتہ نہیں کِدھر سے اور کہاں سے نفرتیں در آئیں۔ علمی طور پر دشمنی نہ تھی۔ دیگرمعاملات میں بگاڑ پر علمی معاملات میں اختلاف کو علمی سطح دیکھا جانا چاہیئے۔ نہ کہ دوسرے معاملات کی بنیاد پر دین ، مذہب اور کے ملت موضوعات زیر بحث آئیں۔ بہر حال اسلام کی بنیادی تعلیمات میں حضرت مریم سلام اللہ علیھا اور حضرت عیسیٰ کی کیا عزت ، قدر و منزلت ہے۔ اس کا کچھ حصہ سورۃ مریم میں ہے۔ اللہ حق کہنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے
 
غیر مسلم مشاہیر کے خیالات

مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔[22] تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲) ۔ وسائل کی کمی، (۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمد ہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔ [23]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپؐ کی پیشنگوئی دیگر مذاہب میں

آپؐ ایک ایسی ذات تھے جن کی پیشنگوئی اللہ نے ہر اہم مذہب میں ڈالی تھی۔ہندو مذہب کی کتابوں میں محمدؐ کو کلکی کے نام سے موجود ہے۔لفظ کلکی سنسکریت لفظ ہے جس کی معنی "وہ شخص جس کی تعریف کی گئ" اگر ہم عربی میں اس کا ترجمہ کریں تو بن جائیں گا "محمد"۔اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی موجود ہے۔مثلاً بدھمت میں آپؐ کو سپریم بددھا کہا گیا ہے اور عیسائیت اور ےھودیت میں تو صاف طور پر پایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام(انگریزی میں Jesus یا Jesus of Nazareth یا Jesus Christ اور عبرانی میں יהושע (Yehoshua) اور آرامی عبرانی میں ישוע (Yeshua)) مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے نزدیک نہائت مقدس ہستی ہیں۔ مسلمان ان کو اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں۔ حوالہ
 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرآن و حدیث کی رو سے
دوبارہ آمد پر نظریات
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَ۔كِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيناً {١٥٧} بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزاً حَكِيماً [ سورة النساء ١٥٨ ]
اللہ نے سورۃ النساء کی ان آیات میں یہود کے ملعون ہونے کی کچھ وجوہات بیان کی ہیں من جملہ ان میں ہے کہ؛
اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اﷲ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا۔
اور اس کے علاوہ سورہ النساء میں ہے کہ

وان من اهل الكتاب الاّ ليؤمن به قبل موته (الآية) - سورة النساء آية ١٥٩
اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسٰی (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا، اور قیامت کے دن عیسٰی (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گے

یعنی عیسٰی علیہ السلام کی وفات سے پیشتر جب ان کا آسمان سے نزول ہوگا تو اہل کتاب ان کو دیکھ کر ان کو مانیں گے اور ان کے بارے میں اپنے عقیدے کی تصحیح کریں گے۔
حدیث نبوی
حیات و‌نزول مسیح علیہم السلام کے متعلق احدیث مبارکہ درجہ تواتر کو پہنچتی ہیں۔ ان احدیث کا متواتر ہونا علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب «التصريح بما تواتر في نزول المسيح» میں ثابت کیا ہے

چند احدیث پیش خدمت ہیں؛
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال : ( كيف انتم اذا نزل ابن مريم فيكم وامامكم منكم (رواه البخاري ومسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا حال ہوگا تمہارا کہ جب عیسٰی ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا

عن عبد اللّه بن عمر قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلمَ‏:‏ ينزل عيسى ابن مريم عليه السلام إلى الأرض فيتزوج ويُولَد له ويمكث خمسًا وأربعين سنة ثم يموت فيُدفن معي في قبري فأقوم أنا وعيسى ابن مريم من قبر واحدٍ بين أبي بكر وعمر (رواه ابن الجوزي في کتاب الوفاء)

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمانہ آئندہ میں عیسٰی علیہ السلام زمیں پر اُتریں گے اور میرے قریب مدفون ہونگے۔ قیامت کے دن میں مسیح ابن مریم کے ساتھ اور ابو بکر و‌عمر کے درمیان قبر سے اُٹھوں گا۔

عن الحسن مرسلاً قال: قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم لليهود ان عيسى لم يمت وانه راجع اليكم قبل يوم القيامة (اخرجه ابن كثير في تفسير ال عمران)

امام حسن بصری سے مرسلاً روایت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے فرمایا کہ عیسٰی علیہ السلام نہیں مرے وہ قیامت کے قریب ضرور لوٹ کر آئیں گے۔

دیگر بہت سی احدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے امام، امام مھدی علیہ السلام ہوں گے اور عیسٰی علیہ السلام اس ہدایت یافتہ امام کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔
 
Top