مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟؟



آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہاں ایک طرف نت نئی ٹیکنالوجی اور جدید سہولیات تو دوسری طرف انسانی مسائل میں اضافہ نظر آ رہا ہے وہیں ذہنی امراض اور خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے

عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال تقریبًا دس لاکھ افراد خودکشی کر لیتے ہیں، یوں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کر رہاہے۔ ہر تین سیکنڈ بعد ایک شخص خودکشی کی ناکام کوشش کرتا ہے، خودکشی کے ہر کیس میں کم سے کم 20 بار جان لینے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے
مجموعی طور پر سالانہ 800،000 افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ WHOکے مطابق ان میں زیادہ تعداد 15 سے 29 سال کے نوجوانوں کی ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی موجودہ دھائی میں ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد 2 ملین سے زیادہ ہے۔PIMSمیں روزانہ 5 خودکشی کے کیسز موصول ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ خودکشی کا اور موسم کا بھی آپس میں تعلق ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نفسیات کاکہنا تھا کہ موسمِ بہار میں خودکشیوں کی شرح20 سے 60 فیصد تک بڑھ سکتی ہیں۔
اسی طرح کچھ جگہیں بھی خودکشی سے منسوب ہیں جیسا کہ جاپان میں Aokigaharaنامی جنگل مشہور زمانہ ماونٹ فیوجی کی شمال مغربی سمت میں واقع ہے۔یہ جنگل تقریباً 35مربع کلومیٹر پرواقع ہے اور دیکھنے میں کافی دلکش محسوس ہوتا ہےگولڈن گیٹ بریج سان فرانسسکو کے بعد یہ جنگل دوسری ایسی جگہ ہے جہاں لوگ مرنے کے لئے جاتے ہیں۔
خودکشی میں ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ممالک کی تخصیص بھی نہیں ہے۔ جاپان میں اوسطاً یومیہ 58 افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔ جنوبی کوریا ترقی یافتہ ممالک میں خودکشی میں سر فہرست ہے۔
پاکستان میں سالانہ پندرہ ہزارخودکشیاں ہوتی ہیں اگرچہ زیادہ تر کیسز رجسٹر نہیں کرائے جاتے اور دبا دیئے جاتے ہیں تو تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ ایران میں بچوں میں خودکشی کا رحجان خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں یومیہ تیرہ افراد خودکشی کرتے ہیں۔

خودکشی کرنے والوں میں مختلف طبقہ خیال سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ ماضی کے مشہور شاعر شکیب جلالی ہوں یا سارا شگفتہ، مشہور اداکارہ پروین بوبی ہو یا ننھا ہو، دولت و شہرت میں کھیلنے والے یہ لوگ اپنی زندگیوں کو اپنے ہاتھوں ختم کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں خودکشی کے کچھ عجیب کیسز سامنے آئے ہیں جن میں ایک ڈاکٹر ماہا شاہ کا کیس کافی وقت تک زیر گفتگو رہا ہے۔ پڑوسی ملک کے مشہور اداکار کی خودکشی زبان زد عام ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مشہور افراد کا کہا جاتا ہے کہ انہوں نے خودکشی کی ان میں بہت سے حکمران بھی شامل ہیں۔

جہان تک فوج کی بات ہے تو اس ادارے میں خودکشی کا تناسب مختلف ممالک میں مختلف دیکھنے میں آتا ہے۔ ہر ماہ دو اسرائیلی،یومیہ 22امریکی ، نوسال میں1022بھارتی، ایک سال میں21برطانوی فوجیوں کی خودکشی کے واقعات ہوئے ہیں۔
اگر جنس کے حساب سے دیکھا جائے تو دنیا بھر میں مرد خواتین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ خودکشی کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق عمر میں اضافے کے ساتھ مردوں میں خودکشی کی شرح بڑھ جاتی ہے لیکن عورتوں میں پچیس برس کی عمر کے بعد خودکشی کا رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔


اسلام اور دیگر مذاہب میں خود کشی حرام ہے۔ عیسائیت میں خودکشی گنا ہ ہے۔ ہندو مذہب میں خودکشی قتل جتنا بڑاجرم ہے، یہودی مذہب میں زندگی کی قدر وقیمت انتہائی اہم ہے ،ان کے ہاں خودکشی خدا کی نعمتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
ہمارے دین خودکشی کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟

قرآن مجید میں ارشاد ہے’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے ‘‘۔
حدیث نبویﷺ ہے
’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شحض کا جنازہ بھی نہیں پڑھایا۔ یہ جان اللہ کی امانت ہےاور اسے ختم کرنے کا انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ جو کوئی ایسا کرتا ہے تو حدیث میں بہت سخت وعید آئی ہے۔

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا"
(صحیح بخاری )

ایک اور حدیث میں آتا ہے" جس نے دنيا ميں اپنے آپ كو كسى چيز سے قتل كيا اسے قيامت كے روز اسى كا عذاب ديا جائيگا "
(صحیح بخاری )



مصر کی قدیم یونیورسٹی جامعہ الازہر نے 2011میں فتویٰ جاری کیاتھا کہ اسلام کسی بھی مقصد کے لیے خودکْشی کی اجازت نہیں دیتا، شریعت میں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں کہ انسان اپنے غم و غْصے کے اظہار کے لیے اپنے جسم کو روح سے علیحدہ کر دے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں خودکشی جرم تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کی سزا ایک سال قید یا جرمانہ ہے۔

اس قدر سخت عذاب کی وعید کے باوجود لوگ اپنی جان لے کر غموں سے نجات چاہتے ہیں حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ گویا کہ
اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟

ہمارے معاشرے میں خودکشی کا رحجان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ 10 ستمبر دنیا بھر میں خودکشی سے بچاو کے اقدامات کے دن طور پر اور اس حوالے سے آگاہی پھیلانے میں صرف کیا جاتا ہے۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق 45% افراد کا کہنا تھا کہ ان کے اردگرد یا تو ایسا واقعہ ہوا یا کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی۔ خودکشی کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔ ان میں ذہنی دباو ایک بڑی وجہ ہے۔ کچھ سال قبل ایک شخص نے حرم میں بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لیں۔ اس کی ذہنی ابتری کا کیا عالم ہو گا کہ جس جگہ دلوں کی کثافتیں دھلتی ہیں وہاں بھی نہ دھل سکیں۔ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا فرمایا کہ یہ جہنمی ہے صحابہ کرام کو بے حد تعجب ہوا کہ یہ تو نہایت بہادری سے لڑا ہے اور کتنے زخم بھی کھا چکا ہے۔ کچھ دیر نا گزری تھی کہ اس کے لئے اپنی تکلیف سے تنگ آ کر تلوار کھڑی کی اور اس پر گر کر خودکشی کر دی۔اس موقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بےشک اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے"

خودکشی کی مزید وجوہات میں بیماری، زیادتی، خوف، روایات یا مذہب سے دوری ہو سکتی ہیں۔
کہا یہ جاتا ہے کہ اگر کوئی مذاق میں بھی خودکشی کرنے کی بات کریے تو اس میں اسکا رحجان پایا جاتا ہے۔ اپنے اردگرد رہنے والے افراد کا خیال رکھا جانا چاہیئے۔ اسے بروقت مدد دیں تاکہ وہ اپنی دنیا و آخرت تباہ کرنے والا نہ ہو۔
 
Top