مروجہ جہیز ایک لعنت ۔

سارہ خان

محفلین
جہیز ایک لعنت ہے

شادی کے موقع پر بیٹی کو رخصت کرتے وقت اس کے ساتھ تحفے کے طور پر کچھ سازو سامان دینا جہیز کہلاتا ہے ۔۔ تحفے کا لین دین آپس میں محبت، ہمدردی اور مدد کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے ۔۔ پر اگر وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر یا مجبوری کے تحت دیا جائے تو محبت کے بجائے اختلافات اور بہت سے مسائل کا سبب بن جاتا ہے جیسے کہ آج کل جہیز دینا ، جو کہ کسی ہمدردی محبت یا مدد کے تحت نہیں بلکہ محض ایک رواج کے پورا کرنے کے لئے دیا جاتا ۔۔ یہ ان غریب والدین کے لئے بہت بڑا بوجھ ہے جو کہ جہیز دینے کی حیثیت نہیں رکھتے ۔۔ جہیز کی یہ قبیح رسم معاشرے کے لئے ایک لعنت بن چکی ہے ۔۔ جس سے معاشرے ہر بہت زیادہ منفی اثرات پڑ رہے ہیں جیسے کہ :

لڑکی کی شادی میں رکاوٹ :-

معاشرے مین جہیز کی مکروہ روایت کی وجہ سے بیٹیاں بیاہنا آج کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ کہنے کو تو ہر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو دنیا کی ہر خوشی دیں اور اسکی ہر خواہش پوری کریں، لیکن جب بیٹی کی شادی کا وقت آتا ہے تو یہ دنیاوی دکھاوا ان کے گلے پڑ جاتا ہے۔ ایک اچھے جہیز کی تمنا لئے لڑکے کے والدین ان لڑکیوں کی شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں ۔۔ جن کے والدین اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز دینے کی فرمائش پوری نہیں کر پاتے -

کم جہیز ملنے پر لڑکی کے ساتھ سسرال والوں کا سلوک :-

اگرکوئی والدین اپنی حیثیت کے مطابق کچھ جہیز بیٹی کو دیتے ہیں جو کہ لڑکے والوں کی تمناؤں پر پورا نہیں اترتا تو بیٹی کو ساری زندگی سسرال کے طعنے سسنے پڑتے ہیں کم جہیز لانے کے اور برے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔۔ جس سے وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہے ۔۔ اور والدین بھی بیٹی سے شرمندہ ہی رہتے ہیں کہ اس کی خوشیوں کو پورا نہیں کر سکے ۔۔ اکثر والدین صرف اس ہی ڈر سے بیٹیوں کے لئے کسی بھی صورت چاہے ان کو کسی کا قرضدار ہونا پڑے جہیز کا انتظام کرتے ہیں کہ اگر نہ دیا تو لڑکی سسرال کے طعنوں کا شکار ہو گی۔

غریب والدین پر بوجھ :-

جہیز کی رسم نے ان غریبوں کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے جو خود دو وقت کی روٹی کے متلاشی ہیں نتیجتاً ان کی معصوم بیٹیاں گھر میں بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کے غریب والدین اپنی بیٹی کو بیاہنے کی تمنا دل میں لئے آخر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔

دنیاوی دکھاوا اور اسراف زر :-

جو والدین جہیز دینے کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے جہیز کی رسم کو دنیا دکھاوے اور دولت کی نمائش کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔۔ اور لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی جہیز دینے کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ جس سے معاشرے میں اسراف زر کا اضافہ ہو گیا ہے۔

رقم کے حصول کے لئے غلط ذرائع کا استعمال :-

جہیز کی مکروہ رسم کی وجہ سے غریب آدمی کے لئے بیٹی کی شادی بہت بڑی مصیبت بن گئی ہے وہ جہیز کی مطوبہ مقدار پوری کرنے کے لئے جائز و نا جائز طریقے استعمال کرتا ہے حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر پیسہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے معاشرے پر بہت سے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

جہیز کی شرعی حیثیت :-

شریعت میں جہیز دینے کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شادی کے وقت کچھ سامان مثلاً : چکی ، پانی کا برتن اور تکیہ وغیرہ دیا تھا ۔۔ جو کہ نئے سرے سے گھر بنانے کے لئے بنیادی وسائل تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی بیٹیوں کے متعلق ایسی کوئی روایت نہیں ملتی ۔ لہذا اگر لڑکا بہت زیادہ غریب ہو کہ گھر کا ضروری سامان خریدنے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں لڑکی کے والدین اگر اس کے ساتھ مالی تعاون کرنا چاہیں تو حرج نہیں بلکہ باعثِ ثواب ہے لیکن آجکل کے دور میں رائج جہیز کسی بھی صورت جائز نہیں -

ہماری ذمہ داری :-

موجودہ دور میں جہاں تعلیم عام ہوتی جا رہی ہے لوگوں میں شعور آتا جا رہا ہے پر پھر بھی جہیز کی لعنت بڑھتی ہی جا رہی ہے باوجود اس کے کہ سب سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا عمل نہیں ہے۔ معاشرے کو جہیز اور اس جیسی بری لعنتوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے تا کہ اس قبیح رسم کی وجہ سے کوئی بیٹی بن بیاہی نہ رہ جائے اور کوئی غریب باپ اس بات کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہو جائے کہ وہ بیٹی کی شادی کا فرض پورا نہ کر سکا- اس سلسلے میں سب سے زیادہ کردار لڑکے اور اس کے والدین کا بنتا ہے کہ وہ لڑکی والوں کو جہیز دینے سے سختی سے منع کریں۔ حکومت وقت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس برائی کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے ۔
 
Top