مرے بھائی، مرے بچے، تمھیں واپس بھی آنا تھا

نمرہ

محفلین
اپنے بے حد مردہ ضمیر کا بوجھ اتارپھینکنے کے لیے۔ میرا خیال ہے کہ پشاور کی نوعیت کے سانحوں کے بعد متحد ہونے ، بدلہ لینے،منہ توڑ جواب دینے وغیرہ وغیرہ کے دعوی جات ،بے کار ہوتے ہیں اور چار دن میں گرد کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ باقی رہ جاتا ہے صرف ایک دائمی سوگ، تھوڑے سے لوگوں کے لیے۔

مرے بھائی، مرے بچے، تمھیں واپس بھی آنا تھا
مجھے احوال سارا اپنے پرچے کا سنانا تھا
ابھی تو خواب حیرت سی ہماری زندگانی تھی
ابھی لمحے سنہرے تھے، ابھی تو رت سہانی تھی
ابھی مل کر ہمیں سارا جہاں تسخیر کرنا تھا
بگڑنا تھا ہمیں تھوڑا ، بہت سارا سنورنا تھا
ابھی آنکھوں میں امیدوں کے جگنو جگمگاتے تھے
سنا کر اپنے قصے تم مجھے کتنا ہنساتے تھے
تمھیں واپس جب آنا ہے تو پھر کیا آ نہیں پاتے؟
میں رستہ دیکھتی رہتی ہوں لیکن تم نہیں آتے
سنا ہے تم کہیں مٹی تلے خاموش سوتے ہو
معافی دے بھی دو مجھ کو، خفا کیوں اتنا ہوتے ہو؟
مرے افکار مردہ ہیں، مری آنکھیں سوالی ہیں
نظر آتے ہو تم لیکن یہ پیکر سب خیالی ہیں
میں سارے فلسفے، حرف تسلی سب جلا ڈالوں
کوئی رستہ ہو جس سے وقت کا لکھا مٹا ڈالوں
کوئی یہ کہہ رہا تھا ، اب کبھی واپس نہ آؤ گے
نری بکواس ہے یہ، تم بھلا مجھ کو ستاؤ گے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
واقعی ۔ یہ ایک دائمی سوگ ہے جو رہے گا، لیکن صرف براہِ راست حدف بننے والے گھرانوں کا۔

باقی دنیا اپنی زندگی جینے کی کوشش کرے گی جب تک کوئی نئی دل دہلا دینے والی بات نہیں ہوتی۔ پھر وہی باتیں، تجاویز ، اختلافات، تو تو میں میں۔ بے اختیار لوگ کر ہی کیا سکتے ہیں ایک دوسرے کا گریبان چاک کرکے شاید کچھ دل کی تسلی ہو جاتی ہے۔

کلام اچھا ہے۔ لیکن لفظ بھی کیا کریں کہ ایسے میں لفظ مداوا نہیں بن سکتے بس درد سے نڈھال دل کو کروٹیں دلانے کی مانند ہیں کہ قرار نہ ایسے آنا ہے نہ ویسے۔
 

سلمان حمید

محفلین
"ابھی مل کر ہمیں سارا جہاں تسخیر کرنا تھا"

ایک ایک بچہ ہمارا مستقبل تھا۔ ایک ایک بچہ ہمارا بہترین کل تھا :( الفاظ ختم ہو جاتے ہیں، ذہن اس قیامت کا خاکہ کھینچنے سے قاصر ہے اور جن پر گزری ہے ان کے بارے میں کوئی کچھ کیسے لکھے :(
 
کسی کا اکلوتا بچہ شہید ہوجائے تو مجھے تو اتنا بھی دکھ جتنا مجھے اپنے مرغی کے بچے کے مرنے کا ہوتا ہے، بس میں نے چند جملے رٹے ہوئے ہیں، "مجھے بہت دکھ ہوا" میں آپ کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں" وغیرہ وغیرہ" میرا ٹی وی چلتا رہتا ہے، میرے سارے کام جوں کے توں چلتے رہتے ہیں، مجھے کیا فرق پڑتا ہے، اس وقت تک جب تک کہ مرے اپنے گھر میں کوئی حادثہ نہ ہو جائے، پاکستان میرا گھر تو ہے نہیں یہ جائے بھاڑ میں۔ سب مرتے ہیں مر جائیں ، میں تو زندہ ہوں نا بے حس بے غیرتوں اور بزدلوں کی طرح۔ لعنت ہے میری ایسی زندگی پر جو صرف میرے اپنے مفادات کے لئے ہے۔
 
Top