مزاج کیسا ہے؟؟

مزاج کیسا ہے؟ یہ جملہ ہم لوگوں نے بارہا کہا اور سنا ہے ۔ سوچنے والے سوچ سکتے ہیں کہ اس جملہ میں کیسی اپنائیت اورکتنی وسعت ہے ۔کسی دوست سے ملاقات ہو تو بے تکلف زبان سے یہ الفاظ ادا ہو جاتے ہیں۔ کوئی عزیز بیمار ہو جائیں ان کی مزاج پرسی کے لئے یہ جملہ کام د ے جاتا ہے۔ گویا عیادت بھی اس لفظ مزاج کے بغیر ادھوری ہے۔ یہی نہیں بلکہ کسی شخص کے اخلاق و کردار، عادات و اطوار معلوم کرنے کیلئے بھی جامع اور موزوں ہے۔رشتوں کی تلاش میں لڑکے یا لڑکی کے بارے میں مختصراً کچھ پوچھنا یا بتانا ہو تو یہی مزاج سہارا بنتا ہے۔ ہاں آ ج کل ہماری زبان ہمارے ہی درمیان کم استعمال ہوتی ہے اس لئے اب لوگ انگریزی کے شوق میں مزاج کا ترجمہ کرکے لفظ نیچر استعمال کرنے لگے ہیں لیکن مقصد ایک ہی ہے۔ کوئی خوش مزاج ہوتا ہے کوئی بد مزاج ۔ بعض لوگ بڑے شوقین مزاج ہوتے ہیں جو تفریح کے دلدادہ ہوتے ہیں اور بعض لوگ عجیب المزاج ہوتے ہیں جنھیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص گرم مزاج والا ہے فلاں ٹھنڈے مزاج والا۔ گرم مزاج کا مطلب لیا جاتا ہے کہ غصہ اور جوش جلد آئے اسی کے ساتھ کام میں فعال(Active) ہو۔ ایسے لوگ جذباتی ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات عقل سلیم کے تابع ہوں تو ایسے لوگ بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں اور خدا نخواستہ ایسے جذبات آزاد ہوں تو نقصان اور ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ٹھنڈے مزاج سے سستی اور کاہلی عموماً مراد ہوتی ہے۔ اس قسم کے لوگ آرام پسند ہوتے ہیں۔دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سوچتے زیادہ ہیں کام کم کرتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سوچتے بھی کم ہیں ۔ ان میں ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ غلطی کم کرتے ہیں اس لئے کہ کام بھی کم کرتے ہیں۔ بہت سے مریض اپنے ڈاکٹر سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب! فلاں گولی مجھے گرم پڑتی ہے وہ نہ دینا۔ ڈاکٹر حضرات بھی (مزاج کے اس فلسفے کے منکر ہوں یا قائل )مریضوں کے ایسے جملوں کی رعایت ضرورکرتے ہیں ۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ یہ مزاج کی تعبیرات ہمارے معاشرے میں کہاں سے آئیں ؟ تاریخ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں طب یونانی کی آمد کے بعد سے اس طب کے ماہرین اطباء و حکماء کی تعلیمات کے ذریعے مزاج کا لفظ اور اس سے متعلق معانی عام ہوئے۔جس طرح موجودہ دور میں ایلوپیتھی کی بہت سی اصطلاحات ہر خاص و عام کی زبان سے سنائی دیتی ہیں۔ جنہیں سن کر عمر رسیدہ بزرگ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ایسی بیماریوں کے نام کبھی نہیں سنے تھے ۔وہ سچ کہتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ نئی بیماریاں اتنی زیادہ پیدا نہیں ہوئیں جتنی تعبیرات بدل گئی ہیں۔ دیکھئے اسی مزاج کو لوگ اب نیچر کہنے لگے ہیں۔ اس لئے خیال آیا کہ اس مضمون میں ’ مزاج ‘ پر طبی اعتبار سے بات کی جائے قبل اس کے کہ یہ لفظ ہی انجان بن جائے ۔

واقعہ یہ ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کے عروج کے ساتھ قدیم زمانے میں مختلف علوم و فنون کی ابتدا ء بھی فطری طور سے ہوئی اور رفتہ رفتہ اس میں ترقی بھی ہوتی رہی۔ یونان سے جو علوم و فنون دنیا میں پھیلے ان میں علم طب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ طب کے ساتھ یونانی کی جو نسبت لگی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ طب کی بنیادیونان ہی میں پڑی۔ اس کے بنیادی اصول و قوانین انہی لوگوں نے قائم کئے۔یہ حضرت عیسی علیہ السلام سے قبل کا زمانہ تھا جب یونانی علم طب عروج پر تھا۔ علماء نے لکھا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا یہ ضابطہ رہا ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام دنیا میں مبعوث ہوتے تو انسانوں کو ایک اللہ کی طرف بلانے کے لئے ان انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں اسی اعتبار سے معجزے ظاہر ہوتے جیسے اس وقت کے ترقی یافتہ فنون ہوتے۔چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے ان میں یہ بھی تھا کہ وہ اندھے اور جذام (کوڑھ) کے مریضوں پر ہاتھ پھیر دیتے تو وہ مریض صحت یاب ہو جاتے۔ یہاں محض یہ بات واضح کرنی ہے کہ فن طب میں یو نانیوں کو بطور خاص کمال حاصل تھا ۔ بقراط جسے بابائے طب(Father of Medicine) کہا جاتا ہے اس نے علم طب کو سینے سے سفینے (کتابوں) پر منتقل کیا تاکہ بعد کے زمانے میں بھی لوگوں کو اس سے نفع ہو۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس نے اس کے نام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا۔ افسوس کہ آج ادھورے حکیم کوئی چھوٹا سا نسخہ جان لیں تو اسے چھپائے ہوئے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ بقراط نے طبی علم کو محفوظ کرنے کے ساتھ اس کو غلط استعمال سے بچانے کی تدبیر بھی کی جس کی تفصیل پھر کسی مضمون میں بیان کی جائے گی۔

صحت کی حفاظت اور مرض کے علاج میں اس مزاج کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ہر انسان کا ایک مزاج ہوتا ہے جو اس کے افعال، اخلاق، کام کاج سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر کھانے پینے کی چیز کا ایک مزاج ہوتا ہے جسے تاثیر یا کیفیت بھی کہا جاتا ہے جو بدن میں جانے کے بعد اثر انداز ہوتا ہے۔ موسموں اور آب و ہوا کا بھی مختلف مزاج بیان کیا گیا ہے جن کا اثر انسانوں پر ضرور پڑتا ہے۔ اس بات کو سارے لوگ فطری طور سے سمجھتے ہیں کہ گرمی میں ٹھنڈی چیزیں اور سردی میں گرم چیزیں استعمال کرنی چاہئیں۔ جو لوگ زیادہ غور و فکر کرتے ہیں اور صحت کا خیال رکھتے ہیں وہ کھانے پینے کی چیزوں میں بھی ان کیفیات کو سوچتے ہیں کہ کون سی چیز گرم ہے اور کون سی ٹھنڈی۔ یہ بہت اچھی سوچ ہے۔ لیکن اب اس مزاج کے معاملے میں عوام کی اکثریت کو پہلے جیسے لوگوں کا سا علم نہیں رہا۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں مزاج اور کیفیت کا خیال ہی نہیں رکھا جاتا۔ اس غلطی کی وجہ صرف ناواقفیت نہیں بلکہ کچھ حد تک جدید طب ایلوپیتھی کا انکاری رویہ بھی ہے۔ ایلوپیتھی میں مزاج کا نہ کوئی تصور ہے نہ اس کے لئے کوئی خانہ۔ جب کہ یہ مزاج کا فلسفہ صدیوں کا آزمودہ اور ثابت شدہ ہے۔اب بھی اس کی افادیت مسلمہ ہے۔ گرمیوں میں اگر آپ دن میں چار پانچ بار برف سے ٹھنڈا کئے ہوئے مشروبات نوش کرکے بہترمحسوس کرتے ہوں تو سردیوں میں اسی طرح کرنے سے آپ مزکوم ہوجائیں گے یعنی آپ کو زکام ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر موسم سرما کی راتوں میں آگ سے سینکنے اورساتھ ساتھ گرما گرم چائے پینے کا شوق مئی جون کے مہینے میں دوپہر کے وقت بھلا کوئی پورا کرکے بتائے۔ ظاہر ہے ایسی ہمت کسی کو نہ ہوگی۔ یہ ہم نے آسان سمجھ میں آنے والی مثالیں دی ہیں۔ جب تدابیر اور مشروبات کا یہ حال ہے تو دواؤں کا اثر مختلف موسموں میں مختلف کیوں نہیں ہوگا۔ بالکل ہوگا اورہوتا ہے۔ اس طرح کی موٹی باتیں جب لوگ مانتے ہیں تو جن اصولوں پر یہ اثرات مبنی ہیں ان کو بھی ماننا چاہیے۔ یونانی اطباء نے انھیں کیفیات اور مزاج کے اصولوں پر ہمیشہ علاج معالجے کی ترغیب دی ہے۔طب یونانی میں ہر شخص کے لئے اس کے مزاج کے مطابق غذا تجویز کی جاتی ہے۔مزاج کے مطابق دوا اور اس کی مقدار بتائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی دواؤں کو مضر اثرات ( سائڈ ایفیکٹ) سے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایلوپیتھی کے مضر اثرات سے لوگ پریشان رہتے ہیں۔ اگر مزاج کا خیال رکھتے ہوئے مناسب کیفیت کی دوا مناسب مقدار میں دی جائے جو بیماری کی اتنی ہی زائد کیفیت کو اسی مناسب بڑھی ہوئی مقدار میں کم کرنے کے لئے کافی ہو ، نہ زائد دوا بچے نہ کیفیت ، تو مضر اثرات کیسے پیدا ہوں گے۔ جبکہ ایلو پیتھی میں دوا کی ایک ہی مقدار عموماً سارے مزاج کے لوگوں کو دی جاتی ہے۔ اب امید ہے آپ ان باتوں سے طب یونانی کے فلسفہء مزاج کی اہمیت کچھ سمجھنے لگے ہوں گے۔ یہ صرف ایک فلسفہ نہیں بلکہ ایک مستقل علم ہے جس پر سب سے پہلے جالینوس نامی طبیب نے کتاب فی المزاج لکھی تھی اور جدید دور میں اس پر تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔ اس پر مزید گفتگو اگلے مضمون میں کی جائے گی ان شاء للہ۔

تحریر: ڈاکٹر محمد یاسر
ریجنل ریسرچ ا۵۱نسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین، ممبئی۔

قسط دوئم

مزاج کا بننا اور بگڑنا اس موضوع پر شروع کی گئی پچھلی بار کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔ طبی ماہرین کے ذریعے جہاں ایک طرف یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ جدید ترین وسائل کے ذریعے خورد بینی سطح (Microscopic / Molecular Level) پر بیماریوں کے اسباب اور دواؤ ں پر تحقیقات کے سارے مراحل طئے کرلئے جائیں تاکہ علاج میں خطا کے امکانات ہی نہ رہیں ، وہیں ماہرین کا ایک گروہ اس بات کی کوشش کرتا رہا ہے کہ ایسی مختصر طبی ہدایات (Medical Guidelines) وضع کی جائیں جو عوام کے لئے سمجھنے میں انتہائی آسان ہوں جن کے ذریعے وہ اپنی صحت کی حفاظت کر سکیں اور بیماریوں سے روک تھام میں ان اصول و ضوابط کے پابند رہیں۔ اس طرح کی ہدایات معاشرے میں قبولیت حاصل کریں اس کے لئے بااثر شخصیات اور موثر ذرائع استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ دونوں طرح کی محنتیں مفید اور ضروری ہیں۔ایک حقیقت یہ ہے کہ افراد سے جب معاشرہ بنتا ہے تو اس مجموعے میں عقلی قوت عمل کمزور پڑ جاتی ہے اور احساسات فعال ہوجاتے ہیں۔عقل پر جذبات کی اس فوقیت کی وجہ سے تعلیم یافتہ افرا د کبھی حیران ہوتے ہیں کبھی غصہ ہوتے ہیں لیکن ایسے رد عمل سے افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔لوگوں کے دلوں تک اپنی بات پہونچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انبیاء علیہم السلام کا طریق محنت یہی تھا کہ وہ دماغوں سے زیادہ دلوں پر محنت کرتے تھے۔

یہاں غور کرنے کی بات ہے کہ معاشرے میں پہلے سے رائج طریقہ ہائے علاج مثلاً طب یونانی کی اکثر تعلیمات ایسی ہیں جو عوام میں مقبول ہیں۔ ہاں کئی جگہ طبی علم کی کمی سے یہ تعلیمات کچھ بدل چکی ہیں۔ لیکن تھوڑی توجہ سے درست ہو سکتی ہیں اس لئے کہ مسلم معاشرے میں طب یونانی سے آج بھی محبت و عقیدت ہے۔اس عقیدت کا غلط فائدہ اٹھانے والے بہت سے لوگ اپنے کاروبار کر رہے ہیں لیکن سنجیدگی کے ساتھ اس سماجی عقیدت کا صحیح استعمال کرکے معاشرے کوبے حد مفیدطبی تحفہ دیا جاسکتا ہے۔ دیکھئے میں پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا ہمارے ہی گھروں میں جب بچے شوق سے کسی پھل کو زیادہ کھانے لگتے ہیں تو انھیں یہ کہا جاتاہے کہ بیٹا! یہ ٹھنڈا ہے زیادہ کھاؤ گے تو سردی ہوجائے گی۔ اسی طرح بڑی بوڑھیاں گھروں میں حاملہ عورتوں کو کہتی ہیں کہ فلاں چیزگرم ہے ، تم نہ کھانا یہ تمہیں نقصان کرے گی۔کسی غذا کے گرم مزاج کی وجہ سے اس کا حمل کے ایام میں باعث نقصان ہونے کا تصور طب یونانی سے ہی سماج میں آیا ہے۔ اس قسم کے بے شمارطبی تصورات اور جامع ہدایات ہیں جو معاشرے میں سرایت پذیر ہیں۔اس طب کی صحیح معلومات کو طب یونانی کے ان ماہرین کے ذریعے جو قدیم و جدید دونوں سے اچھی واقفیت رکھتے ہوں اگر عام کرنے کی کوشش کی جائے تو کم وقت میں معاشرے کو حفظان صحت کے زیادہ اصول سمجھائے جاسکتے ہیں اور ایک بڑی طبی ضرورت کم محنت سے پوری ہوسکتی ہے۔

مزاج اسی طرح کا اہم طبی تصور ہے۔اشیائے خورد و نوش کا مزاج یہ سمجھنے میں معاون ہے کہ ان کا استعمال بدن انسانی میں کن اثرات کو پیدا کر سکتا ہے اورانھیں کب کتنا استعمال کرنا چاہئے کب نہیں۔ آج کل تحقیقات کی اس قدر بھر مار ہے کہ عام آدمی تو دور ، ایک عام طبیب بھی حیران ہوجاتا ہے کہ کس کو مانے، کس کو چھوڑے؟ اگر کوئی غذا یا تدبیر کسی بیماری میں مفید پائی گئی ہے تو وہی مضر بھی ثابت کر دی گئی ہے۔آپ یہ پڑھ کر پریشان نہ ہوں ۔ ترقی کے اس دور میں ہر چیز ممکن ہے۔ ایسے حالات میں یونانی طب آپ کے لئے رہنما ہے جودنیا میں سب سے زیادہ طویل مدت کے تجربات پر مبنی ہے اور سب سے زیادہ قوموں اور علاقوں پر آزمائی گئی ہے ۔
موسموں کا مزاج حسب ضرورت مختلف مفید تدابیر اختیار کرنے میں رہنمائی کرتا ہے تاکہ موسموں کی مضرت اور اس میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچا جا سکے۔ماضی قریب کا یہ واقعہ کتابوں میں درج ہے کہ مسیح الملک حکیم اجمل خاں صاحب کے زمانے میں ایک علاقے میں وباء پھیلی۔ حکیم صاحب نے اس بیماری اور موسم کے مزاج کوسمجھتے ہوئے چند دواؤں پر مشتمل ایک آسان سا نسخہ تجویز کیا۔ایک رفاہی تنظیم نے اسے عوام میں مفت تقسیم کیاجس کی بدولت نہ صرف اس وباء سے حفاظت میں بہت مدد ملی بلکہ کئی مریضوں نے شفاء بھی پائی۔

پھر مختلف انسانوں کا مختلف مزاج عمر کے مختلف مراحل بچپن ، جوا نی اور بڑھا پے میں بدلنے کے باوجو د کلی طور سے ہر ایک فرد میں ایک انفرادی امتیاز رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے جہاں کسی شخص کی حرکات و سکنات ، ذہنی کیفیت، طبعی افعال اورحالت صحت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے وہیں یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ وہ کن امراض سے جلد متاثر ہو سکتا ہے اور ان سے بچاؤ کی کیا صورت ممکن ہے۔بہت سے ہارمون (Hormone)کی غیرطبعی مقدارسیہونے والے امراض کے علاوہ کچھ جنینی(Genetic) امراض کا اندازہ اور ان سے حفاظت و علاج کے لئے بھی مزاج معاون ہے۔ اس کو سطحی طور سے سمجھنے کے لئے مثال یہ سمجھئے کہ کوئی آلہ یا سامان تین مختلف مادوں (Material) سے بنایا گیا ہو ایک لکڑی کا ہو ایک لوہے کا اور ایک پلاسٹک کا ۔ اور تینوں ایک ہی مقصدکے لئے استعمال ہوسکتے ہوں تو جاننے والے کہتے ہیں کا تینوں میں کس کا کون سا کام اچھا ہے کون سا خراب، کون زیادہ پائیدار ہے اور کون کم، کون استعمال میں آسان ہے اور کون مشکل۔ کس میں کیا خرابی پیدا ہوتی ہے اور کیسے دور ہوتی ہے ۔ اس کے ماہرین یہ بھی بتادیتے ہیں کہ کس شخص کے لئے کون سے مٹیریل سے بنا ہوا سامان لینا بہتر ہوگا۔ انسانی مزاج بھی اسی سے کچھ سمجھا جاسکتا ہے لیکن اس میں زندہ جاندار ہونے کے اعتبار سے مزید تفصیلات ہیں۔

خلاق عالم نے انسانی تخلیق کے وقت عناصر کے امتزج کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مزاج اور جنینی تقدیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

خلقہ فقدرہ (اسے پیدا بھی کیا پھر اسے ایک خاص انداز بھی دیا)۔

اس جامع لفظ ’خاص انداز‘ سے( آگ، ہوا ، پانی ، مٹی جیسی مختلف کیفیات والی چیزوں پر منحصر) انسان کے پیدا ہونے کے وقت ہی امتزاجی کیفیت سے دجود میں آنے والے تقدیری احوال کی پیش گوئی کردی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تقدیر کی وہ قسم ہے جس کا تعلق جنینیات (Genetics) سے ہے۔ علم جنین کی تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ بطن مادر میں ہی جب انسانی مادہ وجود میں آتا ہے اسی وقت انسان کے کروموزوم اور ڈی این اے بنتے ہیں جو اس انسان کی جسمانی ساخت، افعال کی نوعیت اور دوسرے انسانوں سے ممتاز بہت سی صفات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔پچھلی دفعہ عناصر اربعہ سے انسانی تخلیق اور مزاج کے وجود میں آنے کی جوبحث کی گئی تھی اسے آج کے مضمون سے جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ مزاج کا تصور جنینیات کو سمجھنے میں بھی معاون ہے۔ گویا سماج میں طبی بیداری پیدا کرنے کے لئے ہمیں کئی مشکل مباحث سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ضرورت ہے کہ جدید طب کی پریکٹس کرنے والے بھی اسے سمجھ کر اپنی پیتھی کے ساتھ ضم(Integrate) کریں اورطب یونانی کے اس نظریہء مزاج کو عام کیا جائے۔


تحریر: ڈاکٹر محمد یاسر
ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسین، ممبئی۔
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوب!
یہ خیال پہلے بھی بہت کم حد تک معلوم تھا لیکن اس مضمون سے علم میں خاصا اضافہ ہوا۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اس سلسلہ میں مزید بھی مضامین ہوں تو شریک کریں۔
 
Top