مرنے والا کون تھا؟ عطاءالحق قاسمی

آصف اثر

معطل
وہ میرے ایک ایسے دوست تھے جن کا اصلی نام مجھے ان کی وفات کے روز معلوم ہوا۔
قیام پاکستان کے بعد وہ مہاجرین کی بحالی کے محکمے میں ملازم تھے انہوں نے ہندوستان بھر سے آئے ہوئے مہاجرین کی بحالی کے لئے دن رات محنت کی مگر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود صرف اپنے معاشی حالات بحال کر سکے۔ انہوں نے کئی فیکٹریاں، مکانات اور دکانیں اپنے اور اپنے جاننے والوں کے نام الاٹ کرائیں اور پھر ایک وقت آیا کہ ان کا شمار شہر کے رئوسا میں ہونے لگا۔ انہوں نے پائپ پینا شروع کردیا، فرفرانگریزی بولنے لگے۔ دو السیشن کتے بھی پال لئے، گھر پر مخلوط پارٹیوں کا اہتمام ہونے لگا۔ انہوں نے اپنے ڈرائنگ روم میں ایک کونے میں بہت خوبصورت بار بھی بنایا جس میں رنگ برنگے مشروب سجے ہوتے تھے۔ ان کی گھریلو پارٹیوں کی شہر بھر میں دھوم تھی۔ اس میں بیورو کریسی کے چیدہ چیدہ افراد بھی شریک ہوتے تھے، مرحوم کو اعضاء کی شاعری سے بھی بہت لگائو تھا چنانچہ ان کی محفلوں میں رقاصائیں بھی فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ مرحوم سوتے وقت سوٹ اور ٹائی اتار دیتے تھے اور دھوتی باندھ لیتے تھے، صبح جب آنکھ کھلتی تھی تو انہوں نے اوپر لی ہوتی تھی، مرحوم پنجابی میں بات صرف اس وقت کرتے تھے جب انہیں کبھی تیزبخار ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ایک بھڑ نے انہیں کاٹا، بے ساختہ ان کے منہ سے پنجابی کی گالی نکلی جس پر وہ کئی دن شرمندہ رہے۔
دراصل وہ گالی بھی انگریزی زبان میں دیتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ گالی دینے کا مزہ بھی انگریزی زبان میں آتا ہے۔ جب کہ پنجابی کے اہل زبان دوست ان سے اس مسئلے پر شدید اختلاف رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ گالی میں انگریزی کا پنجابی سے کوئی مقابلہ نہیں۔ مرحوم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ایک بیٹا امریکہ میں دوسرا کینیڈا میں مقیم تھا۔ بیٹی آکسفورڈ میں پڑھتی تھی وہاں اس نے اپنے ایک انگریز بوائے فرینڈ سے شادی کرلی اور پھر وہ بھی وہیں کی ہو رہی۔ مرحوم خود بھی برٹش نیشنل تھے اور اس پر بہت فخر کرتے تھے۔ وہ مجھ سے اکثر کہتے ’’میں غلطی سے برصغیر میں پیدا ہوگیا ہوں ورنہ اصلاً میں انگریز ہوں۔‘‘ تاہم اس انگریز کے والد ماجد کا پتہ نہیں چل سکا۔ مرحوم گرمیاں انگلینڈ میں ہی گزارتے تھے مگر وہاں رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے وہاں کام کرنا پڑتا ہے تاہم بچے انہوں نے اوائل عمری میں ہی باہر بھیج دیئے تھے جو گوروں کے علاقے میں رہتے تھے اور انہیں ہدایت کر رکھی تھی کہ کبھی کسی پاکی سے نہ ملیں اگر کوئی سرراہ بھی ملے تو منہ دوسری طرف پھیر لیں۔ البتہ موصوف لاہور میں اپنی چھ کینال کی کوٹھی میں ایک بیوی اور دو کتوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بیوی اکثر اپنے بیٹوں اور بیٹی کے پاس امریکہ، کینیڈا یا انگلینڈ گئی ہوتی اور یوں ان کا زیادہ وقت کتوں کے ساتھ ہی گزرتا۔ یہ کتیّ زندگی انہیں بہت پسند تھی۔ کتے بھی ان کی محبت پسند کرتے تھے کہ یہ کتے بھی تو مردم شناس تھے۔
ایک رات ایک ڈنر کے دوران ان کی طبیعت خراب ہوگئی یہ ڈنر ان کے ایک نیک طینت دوست کی طرف سے تھا۔ مرحوم اس قماش کے لوگوں سے نہیںملتے تھے اس دوست سے روابط رکھنا ان کی ضرورت تھی کہ وہ کئی جائز کاموں میں ان کے مدد گار ثابت ہوتے تھے۔ طبیعت خراب ہونے کی غالباً وجہ یہ تھی کہ اس روز ان کے پیٹ میں رزق حلال کے چند لقمے چلے گئے تھے، میں نے انہیں منع بھی کیا اور کہا کہ یہ خوراک آپ کو سوٹ نہیں کرتی مگر باز نہ آئے چنانچہ گھر واپس پہنچ کر اپنے فیملی ڈاکٹر کوبلایا۔ اس نے انہیں دوا لکھ کر دی اور آرام کرنے کے لئے کہا۔ ان کی بیوی اپنے بیٹے کے پاس کینیڈا گئی ہوئی تھی گھر میں صرف دو کتے تھے یا ملازمہ تھی جو اپنے کوارٹر میں جا کر سو گئی تھی۔ رات گئے جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ملازم کو جگایا کہ جا کر خالہ جنتے کو بلالائو جو اندرون بھاٹی گیٹ رہتی تھی اور جس کا ٹیلیفون بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے تین ماہ سے کٹا ہوا تھا ۔ خالہ جنتے کا اول نام جنت بی بی تھا اور وہ مرحوم کی سگی خالہ تھی اور ایسے ہی وقتوں کے لئے رکھی ہوئی تھی، شٹل کاک برقع میں ملبوس خالہ جنتے نے گھر میں داخل ہوتے ہی بین ڈالنا شروع کردیئے جس سے موصوف کی حالت اور خراب ہوگئی۔
صبح چھ بجے کے قریب ان کی آنکھیں بند ہونا شروع ہوئیں، انہوں نے حسرت سے درویوار پر ایک نظر ڈالی اور پھر جیزز کرائسٹ کہہ کر اپنے سینے پر ہاتھوں سے کراس کا نشان بنایا جس پر جنتے خالہ نے شفقت سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور کہا پتر کلمہ پڑھ۔ دراصل ان کی کراس والی حرکت بلا ارادہ تھی ان کے کان میں کلمہ کی آواز پڑی تو ان کے ہونٹ ہلتے نظر آئے، انگریزی میں وہ کلمہ پڑھ رہے تھے۔
.There is no God but Allah and Prophet Muhammad is his messenger​
خالہ جنتے نے سورۃ یٰسین پڑھنی شروع کردی اور یوں مرحوم کو یقین ہوگیا کہ ان کا آخری وقت آ پہنچا ہے، سو انہوں نے ایک ہچکی لی اور اللہ کوپیارے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر خالہ جنتے کے ہاتھ پائوں پھول گئے اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ مدد کے لئے کسے بلائے ۔ کتے صرف بھونک سکتے تھے اور وہ بھونک رہے تھے کیونکہ ان کا صاحب صبح اٹھتے ہی ان کے ناشتے کا بندوبست کرتا تھا اور ناشتے میں دیر ہو رہی تھی اتنے میں دروازے پر بیل ہوئی، خالہ جنتے دوڑی دوڑی دروازے تک گئی۔ وہاں مرحوم کے ایک دوست راجہ ہیبت خان ہاتھ میں چھتری پکڑے کھڑے تھے وہ دونوں صبح کی سیر کے ساتھی تھے۔ انہیں حالات کا پتا چلا تو اندر آئے اور مرحوم کی ٹیلیفون ڈائری میں سے ان کے دوستوں کے نمبر تلاش کرنے لگے، ان میں میرا نام سرفہرست تھا سو انہوں نے مجھے یہ افسوسناک خبر سنائی اور فوراً آنے کے لئے کہا۔
میں نے ان کے گھر پہنچتے ہی امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ فون ملانے شروع کئے تاکہ ان کے بیوی بچوں کو اس مرگ ناگہانی کی اطلاع دے سکوں۔ میں نے کینیڈا فون ملایا تو ان کےبیٹے کی کینیڈین بیوی فون پر ملی۔ اس نے فون جینی کو تھما دیا جو کینیڈا میں جنید سے جینی بن گیا تھا۔ اس نے خبر سن کر اپنے باپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا He was a great manاور بتایا کہ وہ اپنی پیشگی مصروفیات کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہیں کرسکے گا اس نے مجھے کہا آپ پاپا کو دفن کردیں ہمیں آپ پر اعتماد ہے۔ بیٹی اپنی مام کے ساتھ سوئٹزر لینڈ اور بیٹی کا انگریز شوہر ایک میٹنگ میں شرکت کےلئے بلجیئم گیا ہو ا تھا چنانچہ اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔ البتہ مرحوم کے دوسرے بیٹے جون سے امریکہ میں رابطہ ہوا تو یہ اندوہناک خبر سن کر وہ سکتے میں آگیا۔ اسے اپنے پاپا سے بہت پیار تھا۔ اس نے غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا انکل آپ پلیز پاپا کی آخری رسومات کی نگرانی خود کریں، سارے اخراجات میں ادا کروںگا مگر فی الحال میرا آنا ممکن نہیں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ پوری فیملی میں سے کم از کم ایک فرد کی موجودگی بہت ضروری ہے کہ پراپرٹی کے مسئلے بھی حل کرنے ہیں تو اس نے فوراً حامی بھر لی اور دوسرے روز لاہور پہنچ گیا۔ خوشی قسمتی سے اسے پہلی فلائٹ مل گئی تھی۔
اس دوران مرحوم کی وفات حسرت آیات کی خبر ان کے دوستوں کے علاوہ ان کے غریب غرباء قسم کے رشتے داروں کوبھی مل گئی تھی چنانچہ ماسی رحمتے، اس کا خوانچہ فروش شوہر بھولا سیٹی، پھوپھی زینب اس کا شوہر طیفا ترکھان اور اسی طرح کے دوسرے عزیز و اقربا میت کے پاس کھڑے تھے۔ مرحوم نے انہی لوگوں سے لاتعلقی ظاہر کرنے کے لئے اپر کلاس کا لائف اسٹائل اپنایاتھا مگر یہ لوگ مرحوم کا بھرم ختم کرنے پرتلے ہوئے تھے اور خالص عوامی انداز میں بین کررہے تھے۔ مرحوم کے
دوست باہر لان میں بیٹھے ملکی حالات پر اس انداز میں تبصرہ کر رہے تھے جیسے لاتعلق لوگ کرتے ہیں۔ جون کافی پریشان لگ رہا تھا اس کا سارا بچپن اور جوانی گوروں کے درمیان گزری تھی وہ وہاں کبھی کسی پاکستانی سے نہیں ملا تھا اور نہ ہی کبھی پاکستان آیا تھا چنانچہ وہ بین ڈالتی عجیب و غریب مخلوق کو دیکھ کر سخت نروس ہورہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا’’ انکل یہ کون لوگ ہیں؟‘‘۔ میں نے کہا جون ڈیئر! یہ تمہارے چاچے، تائے، پھوپھییاں اور ماسیاں ہیں۔ اس نے پوچھا یہ کیا ہوتے ہیں، میں نے اسے انگریزی میں ان رشتے داروں کے رشتوں کی نوعیت بتائی تو اسے میری بات سمجھ آئی مگر اسے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ لوگ میت کےپاس کھڑے ہو کر گانے بھی گا رہے ہیں اور رو بھی رہے ہیں۔ میں نے اس کے پوچھنے پر بتایا کہ یہ گانے نہیں گا رہے بلکہ ترنم میں بین ڈال رہےہیں۔ یہ سن کر وہ چپ ہوگیا وہ ابھی تک کمرے میں رکھی اپنے پاپا کی میت کے پاس نہیں گیا تھا میں اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے گیا اس نے میت کے احترا م میں کھڑے ہو کر ایک منٹ کی خاموش اختیار کی اور پھر باہر آگیا۔ باہر آ کر اس نے پوچھا پاپا کو دفنانا ہے یا جلانا ہے۔ میں نے کہا جونی تمہارے پاپا مسلمان تھے اور مسلمانوں کو دفنایا جاتا ہے۔ یہ سن کر اس نے ایک لمبا سا ’’اوکے‘‘ کہا اور پھر پوچھا آپ نے آخری رسومات کے لئے کسی کمپنی کو آرڈر دے دیا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ یہاں فی الحال اس کا رواج نہیں ہے۔ یہ سب کام مرحوم کے اعزاز و اقربا خود کرتے ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا۔
میں نے قریبی مسجد کے مولوی صاحب کو فون کیا کہ وہ کسی غسال کو بھیج دیں۔ نیز ان سے چارپائی اور دوسرے لوازمات بھیجنے کی درخواست بھی کی۔ میں بازار سے کفن خریدنے جانے لگا تو جونی بھی میرے ہمراہ ہوگیا۔ اسے سلے سلائے کفن کے کپڑے کی کوالٹی پسند نہ آئی چنانچہ اس نے ایک مہنگے اسٹور سے Egyptian Cotton خریدی ۔ اب کفن سلانے کا مسئلہ تھا مجھے یاد آیا کہ میرے گھر کے رستے میں ایک غریب بوڑھا درزی ایک کھوکھا نما دکان میں بیٹھا ہے اس کے پاس بہت کم کام ہوتا ہے وہ کفن جلدی سے سی دے گا۔ ہم اس کے پاس پہنچے اس کی بینائی بھی کمزور تھی اور داڑھی اور مونچھوں کے علاوہ اس کی بھنویں بھی سفید ہوگئی تھیں۔ اس کی کمر خمیدہ ہو چکی تھی، میں نے اسے کپڑا دیا اور بابا جی سے پیسوں کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے مجھے غصے سے بھری آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا برخوردار کفن سینے کے پیسے نہیں لئے جاتے۔ جونی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کیا یہ اولڈ مین سنکی ہے۔
بہرحال غسل دینے کا موقع آیا تو غسال کا ہاتھ بٹانے کے لئے طیفا ترکھان اور رفیق سیٹی آگے بڑھے انہوں نے جونی کوبھی اپنے ساتھ شریک ہونے کے لئے کہا مگر جونی نے مجھے مخاطب کیا اور بیزاری سے کہا۔ یہ ان ہائی جینک کام ہے، آئی ایم سوری۔ غسل کے بعد طیفا ترکھا ن اور رفیق سیٹی جب بھی جونی کو دلا سا دینے کے لئے اسے پیار کرنے کی کوشش کرتے وہ اچھل کر پرے کھڑے ہو جاتا۔ اس کے بعد کئی مشکل مرحلے آئے جن میں ایک نماز جنازہ کے وقت صفوں کی تعداد کا مسئلہ بھی تھا، مگر شکر ہے یہ بخیر و خوبی حل ہوگیا۔ قبر کاسائزچیک کرنے کے لئے جب رفیق سیٹی خود قبر میں لیٹ گیا تو جونی کی آنکھیں خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس طرح قبرستان سے واپسی پر جب اس نے گھر کے باہر دیگیں کھڑکتی دیکھیں تو وہ ایک بار پھر پریشان ہوا اور پوچھا یہ دیگیں کن کے لئے پک رہی ہیں، میں نے کہا ان غم خواروں کے لئے جنہوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ جونی نے پوچھا یہ اپنے گھر جا کر کیوں نہیں کھاتے ۔ میں نے جواب دیا یہ بھی انہی کا گھر ہے اب یہ دسواں ہونے تک آتے جاتے رہیں گے۔
یہ کہانی بہت طویل ہے، قصہ مختصر یہ کہ قبرستان سے واپس آتے ہی جونی نے اپنے بھائی بہن اور مام سے امریکہ اور سوئٹزر لینڈ میں مرحوم کی پراپرٹی کے بارے میں بات کی اور پھر وکیل کو بلوا کر کاغذات تیا ر کرائے وہ تو اسی روز واپس اپنے وطن جانا چاہتا تھا مگر میرے اصرار پر وہ قلوں تک رک گیا ، اگلے روز ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے پہلے اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا I love my pupaآپ ان کے دوست ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہر کرسمس پر ان کی قبر پر پھولوں کی چادر ضرور چڑھائیں گے۔ اس پر میں نے اسے کرسمس اور عید کا فرق بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اور آخری بات ! مرحوم کو دفنانے سے پہلے جب اس کے ایک چچا زاد بھائی نے رسم دنیا کے مطابق اعلان کیا کہ اگر مرحوم نے کسی سے کوئی قرض لیا تھا تو بتا دے تاکہ انہیں دفنانے سے پہلے وہ قرض ادا کردیا جائے۔ اس پر طیفا ترکھان نے کہا ’’فیقے نے بہت عرصہ قبل مجھےسے سائیکل خریدنے کے لئے پیسے ادھار لئے تھے، وہ میں معاف کرتا ہوں۔
مجھے اس روز پتہ چلا کہ اس کا نام محمد رفیق تھا اور اس کی امارت سے پہلے سب اسے فیقا فیقا کہتے تھے۔

ادارتی صفحہ - مرنے والا کون تھا؟ - Today's Paper | Daily Jang
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
مرحوم کی وفات کے ذکر سے پہلے پہلے کے کالم میں طنز کچھ زیادہ ہی ہے جس سے خود بخود دھیان لکھنے والے کی اپنی پارسائی کی طرف جاتا ہے۔

وفات کے بعد کا کالم عبرت ہی عبرت ہے۔ جو لوگ اپنی اصل سے کٹ کر رہتے ہیں اُن کا انجام اس سے مختلف نہیں ہوتا۔

آخری وقت میں کلمے اور کراس کے حوالے سےدیے گئے بیان میں کافی مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے تاہم انگریزی میں ہی سہی کلمہ طیبہ کا پڑھ لینا ایک مثبت واقعہ ہے۔
 

آصف اثر

معطل
حوم کی وفات کے ذکر سے پہلے پہلے کے کالم میں طنز کچھ زیادہ ہی ہے جس سے خود بخود دھیان لکھنے والے کی اپنی پارسائی کی طرف جاتا ہے۔
نقد کا اچھا نکتہ اُٹھایا ہے۔
وفات کے بعد کا کالم عبرت ہی عبرت ہے۔ جو لوگ اپنی اصل سے کٹ کر رہتے ہیں اُن کا انجام اس سے مختلف نہیں ہوتا۔
چوں کہ کالم کا مرکزی خیال ہی یہ ہے لہذا اس پر ہمیں مشاہیرِ محفل کی رائے کا شدت سے انتظار ہوگا۔
محترمین محمد یعقوب آسی صاحب الف عین صاحب محمد وارث صاحب محمد خلیل الرحمٰن صاحب نیرنگ خیال محمد تابش صدیقی محمد اسامہ سَرسَری فرقان احمد اور دیگر محفلین۔

آخری وقت میں کلمے اور کراس کے حوالے سےدیے گئے بیان میں کافی مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے تاہم انگریزی میں ہی سہی کلمہ طیبہ کا پڑھ لینا ایک مثبت واقعہ ہے۔
میرے خیال میں یہاں انگریزی میں کلمے کا ذکر بطور طنز کیا گیا ہے کیوں کہ اُس وقت پاس میں ایک ایسی خاتون کھڑی تھی جو انگریزی سے قطعی نابلد تھی لہذا اس کا اس طرح کے الفاظ نقل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ جب کہ مرحوم حرام کی کمائی بھی بےدھڑکے کھاتاآرہا تھا جس کا ذکر پہلے پیراگراف میں ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی طرز زندگی اور بچوں کے انجام سے بھی لگایا جاسکتاہے۔ باقی واللہ اعلم۔ اللہ اس کی بخشش فرمائے۔
 
اسلام آباد میں دو واقعات کافی مشہور ہوئے۔
ایک ریٹائرڈ سیکرٹری، جن کی اولاد باہر تھی۔ جب ایک ہفتہ تک نظر نہ آئے، تو محلے والوں کو تشویش لاحق ہوئی، گھر کا دروازہ توڑ کر جب گھر میں داخل ہوئے تو ان کی لاش تعفن زدہ ہو چکی تھی۔ اولاد سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ لوگ دفنا دیں۔

اسی طرح ایک ایلیٹ علاقہ میں ایک سابق افسر کا بیٹا قریبی مسجد کے مولوی صاحب کو بلا کر لایا۔ اپنے والد کی لاش باہر ایک چارپائی پر رکھی ہوئی تھی، اور کہا کہ آپ لوگ انھیں لے جا کر جنازہ پڑھا کر دفنا دیں۔ خرچہ پانی کی فکر نہ کریں۔

اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے۔ آمین
 

محمداحمد

لائبریرین
میرے خیال میں یہاں انگریزی میں کلمے کا ذکر بطور طنز کیا گیا ہے کیوں کہ اُس وقت پاس میں ایک ایسی خاتون کھڑی تھی جو انگریزی سے قطعی نابلد تھی

اس طرح کی بات بطورِ طنز کہنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔میرے حساب سے اسے دروغ گوئی میں شمار کیا جائے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہر تہذیب و ثقافت میں خوشی اور غم کے معیار اور اِن کے اظہار کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ اِس کالم میں مبالغے کا رنگ کچھ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر معاملات واقعی اِس نہج تک پہنچ چکے ہیں تو انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ تابش بھائی نے دو واقعات کا ذکر کر کے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے۔ اللہ رحم کرے۔
 

آصف اثر

معطل
عطاء الحق قاسمی صاحب کے کالم کو غالباً صحافتی اور ادبی میدان میں حق وباطل کے بیانیے سے زیادہ معاشرتی اور ملکی مسائل پر ڈھکی چھپی طنزومزاح کرنے کے حوالے سے جانا جاتاہے۔
پھر بھی احتیاط بہرحال لازم ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عطاء الحق قاسمی صاحب کے کالم کو غالباً صحافتی اور ادبی میدان میں حق وباطل کے بیانیے سے زیادہ معاشرتی اور ملکی مسائل پر ڈھکی چھپی طنزومزاح کرنے کے حوالے سے جانا جاتاہے۔
پھر بھی احتیاط بہرحال لازم ہے۔

باقیوں کو تو پھر بھی چھوٹ ہوتی ہے لیکن مزاح نگار وہ بھی اتنے سینئر مزاح نگار کے کالم اگر عدم توازن کا شکار ہو ں تو اسے معیوب ہی سمجھا جائے گا۔
 
ہر تہذیب و ثقافت میں خوشی اور غم کے معیار اور اِن کے اظہار کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ اِس کالم میں مبالغے کا رنگ کچھ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر معاملات واقعی اِس نہج تک پہنچ چکے ہیں تو انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ تابش بھائی نے دو واقعات کا ذکر کر کے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے۔ اللہ رحم کرے۔
ایسے واقعات کا تناسب ابھی بہت کم ہے، اور ایک خاص طبقہ میں ہی نظر آتا ہے۔
 
Top