ناز خیالوی ""مر بھی جاؤں اگر حسرتِ دیدار کے ساتھ"" ناز خیالوی

مر بھی جاؤں میں اگر حسرتِ دیدار کے ساتھ
لگ کے بیٹھوں گا نہ لیکن تیری دیوار کے ساتھ

خون پلایا، ہے کھلایا ہے جگر تیری قسم
ہم نے پالا ہے ترے غم کو بڑے پیار کے ساتھ

بے نواؤں کے مقدر میں ہے رُلتے پھرنا
کبھی گھر بار کی خاطر، کبھی گھر بار کے ساتھ

سر جھکایا ہے نہ دستار اترنے دی ہے
یہ الگ بات کہ سر کٹ گیا دستار کے ساتھ


کر دیا شدتِ احساس کے کھائل مجھ کو
جھک بھی جاتا ہے شجر کثرتِ اثمار کے ساتھ

برف کہسار کی چوٹی سے ہے یوں لپٹی ہوئی
جیسے مٹیار جڑی بیٹھی ہو مٹیار کے ساتھ

راز دار اپنا ہواؤں کو بنانا نہ کبھی
دوستی ان کی ہے ہر کوچہ و بازار کے ساتھ

پارساؤں کا تو کچھ ٹھیک سے معلوم نہیں
رحمتیں حق کی یقیناََ ہیں گنہگار کے ساتھ

وہی انداز، وہی ناؔز، وہی طور سبھی
کتنا ملتا ہے وہ ظالم مرے اشعار کے ساتھ

نازؔ خیالوی​
 
آخری تدوین:
Top