مردوں کی مسیحائی ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

بافقیہ

محفلین
مُردوں کی مسیحائی۔ ۱
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
گمراہی کی سیاہ چادر

انسان زندہ بنایا گیا ہے،لیکن یہی زندہ کبھی مُردہ بھی ہوجاتا ہے۔ دنیا روشن پیدا کی گئی ہے، لیکن یہی روشنی کبھی تاریکی میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے،روئے زمین کے مختلف حصوں میں بڑے بڑے ہادی و رہنما آئے اور گزر چکے لیکن اب ایک مدت سے دنیا، ان کی ہدایتوں سے محروم ہے۔ بارش اپنے موسم میں زمین کو سیراب کرچکی تھی، لیکن اب جلتی اور تپتی ہوئی زمین کو ہونٹوں پر پیاس سے خشکی کی پٹپریاں جمی ہوئی ہیں۔ آخری نبی حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ کو ساڑھے پانچ سو سال کی مدّت گزر چکی ہے، اور اب سطح زمین نورانیت کے فیض سے یکسر محروم ہے۔ دن کی روشنی چھپ چکی ہے، اور عالم انسانیت پر رات کی سیاہی چھائی ہوئی ہے۔کسی ایک ملک کی تخصیص نہیں،آفتاب کے طلوع ہونیکی جگہ، مشرق اور آفتاب کے غروب ہونے کی جگہ مغرب، سب گمراہی و سرگشتگی کی اسی سیاہ چادرمیں لپٹے ہوئے ہیں۔ بحر وبر، شرق وغرب، عرب وعجم سب کی روحانی زندگی موت سے ظَہَرَ الفَسَادُ فِی البَرِّ وَالبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْ النّاسِ (روم:۵) تبدیل ہو چکی ہے اور کائنات انسانی کی ساری فضاء شقاوت و نفس پرستی، بدی و بدکاری،شرارت و نفاق کے گہرے بادلوں سے سیاہ ہورہی ہے۔

محروم عرب
یہ حال سارے عالم انسانیت کا ہے، لیکن براعظم ایشیاء کے جنوب ومغرب کا وہ حصہ جو عرب کے نام سے موسوم ہے،اس عموم میں ایک خصوص رکھتا ہے۔ یہ سرزمین جس طرح مادی حیثیت سے بنجر ہے، شاید اسی طرح اب تک فطرت کی روحانی بارشوں اور بخششوں سے بھی محروم ہے۔ اس کی تباہ کاریاں اورتیرہ بختیاں سارے عالم کے لئے نمونہ عبرت ہیں۔ بیمار کل دنیا ہے،لیکن عرب کا مریض دق میں مبتلا ہے۔ خشک سالی سب کہیں ہے، لیکن یہاں قحط شدید پڑا ہوا ہے۔ اسکی اخلاقی پستی حد سے گزر چکی ہے، اس کی روحانی بیماریاں تقریباً لا علاج ہو چکی ہیں، اس کی سرکشی وتباہ کاریاں، خودپرستی اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقاً وَّاَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ َما اَنْزَلَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ ( توبہ،ع۱۲) خدا فراموشی، عقائد کی خرابی، اعمال کی ابتری، نے اسے اس لا ئق بھی نہیں رکھا ہے کہ کوئی بشری کوشش اصلاح حال میں کامیاب ہوسکے۔ رشد وہدایت، پاک بازی وپاکیزہ خوئی، حسن عمل و نیک کرداری کا کیا ذکر ہے، اب تو اس قوم کی ساری زندگی کا خلاصہ صرف ایک لفظ گمراہی یا ضلالت، میں بیان کیاجا سکتا ہے اور ضلالت بھی کیسی؟ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلِ لَفِیْ ضلَاٰلٍ مُّبِیْنٍ (جمعہ:ع۱) تاویل وتوجیہ کی گنجائش سے ماوراء بالکل واضح وصریح!ساری اصلاحوں کی بنیاد قلب کی صلاحیت پر ہوتی ہے۔قلب میں جب تک نرمی و گداز باقی ہے، اس وقت تک اصلاح حال کی امیدقائم کی جاسکتی ہے، لیکن ان بد نصیبوں کی نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے، کہ ان کے سینوں میں انسانیت کی نرمی اور قلبوں میں آدمیّت کے چشمے خشک ہو چکے ہیں۔ فَہِيَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْاَشَدُّ قَسْوَۃً (بقرہ) اوراس کے بجائے دلوں میں پتھروں کی سی سختی،بلکہ پتھروں سے بھی بڑھ کر سختی پیدا ہوگئی ہے، اور قبول حق کے گویا سارے دروازے انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنے اوپر بند کر لیے ہیں !بدکاریوں اور بدکرداریوں میں مسلسل مبتلا رہتے رہتے، ان کے دل ودماغ، انکی عقل وذہن مسخ ہوچکے ہیں، حقوق وباطل، نیک وبد، نور وظلمت کا فرق ان کی نظروں سے مٹ چکاہے۔ اُوْلئِکَ کَالاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ(اعراف) جانوروں کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، بلکہ اپنی کج فہمی، بے بصری اور تنگ نظری میں جانوروں سے بھی آگے نکل چکے ہیں!

مؤرخین کا بیان
یہ تصریحات اس کتاب پاک کی ہیں، جو ہرقسم کے مبالغہ وافراط سے بالاتر ہے، اور جس کا ایک ایک حرف، صداقت وحقیقت کے اونچے سے اونچے معیار کا نمونہ ہے، تاہم بہتر ہوگا، کہ اس زمانہ کے ’’روشن خیال‘‘ اپنی تشفی کے لئے ’’ محققین فن‘‘ و ’’ماہرین تاریخ‘‘ کے بیانات پر بھی ایک سرسری نظر کرتے چلیں۔

’’دورِ جاہلیت کی سترہ سو جنگیں مشہور چلی آتی ہیں، یہ لڑائیاں اس شدّت عناد کے ساتھ قائم رہتی تھیں جو خانہ جنگیوں کی خصوصیت ہے۔ پشتہا پشت کے کسی بھولے بسرے واقعہ کا نثر یا نظم میں تذکرہ، عداوتوں کے خرمن میں چنگاری بن جانے کے لیے بالکل کافی ہوتا تھا، پھر ہر فرد،اگر نہیں،کم ازکم ہر خاندان تو ضرور اپنے تئیں ہر فیصلہ اور انتقام کا پورا مجاز سمجھتا تھا۔۔۔عورتوں اور داڑھیوں کی توہین بات بات میں نکل آتی تھی۔ کسی نے ذرا بھی بیجاشوخی کی، کسی نے ذرا بھی ہتک آمیز بات کہی پس پھر مجرم کے خون کے بغیر جنگ نہیں فرو ہو سکتی اور کینہ بھی اس بلا کا،کہ مہینوں بلکہ برسوں تک انتقام کا سلسلہ نہیں ختم ہوتا؟‘‘
یہ پہلےالفاظ مشہور مؤرخ رومہ، ایڈورڈگبن کے ہیں۔(تاریخ زوال مملکت رومہ باب ۵۰)

’’ مکہ اور سارے جزیر نمائے عرب پر، ایک بے انداز مدّت سے روحانی موت طار ی چلی آرہی تھی۔یہودیت، مسیحیت اور عقلیت کا دماغ عرب پر کل اتنا ہی اثرہوا تھا، کہ جیسے ایک پر سکون جھیل کی سطح پر کچھ ہلکی موجیں لہرانے لگیں اور نیچے بدستور سکون قائم رہے، یہ لوگ وہم پرستی، شقاوت وبدکاری میں ڈوبے ہوئے تھے، ایک عام دستور یہ تھا کہ بڑے بیٹے کو باپ کی جائیداد کے ساتھ اسکی بیویاں بھی ترکہ میں مل جاتی تھیں۔ جذبہ غرور نیز افلاس کی بناء پر دختر کشی کی رسم بھی ان کے ہاں جاری تھی۔ان کا مذہب شدید بت پرستی تھا۔۔۔۔حشر وجزا کے عقیدہ سے گویا بالکل ناآشنا تھے۔‘‘
’’محمدﷺ کی بعثت سے قبل، عربوں میں مذہبی اصلاح کا ہونا ایسا ہی بعید ازقیاس معلوم ہوتا تھا، جیسا کہ ان کا ملکی وسیاسی حیثیت سے ایک قوم بن جانا۔ دین عرب کی بنیاد بہت گہری بت پرستی پر تھی، جس کی اصلاح کی، مصری و شامی مسیحیت کی جانب سے صدیوں سے کوشش ہورہی تھی اور ہمیشہ ناکامی ہی رہتی تھی۔‘‘
یہ اعتراف سرولیم میورکو کرنے پڑے ہیں۔ لائف آف محمدﷺ، باب۱۲۔نیز مقدمہ الکتاب

’’انسان کی جان لے لینا سرے سے کوئی اخلاقی جرم نہ تھا۔ نہ قتل اتفاقی، قتل عمد کے درمیان کوئی فرق کیا جاتا تھا۔۔۔۔قتل کا انتقام نہ لینا باعث توہین تھا۔۔۔۔شہوت پرستی وبے عصمتی کی گرم بازاری تھی۔ دوسرے کے مال کی حفاظت، پاس وفا، اور عزت کے جذبات کی، عرب جاہلیت میں کچھ قدرنہ تھی۔‘‘
یہ شہادت اس مشہور دشمنِ اسلام کو دینی پڑی ہے، جسے دنیا، آکسفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارگولیس کے نام سے پکارتی ہے۔محمدﷺبسلسلہ سوانح مشاہیر اقوام، باب اوّل

’’مکہّ کے مادّی تجارتی شہر میں غرض پرستی اور سودخوری کا دور دورہ تھا۔ لوگوں کے وقت گزاری کے لیے عورتیں تھیں، شراب تھی، جُوا تھا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کاقانون جاری تھا۔ بیوہ عورتوں، یتیموں اور کمزوروں کا کوئی حق نہ تھا۔۔۔۔اللہ کے نام سے اہل مکّہ ضرور واقف ہوگئے تھے، لیکن اپنی عملی زندگی میں انہوں نے اس سے کوئی سروکار نہیں رکھا تھا، اس لیے کہ خالق کے معنی ان کے نزیک حاکم ومالک کے نہ تھے۔ اپنے نفع ونقصان اور مشرکانہ رسوم کے لیے ان کے سر ہر صنف موجودات کے آگے جھکے ہوئے تھے۔‘‘
یہ تحقیقات، لیڈن یونیورسٹی(ہالینڈ) کے مشہور تازہ ’’ماہرعربیات واسلامیات‘‘ پروفیسر ہرگرونج کی ہیں، جو امریکہ کی یونیوسٹی کے سامنے مخصوص اسی موضوع پر تقریریں کرنے کے لیے مقرر ہوئے تھے۔ ( محمد نزم، باب اوّل)

خلاصہ بیان کو ایک روشن خیال مسلمان کی زبان سے جنھوں نے اپنی قوم کے روشن خیالوں ہی کے لیے سیرت محمدیﷺ پر ایک ضخیم کتاب تالیف فرمائی ہے، سن لینا چاہئے :
’’ بتوں پر آدمیوں کی قربانی چڑھائی جاتی تھی۔ باپ کی منکوحہ بیٹے کو وراثت میں ملتی تھی۔حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ شادی جائز تھی۔ ازدواج کی کوئی حد نہ تھی۔ قماربازی، شراب خواری، زناکاری کا رواج عام تھا، بے حیائی کی یہ حالت تھی، کہ سب سے بڑا نامور شاعر امرءالقیس، جو شہزادہ بھی تھا، قصیدہ میں اپنی پھوپھی زاد بہن کے ساتھ اپنی بدکاری کا واقعہ مزے لے لے کر بیان کرتا ہے اور یہ قصیدہ در ِکعبہ پر آویزاں کیا جاتا ہے۔ لڑائیوں میں لوگوں کو زندہ جلا دینا، مستورات کے پیٹ چاک کردینا، معصوم بچوں کو تہِ تیغ کرنا عموما جائز تھا‘‘۔(سیرۃ النبی مولانا شبلی، جلد اوّل صفحہ ۹۳)

فضا اور بعثت
یہ فضا ہے، جس میں ایک بے کس وبے یاور یتیم اور اَن پڑھ بچہ اپنی آنکھیں کھولتا ہے۔ کار ساز فطرت کی مشیت یہ ہوتی ہے کہ اسی بے کس وناتواں کے ذریعہ سے،ایک قبیلہ کی نہیں، ایک قوم کی نہیں، ایک ملک کی نہیں، سارے عالم، بلکہ سارے عالموں لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا کی اصلاح کا کام لیا جائے اور اسے سارے جہانوں کی جانب یہ پیغام دے کر بھیجا جائے کہ فطرت سے بغاوت کرتے رہنے والوں کا بالآخر کیا انجام ہونے والا ہے۔ پیامبر اپنا پیام پہنچاتاہے اور اس کے گرد و پیش کی ساری شیطانی قوتیں دولت وقوت کے سایہ میں جمع ہوکر اسکی مخالفت وعداوت پر کمر بستہ ہوجاتی ہیں۔ اس عالی ظرف کا ظرف، سالہا سال تک ہرقسم کی تکلیف وتوہین، اذیت ورسوائی کے مقابلہ میں سپر بنا رہتا ہے تاآنکہ مخالفین کے حوصلے اور بڑھ جاتے ہیں اور کھلم کھلا یہ مطالبہ ہونے لگتا ہے، اگر حق کی قوت ونصرت اس کے ساتھ ہے، تو آخر حق وباطل، نور ظلمت میں کھلا ہوا فرق، فرقان اس پر کیوں نہیں نازل کردیا جاتا، جواب ملتا ہے، کہ فرقان تو شروع ہی سے اس کے ہمراہ ہے، قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ اَلْغَیِّ حق وباطل کی راہیں توآغاز ہی سے الگ الگ ہیں۔ البتہ اے بے بصرو، تم جو سوا مادی فتح وفیروزمندی کے، کسی اور فرقان کو محسوس کرنے سے معذور ہو اور دن رات اس قسم کے واہی تباہی خیالات اور بچوں کے سے مطالبات پیش کرتے رہتے ہو کہ یہ پیغمبر تو ہم ہی انسانوں کی طرح کھاتا پیتا، اور بازاروں میں مَالِ ہذَا اَلرَسُولِ یَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الاَسْوَاقِ لَوْلَااُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ، فَیَکُوْنَ مَعَہُ نَذِیْراً اَوْ یُلْقی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنَ لَہُ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَا۔چلتا پھرتا ہے، اس کے ساتھ انسانی قوی سے ماوری کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا، یا اسے جنت فکر معاش سے بے نیاز کرنے اور عیش سے زندگی گزارنے کوغیب سے کوئی خزانہ اس کے پاس کیوں اُتر آیا، یا اسے جنت کے موعود اور مفروضہ باغوں کی طرح کوئی باغ کیوں نہیں نصیب ہو جاتا! سو اپنی ان خام خیالیوں اور بے مغزیوں کے جواب میں تیار ہو جاؤ‘‘ اسی دنیا میں فرقان اتر کررہے گا اور ایسا فرقان، جسے تمہارے مادّی حواس بھی محسوس کرکے رہیں گے۔تم ایک غیبی قوت، فرشتے کے نزول کا مطالبہ کر رہے ہو، اس نبی ﷺکا مرتبہ تو کہیں بڑھ چڑھ کر ہے، اس کے غلاموں پر ان غیبی قوتوں کا نزول ہوگا جسکی توجیہ وتاویل،تاویل وتعلیل میں تمہارے بڑے بڑے فلسفیوں اور حکیموں، عاقلوں اور داناؤں کی دانائی و زیرکی عاجز رہ جائے گی۔تَبَاَرکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلی عَبْدِہِ اور آج تم ایک باغ کو انتہائی نعمت سمجھ رہے ہو کل دیکھنا کہ اسی بندہ کے غلام، ان غلاموں کے غلام قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ دیں گے۔ رومہ و ایران کی زبردست شہنشائیاں زیر وزبر کردیں گے اور مصر وافغانستان، عراق وایران، ترکی وہندستان کی چمن وگلشن سبزہ زار وگلستان ان کے قدموں سے پامال ہوکر رہیں گے۔
ہدایت کی روشنی
کیسی بابرکت، کس کثرت سے برکت نازل کرنے والی کس طرح دائمی ومسلسل برکت نازل کرنے والی، وہ پاک ذات ہے جس نے تَبَارَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْہَاسِرَاجًا وَّقَمَرًا مُّنِیْرًا۔آسماں میں ستارے اور روشن آفتاب اور اجالا کرنے والا چاند بنا دیا۔جس پروردگار نے مادی رہنمائی و روشنی ورہنمائی کے لیے سب کچھ سامان مہیّاکردئے ہیں، کیا وہ اپنے بندوں کو روحانی روشنی ورہنمائی کے سامان سے محروم رکھے گا؟ آفتاب اسی وقت طلوع ہوتا ہے جب پہلے تاریکی اچھی طرح چھا چکی ہوتی ہے، دنیا کی روحانی تاریکی اب اپنی انتہاکو پہنچ چکی ہے، وقت آگیا ہے کہ سراج منیر تمام عالموں کے روشن کردینے والے چراغ کا طلوع ہو۔ آفتاب جب طلوع ہوتا ہے تو اس کی تڑپ سے چاند بھی جگمگا اٹھتا ہے اور خود روشن ہوکر دوسروں کو روشن کردیتاہے۔ اس آفتاب روحانی کی ضیا باری بھی اسی شدت وقوت کی ہوگی، اسکی شعاعیں دوسروں کو منوّرکرکے انھیں خود چاند کی طرح نورانی ونورا فگں بنادیں گی پھر یہ اسی کار ساز مطلق کا بنایا ہوا عام قانون فطرت ہے کہ رات اور وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّلیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَۃًً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا۔دن ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہتے ہیں اور جن کے دلوں میں نصیحت قبول کرنے اور بندہ شکر گزار بننے کی صلاحیت ہے، ان کے درس کے لیے یہ قانون مادی بالکل کافی ہے۔ جب عالم جسم ومادّہ میں ہررات کے بعد دن کا آنا لازمی ہے، تو کیاکائنات جان وروح میں ہمیشہ تاریکی ہی چھائی ہوئی رہے گی؟ نفس پرستی وخدا فراموشی کی طویل شب دیجور کا ختم ہوکر رہنا لازمی تھا، وہ ختم ہوئی اور روحانیت کا آفتاب، اصلاح و ہدایت کا سورج طلوع ہوگیا۔ زندہ فرقان۔ اس زندہ فرقان کی عظمت کو دیکھو، اس نے دیکھتے ہی دیکھتے تمہاری آنکھوں کے سامنے اخلاق کی دنیا میں کیا سے کیا انقلاب پیدا کردیا، تم اس کے پیام میں طرح طرح کی حجتیں نکالتے ہو، سرے سے رحمن ہی کے وجود میں شک کررہے ہو اور ڈھٹائی سے پوچھتے ہو کہ کون رحمن؟ سو اپنے اس اَن دیکھے رحمن کی شان رحمت کو دیکھو، اس کی برکات و رحمانیت کا مشاہدہ کرو کہ تمہاری ہی بنجر سرزمین سے تمہاری ہی مردہ قوم سے تمہاری ہی گردو پیش کیسے کیسے بندگان رحمن پیدا ہوگئے ہیں، جو لوگوں سے بات بات پر وَعِبَادُ الرَّحْمنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلی الأَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا لڑنا، بلاوجہ الجھنا تو الگ رہا صدیوں کی اس عادت اور پشتہا پشت کی اس خصلت کو چھوڑ کر اب اس قدرخاکسار ومسکین ہوگئے ہیں کہ ہاتھ پیر کی زیادتیوں اور بات چیت کی سختیوں کا ذکر نہیں، ان کی رفتار تک ان کی فروتنی وحلم پر گواہی دے رہی ہے؟ اور ازخود تو اب کسی سے کیا چھیڑ کریں گے۔ جب دوسر ے اپنی نادانی وسفاہت سے اپنی شرارت وخباثت سے انھیں چھیڑتے ہیں،ان کی دل آزاری کے لئے ان پر اعتراضات کرتے ہیں،تو اس کے معاوضہ میں بھی ان کی جبین تحمل پر شکن نہیں پڑنے پاتی،بلکہ حلم وآشتی صلح و نرمی کے لہجہ میں ان سے اپنی سلامتی چاہتے، یا ان کے حق میں سلامتی کی دعا کرتے گذر جاتے ہیں! ابھی کل کی بات ہے کہ ساری ساری رات، شراب خواری، ناچ رنگ اور بے حیائی کے دوسرے مشغلوں میں کاٹ کر صبح کر دیتے تھے، پر آج وہی خدائے رحمن کے بندے ہیں،وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُونَ لِرَبِِّہِمْ سُجَّدًا وَقِیَامًا جویہی نہیں کہ اپنے ان گندے مشغلوں سے یکسر تائب ہو چکے ہیں، بلکہ اب ان کی پوری راتیں نماز و عبادت کی، دعا وقرآن خوانی کی اور تہجد کے سجود وقیام نذر ہونے لگی ہیں اور کچھ یہ نہیں کہ یہ کسی کے ڈر اور دباؤسے، کسی کی مروت میں، یا ریا ونمائش کی غرض سے کررہے ہوں بلکہ قانون پاداش عمل کی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو چکی ہے،وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَمَّ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا اِنََّہَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًا وَمُقَامًا ہر بدی کے نتیجہ بد کا خوف ان پر غالب آچکا ہے اور آخری سزا گاہ دوزخ کی سختیاں، ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے پاتیں۔ اس لیے بکمال خلوص وخضوع، اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے ہیں، کہ ان سے انھیں محفوظ رکھے اورجس پر اس قدر ہیبت الہی غالب ہوگی کہ وہ لازمی طور پر اپنی زندگی کے ہر ہر جزئیہ میں نیکی ونیک کرداری، تقوی وحسنِ عمل کی ٹوہ میں برابر لگا رہے گا پس یہ نیک برگزیدہ بندے وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا۔بھی محض حقوق اللہ کی ادائیگی میں مستعد نہیں بلکہ حقوق العباد کے ادا کرنے میں بھی ویسے ہی محتاط وذوق شناس ہیں چنانچہ خرچ کے معاملہ میں یہ گناہوں میں خرچ کرنے سے رکے رہتے ہیں، عیاشی میں یہ نہیں خرچ کرتے، شراب خواری میں یہ پیسہ نہیں برباد کرتے، نام ونمود کے لیے یہ اپنی ہتھیلیاں نہیں کھولتے اور جب طاعت میں خرچ کرنے کا وقت آتا ہے، جب غریبوں اور بیکسوں کی امداد کا وقت آتا ہے، جب اللہ کے نام پرپیسہ لگانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس وقت ان کا ہاتھ نہیں رکتا، اس وقت یہی سب سے بڑھ کر خرچ کرنے والے نکلتے ہیں، اور اس طرح ان کے مصارف، اسراف وبخل دونوں برائیوں سے بچ کر ٹھیک اپنے صحیح موقع اعتدال پر ہیں۔

حکمائے قدیم نے کبائر معاصی کو انسان کی تین قوتوں کا نتیجہ بتایا تھا، قوت وہمیہ، قوت غضبیہ، قوت شہویہ اور ان تینوں کے نتائج شرک، قتل وزنا کاری کی صورتوں میں ظاہرہوتے تھے، حکمائے حال کی تحقیق میں نفس انسانی کی تحلیل، عقل، ارادہ، وجذبات کے عناصر ثلثہ میں کی گئی ہے، اور ان میں جب اختلال وبدنظمی پیدا ہوگئی تو اہم گناہوں کی یہی تین صورتیں نمایاں ہوں گی۔ انتہائی بدعقلی، نافہمی وجہالت کا نتیجہ شرک ہے، قوت ارادی کا بے قابو ہوجانا، قتل وہلاکت پر ختم ہوتا ہے، جذبات پر قابو نہ رکھنے کی آخری صورت زنا کاری ہے،نسل انسانی جب کبھی اور جہاں کہیں بھی تباہ ہوئی ہے انھیں معاصی میں مبتلا ہوکر تباہ ہوئی ہے۔ عرب جاہلیت، موجودہ جاہلین فرنگ کی طرح، خصوصیت کے ساتھ انھیں بلاؤں میں مبتلا تھے۔

اعجاز یا انقلاب
’’زندہ فرقان‘‘ کا اعجاز یہ تھا کہ اس زہریلی فضا، اس وبائی ماحول میں بھی اپنے مرید، بندگان رحمن کو ان وباؤں کے اثرات سے بالکل محفوظ کردیا، کہ یہ لوگ ہیں جو نہ خدا کے ساتھ وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِ وَلاَ یَزْنُونَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذلِکَ یَلْقَ اَثَامًا، یُضٰعَفْ لَہُ العَذَابُ یَوْمَ القِیمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہانًا اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَئِّیاتِہِْم حَسَنتٍ وَکَانَ اللہُ غَفُورًا رَحِیْمًا۔
کسی اور معبود کو پکارتے ہیں، نہ نا حق کسی کو قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کر تے ہیں اور جانتے رہتے ہیں کہ ان بداعمالیوںمیں پڑنے والے کیفر کردار کو پوری طر ح پہنچ کر رہیں گے، البتہ ان بد اعمالیوں کے بعد جس نے انھیں برا سمجھ کر ترک کر دیا اور نیکی کے راستہ کو پہچان لیا اور پھر اسی راہ پر چلا بھی، سو خدائے غفور ورحیم خواہ مخواہ تکلیف کسی کو نہیں دیتا، وہ ان کی موجودہ نیکیوں سے ان کی پچھلی برائیوں کو محو کردے گا، اور ایسا ہونا تو اس کے بنائے ہوے قانون فطرت کے عین مطابق ہے،اس لیے کہ جس کسی نے بدی کو بدسمجھ کر وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہُ یَتُوْبُ اِلَی اللہِ مَتاَبًا ترک کردیا یا بالفاظ دیگر اس سے توبہ کرلی اور اس کے بعد نیک عمل کرنے لگا، تو اس کے یہ معنی ہی ہیں کہ اس نے شیطان سے اپنی دوستی قطع کر کے اللہ سے اپنا رشتہ جوڑلیا اور ٹیڑھے راستہ کو چھوڑ کر سیدھے راستہ پر پڑ گیا۔

جھوٹ اور لغو سے بچاؤ
اب تک ان کی زندگیوں کا سررشتہ جھوٹ اور ناراستی، نمود ونمائش، ریا اور بناوٹ کے دامن سے وابستہ تھا،آج یہ دیکھتے دیکھتے اتنے پاک وصاف ہوگئے ہیں کہ خود جھوٹ بولنا وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا اور جھوٹی کاروائیوں میں شریک ہونا تو درکنار، جھوٹی زندگی رکھنے والوں کے پاس تک نہیں پھٹکتے، جھوٹ اور تصنع ان کے شہود میں سرے سے آتا ہی نہیں اور اگر محض اتفاق سے کسی ایسے مجمع میں پھنس جاتے ہیں جو کسی لغو، لایعنی مشغلہ میں مبتلا ہوتا ہے تو یہی نہیں کہ ان کے پاک نقوس ان شیطانی ترغیبات کی جانب سے بے رغبت رہتے ہیں،بلکہ ان کے شیوہ کریمانہ اور روش بزرگانہ کو دیکھ کر خود وہ جماعت متاثر ہوجاتی ہے، وہ زمانہ گزرگیا، جب ان کے سامنے اللہ کی وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوا بِایَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا۔نشانیاں اس کی قدرت وعظمت کی نشانیاں گزرتی رہتی تھیں اور یہ بہرے اور اندھے بنے ان کی طرف سے غافل اور بے خبر رہتے تھے۔ اب ان کے کان کھل گئے ہیں ان کی چشمِ بصیرت روشن ہوچکی ہے۔ اب دنیا ان کے لیے ایک تماشاگاہ نہیں، بلکہ دارالعمل ہے۔ اب یہ نیکی اور بدی کے قانون کو،عمل وجزائے عمل کے اصول کو رب رحمن رحیم کے بتائے ہوئے سیدھے راستہ کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں، خود ان کی زندگیاں تو اخلاقی بیماریاں کے جراثیم سے بالکل پاک ہوچکیں۔ اس منزل سے گزرنے کے بعد قدرتاً اب ان کے د ل میں یہ تمنا غالب ہے اور یہ اسی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کے قریب ترین تعلق وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ رکھنے والے ان کی بیویاں اور انکی اولادیں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائیں، خود انھیں کے رنگ میں رنگ جائیں انھیں اس درجہ بیتاب کیے ہوئے ہے کہ محض اپنی زندگی کے سدھارنے پر قانع نہیں بلکہ دوسرے متقیوں کے لیے اپنی زندگی کو بطور نمونہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ اکبر! کمال روحانیت کی ترقی کو دیکھنا یہی نہیں کہ خود اچھے بن گئے، یہی نہیں کہ دوسرے اچھوں کے ساتھ ہوگئے بلکہ اس مرتبہ کی تمنّا اور طلب، کہ دوسرے پاکوں اور اچھوں کی پیشوائی اور امامت حاصل ہوجائے جس کو سارے متقی مل کر اپنا امام و مقتدی تسلیم کریں، اس کے مرتبہ کمال، اس کے ارتقاء روحانیت کا کچھ ٹھکانا ہوسکتا ہے۔ اس کی زندگی جو دوسرے کاملوں کے لیے نمونہ کا کام دے سکے، خود کس درجہ کامل ہوگی؟

خزاں اور بہار
زمین خشک اور پیاسی پڑتی ہوتی ہے، بارش کے فیض سے افسردہ چمن لہلہانے لگتا ہے، مردہ کھیتی میں جان پڑجاتی ہے، سویا ہوا سبزہ جاگ اٹھتا ہے،باغ سنسان پڑا ہوتا ہے، پتّیاں مرجھا مرجھاکر گرچکتی ہیں، بہار کی ہوا چلتے ہی نئی اور ہری پتّیاں نکل آتی ہیں اور اجڑا ہوا باغ پھر سرسبز وشاداب ہوجاتا ہے، عالم پرشب کی سیاہی چھائی ہوتی ہے، ہرشے تاریکی میں گم ہوتی ہیں، صبح کے طلوع ہوتے ہی ہر طرف اُجالا پھیل جاتا ہے اور ہرذرّہ روشن ہونے لگتا ہے، ایک پاک روح دنیا میں اصلاح وتزکیہ کے لیے آتی ہے اور اپنے فیض صحبت سے بہت سے اندھوں کو بینا، بہت سے بیماورں کو تندرست اور بہت سے مردوں کو زندہ کردیتی ہے۔ کارخانہ فطرت میں اس قانون فطرت کی نظیریں برابر ملتی رہتی ہیں۔

مردوں کی مسیحائی
لیکن دنیا میں یہ انقلا ب روحانی پیدا کردینا کہ کل تک جو رہزن تھے وہ آج اچھے رہرو ہی نہیں، بلکہ بہترین رہبر بھی ہوجاہیں، کل تک جن کی زندگی فسق وفجور کی نذر تھی، آج وہ اتنے بلند ومقدس مرتبہ پر پہنچ جائیں کہ صداقت و پاکیزگی کو ان کے انتساب سے شرف ہوجائے،کل تک جو مردہ تھے، وہ آج زندہ ہی نہیں بلکہ دوسروں کو زندہ کردینے والے بن جائیں۔ ایسے آفتاب کا طلوع جو ہر ذرّہ کو آفتاب بنا دے، ایسے مسیح کا نزول جو مردہ کو مسیح بنا دے۔۔۔۔اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں بجز سرورعالم ﷺکے صحابیوں، بجز محمدﷺ کے غلاموں کے اور کہیں بھی مل سکتی ہے؟

نادانوں کا قول ہے کہ خاتم النّبینﷺ نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا، حالانکہ یہ پاک زندگی شروع سے آخر تک خود ایک معجزہ تھی اور اس کا کوئی جزئیہ ایسا نہ تھا جو اپنے اندر ایک اعجازی رنگ نہ رکھتا ہو۔

اس ’’زندہ فرقان‘‘ کے ان زندہ معجزوں کے ہوتے ہوئے، کشتی نوح، گلزار خلیل، عصائے موسی، تخت سلیمانی ، حسن یوسف ، دم عیسی کسی محدود وقتی ومقامی معجزہ کی کچھ بھی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی نہ ا س وقت راز تھی نہ آج راز ہے، ابو لہب وابو جہل اور ان کے سارے ہم نشینو ں نے اس وقت دیکھا کہ بدبودار اورپرعفونت کھاد، گملے میں پڑی اور ان کی آنکھوں کے سامنے، شاداب وخوش رنگ مہکتے ہوئے گلاب کے پھول میں تبدیل ہوگئی۔ حق کی قوّت ہر تردید وتغلیط کے خطرے سے بے پرواہ ہے، زندہ معبود کے زندہ رسولﷺ کے زندہ معجزہ کا جواب نہ اس وقت بن پڑا، نہ حق کے جھٹلانے والوں، محمدﷺ کے دشمنوں اور ابو لہب وابو جہل کے موجودہ جانشینوں میں سے کسی کے بس کی بات ہے۔

اللہ مراتب بلند کرے اکبر الہ آبادی کے، سارے مضامین نعت کا عطر ایک شعر میں کھینچ کے رکھ دیا ہے ؎
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا

عبدالماجد دریابادی, Author at Bhatkallys.com
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
مردوں کی مسیحائی۔۲۔ یتیم کا راج
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی​

تمدن کی نمائش گاہوں سے دور
کچھ کم چودہ سو برس کا زمانہ گزرتا ہے کہ تمدن کی نمائش گاہوں سے کوسوں دور، تہذیب کے سبزہ زاروں سے الگ، ایک ویران و بے رونق بستی میں چلچلاتی دھوپ والے آسمان کے نیچے خشک اور پتھریلی سرزمین کے اوپر، ایک شریف لیکن اَن پڑھ اور بے زر خاندان میں، ایک بچہ عالِم آب و گل میں آنکھیں کھولتا ہے۔

دعوی کی دلیل صرف خدا کا سہارا
شفیق باپ کا سایہ پہلے ہی سے اٹھ چکتا ہے، ماں بھی کچھ روز بعد سفر آخرت اختیار کرلیتی ہیں۔ تربیت کے جو ظاہری قدرتی ذریعے ہیں۔ وہ یوں گم ہوجاتے ہیں، بوڑھے دادا اپنے آغوش تربیت میں لے لیتے ہیں لیکن بچہ کا بچپن ابھی ختم نہیں ہونے پاتا کہ وہ بھی ہمیشہ کی نیند سوجاتا ہیں۔گھر میں نہ نقد ہے نہ جائیداد نہ حکومت ہے نہ ریاست، خانہ ویرانی کا یہ عالم ہے کہ نہ ماں ہے نہ باپ، نہ دادا نہ دادی، نہ بھائی ہیں نہ بہن، تن تنہا بے سازو سامان، بے یارو مددگار ایک نوعمر اللہ کا بندہ ہے جسے سہارا ہے تو اسی نظروں سے اوجھل مولا کا اور آسرا ہے تو اسے نگاہوں سے غائب مالک کا!

عربوں کی حالت
ملک کی حالت یہ کہ شرک کی گھٹائیں ہر طرف چھائی ہوئی، ساری قوم مخلوق پرستی میں ڈوبی ہوئی، بدکاری فیشن میں، انسانی ہمدردی کے مفہوم سے دماغ ناآشنا، ہر قسم کے فسق وفجور کی گرم بازاری، بات بات پر لڑنا اور پشتہا پشت تک لڑتے رہنا، یتیموں کی حق تلفی، غریبوں کے ساتھ بے دردی، اخلاقی وبائیں اور روحانی بیماریاں گھر پر مسلّط، یہ حد سے گزری ہوئی حالت تو خاص اسی قوم کی اور اس کے ملک کی۔

دنیا کا رنگ
باقی جتنی ہمسایہ قوتیں ہیں، ان میں سے کسی ایک کی بھی زندگی، پاکی وپاکیزگی کے معیار پر نہیں، مصرو ایران، چین وہندوستان، مشہور تھا کہ یہ تمام ملک ایک زمانہ میں علم، تہذیب وتمدن کے گہوارے تھے لیکن اس وقت سب کے سب اخلاقی گندگیوں اور روحانی ناپاکیوں کے رمنے بنے ہوئے تھے، توحید وخدا پرستی جو سارے اخلاقی نشونما کی جڑ ہے، سرے سے وہی کٹی ہوئی۔خالق کی یاد دلوں سے غائب اور طرح طرح کے وسیلوں اور واسطوں کی پرستش، ہر دل میں رچی ہوئی، متفرق طور پر کہیں کہیں اصلاح کرنے والے بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن سیلاب کے رَو میں کس کے قدم جم سکتے ہیں؟

ظہور قدسِی
فضائے ملک، بلکہ فضائے عالم کی اس تیرگی میں یہ نوعمر یتیم کھڑا ہوتا ہے اور اپنی پاک وپاکیزہ ،کتاب زندگی کے ہر ورق کو کھول کر رکھ دیتا ہے اور اپنی زندگی کا ایک کامل ومکمل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرکے حوصلہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کوبھی اپنا جیسا بنایا جائے، ایک طرف ساز وسامان سے محرومی ہے، ہر پہلو سے بے کسی اور بے بسی ہے، ہر اعتبار سے بے اختیاری ہے اور دوسری طر ف ملک وقوم کی اصلاح کی امنگیں ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ ساری کائنات انسانی کے سدہارنے کے حوصلے ہیں لیکن ’’اصلاح قوم‘‘ آج کل کے مفہوم میں نہیں۔ اس لیے نہ کسی انجمن کی بنیاد پڑتی ہے، نہ کوئی پارٹی بنائی جاتی ہے، نہ کسی کمیٹی کے لیے فنڈ کھولا جاتا ہے، بلکہ سارا وقت اور ساری قوت اپنے آپ کو تیّار کرنے میں صرف ہوتی ہے! یہ نوعمر، حسین وخوشرو ہے، نوجوانی کا خون اس کی رگوں میں بھی گردش کرتا ہے، ملک میں گھر گھر فحش وبے حیائی کے چرچے ہیں لیکن اس کی نیچی نظروں پر خود حیاداری قربان ہو جاتی ہے۔ مئے ناب کے ساغر ہر طرف چھلک رہے ہیں، پیمانہ چاروں طرف گردش میں ہے لیکن اس کے دامن تقوی پر فرشتے تک نماز پڑھنے کے آرزو مند ہیں۔ لوگ لڑرہے ہیں، یہ صلح کرارہا ہے۔ قوم چھیننےمیں مصروف ہے، یہ بانٹنے میں۔ دنیا تحصیل وفراہمی میں لگی ہوئی ہے اور یہ عطا وبخشش میں۔ عالمِ مخلوق، مخلوق پرستی کی لعنت میں مبتلا ہے، ایک اس کے دل میں خالق کی لَو لگی ہوئی ہے۔

اصلاح کی جڑ خدا پرستی و توحید
ساری اصلاحوں کی بنیاد توایک ہی اصلاح ہے، یعنی بندہ کا مالک سے تعلق پیدا ہوجانا، اس ٹوٹے ہوئے رشتے کا جُڑ جانا اور شرک کی بھول بھلیاں سے نکل کر توحید کی شاہراہ پر آجانا۔ یہاں بھی دھن تھی تو اسی کی اور فکر تھی تو اسی کی۔ رات کی نیند، دن کی مشغولی، ہر شے اسی کی نذر تھی۔

تڑپ اور وحی
آفتاب اور ماہتاب کی گردشیں اپنی اپنی میعاد پوری کر رہی ہیں، بچے جوان ہوتے ہیں اور جوان ادھیڑ ہورہے ہیں۔موتی صدف کے اندر لعل وجواہر کانوں میں نشونما پارہے ہیں۔ عالم قدس کا یہ دُرِّ یتیم چالیس برس کی سن میں اپنی پختگی کو پہنچتا ہے۔ عمر کی ترقی کے ساتھ ساتھ راہِ ہدایت پانے کا جوش و ولولہ بھی ترقی پر ہے اور ’’یافت‘‘ کی تڑپ روز بروز بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نوبت یہ پہنچتی ہے کہ آبادی کے شور و غل سے الگ، انسانوں کے مجمع سے دور، ایک غار کے سکون و خلوت میں ہفتوں کے ہفتوں اسی سوچ بچار، اسی گرہ کی کشائش کے نذر ہونے لگتے ہیں۔ اس وقت ایک غیبی سہارا دستگیری کرتا ہے اور منصب ارشاد خلق و ہدایت عالم پر سرفرازی کا پروانہ ملتا ہے۔

کٹھن کام
کھٹن کام اب شروع ہوتا ہے، ایک طرف ملکِ حجاز کی قوت و جمعیت ہے اور دوسری طرف تن تنہا ایک فرد اصلاح و ہدایت کا کام ہاتھ میں لینے والا، صدیوں کی پڑی ہوئی خصلتوں کا چھڑانا سیکڑوں برس کے زنگ دلوں سے دور کرنا، ایک دو شخص نہیں، ایک دو خاندان نہیں، ایک قبیلہ نہیں، سارے ملک کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنا، پھر زندگی کی کوئی ایک صنف نہیں، ہر صنف اور ہر شعبہ زندگی کو نئے سرے سے بدلنا! اور یہ پیام پہنچانا کہ اپنی زندگی بالکل نئی کرلو، مال دولت کی محبت چھوڑدو، بخل اور کنجوسی کو چھوڑ دو، حرصِ حکومت و ہوس جاہ کو چھوڑدو، اپنی جھوٹی شاعری اور موسیقی کو چھوڑدو، رشوت و سود خوری کو چھوڑ دو، خیا نت اور بد معاملگی کو چھوڑ دو، جوے اور شراب کو چھوڑ دو، بے حیائی اور بدکاری کو چھوڑدو، عورتوں اور غلاموں پر ظلم کرنے کو چھوڑدو، لڑکیوں کے زندہ دفن کردینے کو چھوڑ دو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے معبودانِ باطل کو چھوڑ دو۔ اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ گویا ایک نازک ولطیف شیشہ کی ٹکّر ایک ٹھوس اور سخت چٹان سے لگی، ساری شیطانی اور طاغوتی قوتوں نے اکٹھے ہو کر اس زمزمہ سرائے توحید پر یلغار کردیا، کنبہ والے بگڑے کہ سارے کنبہ سے یہ انوکھی بات کیسی زبان سے نکالی، برادری والے رُوٹھے کہ باپ دادا کی ریت رسم کو کس منہ سے بُرا ٹھہرایا۔ بستی والے اُلجھے کہ امن و چین کی زندگی میں یہ خواہ مخواہ ایک تفرقہ وفساد کھڑا کردیا۔ غرض خاندان مخالف، برادری مخالف، شہر کی ساری آبادی مخالف، وطن کے درو دیوار مخالف اور چشم ظاہری میں تو یہ نظر آنے لگا کہ وہ جو اس بزم ہستی کا صدر بنا کر بھیجا گیا، زمین کے ذرّے اس کے مخالف، آسمان کے تارے اسکے مخالف، وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر رکھا ہے۔

بلندی ذکر کی بشارت
ایک طرف ادائے فرض کا احساس، دوسری طرف مخالفتوں کا یہ ہجوم بے پایاں! عین اس وقت جب کہ عالم بشریت میں سامانِ تسکین وتشفی ممکن نہ تھا، یہ صدائے غیب کانوں میں آتی ہے کہ اے ہمارے پیارے اور فرمانبردار بندے گھبرانے اور ہمّت چھوڑنے کی کوئی بات نہیں۔
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ہم نے تیرے اوپر وہ لطف وکرم کیا ہے جو کبھی کسی بندہ پر نہیں کیا، موسی کلیم اللہ کو ہم سے ہمکلامی کے بعد بھی شرح صدر کی آواز باقی رہی، انہوں نے اس نعمت کے لیے دعا کی، تجھے یہ نعمت عظمی ہم نے بلا طلب عنایت کی، تیرے سینے کو اپنی معرفت کے لیے کھول دیا، اسے اپنی نورانیت سے لبریز کر دیا اور اپنی آیات و دلائل کو تیرے اوپر واضح و روشن کردیا۔ اصلاحِ خلق کے لیے ہم تیری تڑپ دیکھ رہے تھے، یہ فکر تجھے ہلاک کیے ڈالتی تھی کہ لوگوں کو کیوں کر راہ راست پر لایا جائے، مراسم شرک سے تجھے شروع سے نفرت رہی ہے۔ وہ ہماری نظر سے چھپی ہوئی نہیں، اصلاحِ خلق کے لیے تیری دھن، خود راہ ِراست دکھانے کی فکر کا بار۔ وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَہْرَکَ۔ تیری پشت کو توڑے ڈالتا تھا، ہم نے اپنے فضل و کر م سے اس بارسے تجھے نجات دے دی اور یہی نہیں کہ وحی کی روشنی دے کرخود تجھے راہ راست پوری کی پوری دکھادی، بلکہ اس نعمت سے بھی سرفراز کردیا کہ دوسروں کو بھی راہ ہدایت دکھاتا رہ۔ مخالفین کے منصوبوں اور شرارتوں سے تنگ دل نہ ہونا، تو ہماری حفاظت میں ہے، یہ تیرا کچھ بھی نہیں کر سکتے، آج یہ نالائق اپنے نزدیک تجھے مٹادینے کی فکر میں ہیں لیکن ہم نے تیرا ذکر بلند کر رکھا ہے پھر جس ذکر کو ہم بلند قرار دیں، کون بشر اس کی بلندی کا پورا اندازہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کرسکتا ہے۔ یہ مخالفتیں اور یہ سازشیں تجھے کیا میٹ سکیں گی، مخالفین اور سازش کرنے والے خود ہی مٹ جائیں گے اور تیرانام ان سب کو پست وسرنگوں کرکے خود ممتاز و سربلند رہے گا۔

کایا پلٹ
یہ آواز اس وقت دنیا کے سامنے بلند ہوئی تھی جب اسلام کے خلاف دولت، امارت وحکومت کی ساری قوتوں کا ایکا تھا، جب اسلام محدودتھا، تنگدستوں اور بیکسوں، ضعیفوں اور شکستہ حالوں کی ایک مختصر سی جماعت میں جب اللہ کا نام زبان پر لانے کا انعام ملتا تھا، گالیوں اور ذلتوں، تازیانوں اور عقوبتوں سے، مگر دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ چند ہی روز میں کیسی کایا پلٹ تھی! قریش کے زور آور سردار خاک میں مل گئے، ان کے حلیف اور حمایتی مٹ کر رہ گئے، دولت مند یہود کا تخت الٹ گیا اور جن کی عقل و فہم پر، قوّت و اثرپر، دولت و سرمایہ پر، زمانہ کو ناز تھا، ان کے نام تک صفحہ روز گار سے مٹ گئے۔ ساڑے تیرہ سو برس کی مدت میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، عقل و دانش کی کتنی منزلیں، حد وحساب سے باہر، عددو حساب سے خارج، طے ہو چکی۔ الحاد و مادّیت کی قلمرو کتنی وسیع ہو چکی پر، پر آج خالق کے نام کے ساتھ جس مخلوق کا نام زبانوں پر آتا ہے، اللہ کے ذکر کے ساتھ جس بندے کا ذکر کانوں تک پہنچتا ہے وہ کسی قیصرو کسری کانہیں کسی زار وفغفور کا نہیں، دنیا کے کسی شاعر وادیب کا نہیں، کسی حاکم و فلسفی کا نہیں، کسی جنرل اور سردار کا نہیں، کسی گیانی اور کسی راہب کانہیں، کسی رِشی کا نہیں، یہاں تک کے کسی دوسرے پیمبر کا بھی نہیں، بلکہ عبد اللہ کے لخت جگر، آمنہ کے نورِ نظر، خاک بطحا کے اسی بے کس، بے بس یتیم کا جسے قریش کے زور آور ،جھل و نخوت کے نشہ میں اپنا ہی جیسا محض ایک مشت خاک سمجھ رہے تھے۔ کشمیر کے سبزہ زار میں، دکن کی پہاڑیو ں میں، افغانستان کی بلندیوں میں، ہمالیوں کی چوٹیوں میں، گنگا کی ودایوں میں، چین میں، جاپان میں، جاوا میں، برما میں، روس میں، بخارا میں، مصر میں، ایران میں، عراق میں، شام میں، فلسطین میں، ترکی میں، نجد میں، یمن میں، مراکش میں، طرابلس میں، ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں اور ان سب مہذب، نیم مہذب ملکوں کو چھوڑ کر خاص ناف تمدن ومرکزِ تہذیب لندن ‘ پیرس اور برلن کی آبادیوں میں، ہر سال نہیں، ہرماہ نہیں، ہر ہفتہ نہیں، ہر روز بھی پانچ پانچ مرتبہ بلند مناروں سے جس نام کی پکار خالق کے نام کے ساتھ، فضامیں گونجتی ہے، وہ اسی ایک سچّے اور اچھے کا نام ہے، جسے بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانہ میں محض ایک بے کس و یتیم کی حیثیت سے جانا تھا۔

رفعت ذکر کی تفسیر
یہ معنی ہیں ’’یتیم کے راج‘‘ کے یہ تفسیر ہے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کی۔کسی ایک صوبہ پر نہیں، کسی ایک ملک پر نہیں، کسی ایک جزیرہ پر نہیں، دنیا پر، دنیا کے دلوں پر، آج حکومت ہے تو اسی یتیم کی، راج ہے تو اسی اُمّی کا روشن خیال مصری دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اسی کے نام سے برکت حاصل کرتا ہوا، خوش عقیدہ افغانی پناہ ڈھونڈتا ہے تو اسی اسم پاک کی، جانباز ترک دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اسی کے نام کا کلمہ پڑھتا ہوا اور مراکش کا مجاہد سینہ پر گولی کھا کر گرتا ہے تو اسی کے نام کی بلندی کی گوائی دیتا ہوا! شاعر اگر ان مشاہدات کے بعد بے خود ہو کر پکار اٹھے، کہ ’’ہمسفر نام الہی نام تست‘‘ توکون اسکی زبان پکڑ سکتا ہے ! اَلَلہُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلَیْہِ۔

انعامات خداوندی کا نزول، ہرسختی کے ساتھ آسانی
اس پر قوت بشارت، اس سچی پیش گوئی کے ساتھ جو صرف سچے ہی کی زبان سے ادا ہوسکتی تھی، قانون الہی کی یہ دفعہ بھی سنا دی گئی کہ ہر سختی کے ساتھ آسانی ہے۔ شرح صدر ہو چکا، سینہ مبارک کو فَاِنَّ مَعَ اَلعُسْرِ یُسْراً، اِنَّ مَعَ العُسْرِیُسْرًا۔ انوارِ معرفت و سکنیت سے بھرا جا چکا۔ وحی کی روشنی مرحمت کی جاچکی، پھر بھی عسر و یسر، تنگی و کشائش کا قانون دائمی اور ناقابل تبدیل ہے۔ مفسرین میں سے بعض کا قول ہے کہ پہلی کشائش سے اسی دنیا کی نعمتیں اور دوسری کشائش سے آخرت کی راحتیں مراد ہیں اور پھر ایک جماعت اس جانب بھی گئی ہے کہ ایک کشائش سے اشارہ عہدِ رسالت ﷺ کی فتح مندیوں کے طرف ہے اور دوسرے سے عہدِ خلفائے راشدین کے دور اقبال کی جانب یہ سب مفہوم اپنی اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس تکرار سے درسِ ہدایت پر زور دینا رسول ﷺ اور امت دونوں کے معنی میں الگ الگ مقصود ہو۔ یعنی جس طرح اس عبدِ کامل کو عسر کے بعد یسر حاصل ہوا، ٹھیک اسی طر ح اس یتیم کے پیروؤں کے لیے بھی راستہ کھلاہوا ہے، تنگی کے بعد کشائش انکی نصیب میں بھی آنی یقینی ہے۔
آخر میں یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اب جبکہ ہم نے تم کو اس بار سے ہلکا کردیا ہے، جب اصلاح امت کا کام بجائے اسکے کے تم اپنی عقل وفکر کے ذمہ رکھو، ہم نے اپنی وحی کے ماتحت کردیا ہے، جب اس فکر و تدبیر کے کام سے ہم نے تمہیں فارغ و سبکدوش کردیا ہے تو بس اب تم بھی پوری طرح ہماری احکام کو پہنچانے۔ فَاِذَا فَرَغْتَ فَاَنْصَبَ وَاِلی رَبِّکَ فَاَرْغَبَ فرائض رسالت کے انجام دینے، خلقت کو راہِ ہدایت دکھانے میں لگ جاؤ اور راستہ میں ہر تکلیف اور محنت کو برداشت کرو اور جس پروردگار نے تمہیں اس مرتبہ سے سرفراز کیا ہے جس نے تمہارے لئے ہجوم مشکلات میں یہ کشائش پیدا کردی ہے، جس نے تمہارے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر تمہارے ذکر کو یوں ہمیشہ کے لئے بلند کردیا ہے، تمام تر اسی کی طرف لَو لگائے رہو، سب سے بے پرواہ بے نیاز، ایک اسی کے نام کا چرچہ کرنے میں، ایک اسی کی پاکی پکارنے میں، ایک اسی کی بڑائی کے پھیلانے میں، جان ودل سے لگے رہو۔!

یتیموں کا والی غلاموں کا مولی
مکّہ کا وہ یتیم آج خود ہی سب سے سر بلند اور ساری دینا کا سرتاج نہیں، بلکہ کارساز مطلق کی اس شان کریمی کی بالائیں لیجئے کہ اس مکّی یتیم کے طفیل میں آج دنیا کے سارے یتیم، غریب سے غریب، بے کس سے بے کس یتیم اپنی اپنی ٹوٹی ہوئی جھونپڑیوں، یتیم خانوں کی کوٹھریوں میں، بازار کی گلیوں میں، محل کے رہنے والے امیرزادوں اور شہزادوں سے کہیں زیادہ سربلند اور کہیں زیادہ معزز ہیں !وہ خوش نصیب پاک بندے جن کے لیے اس ناسوتی زندگی کی قید سے رہا ہونے کے بعد چین ہی چین ہے، ان کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مسکینوں اور یتیموں کو محض اپنے پروردگار وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلی حُبَِّہِ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا کی رضا جوئی کے لیے خلوص کے ساتھ، نہ کسی نمائش وریا کی غرض سے کھانا کھلاتے رہتے ہیں! اور جن بدنصیبوں کو یہاں اور وہاں ذلّت کی سزا بھگتنی ہے، ان کا خاص جرم یہ بتادیا گیا ہے کہ وہ یتیموں کے کلَّا بَلْ لَا تُکْرِمُوْنَ اَلیَتِیْم۔ساتھ خواہ کوئی خاص بدسلوکی نہ بھی کرتے ہوں، توبھی کیا کم ہے کہ ان کی پوری عزت اور خاطرداری نہیں کرتے! شرفِ انسانیت کی سب سے بلند گھاٹی بغیر اسکے طے ہی نہیں ہوسکتی، انسانیت کے مرتبہ کمال تک رسائی ممکن ہی نہیں، جب تک قیدیوں اور غلاموں کو آزاد کرانے اور بھوک کے وقت یتیموں کو کھانا کھلانے کا شعار نہ بنالیا جائے، وَمَا اَدْرَاکَ مَااَلعَقَبَۃُ فَکُّ رَقَبَۃٍ اَوْ اِطْعَامٌ فِی یَوْمٍ ذِی مَسْغَبَۃٍ یَتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ۔اتنا ہی نہیں، بلکہ اصلی دین یہی ہے کہ یتیم کی خاطر مدارات عزت وتوقیر کی جائے اور جو بدنصیب یہ نہیں کرتا، وہ خواہ بہ ظاہر کیسا ہی نمازی ہو لیکن اَرَاَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْن ط فَذٰالِکِ الَّذِیْ یَدُعُ الْیَتِیْمَ اگر یتیم کے حق کو نہیں پہچانتا تواپنی دینداری کے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ اس کی ساری مذہبیت مصنوعی اور نامقبول ہے۔
آج ہے دنیا کا کوئی مذہب، جس نے یتیموں کو یہ مرتبہ دیا ہو؟ جس نے یتیمی کو بجائے ایک باعث ننگ داغ سمجھنے کے، اس قابلِ رشک درجہ، شرف واحترام پر پہنچا دیا ہو؟ آج ہے دنیا کا کوئی ایسا مذہب بجز اس ایک اکیلے، سچّے دین کے، جو ایک یتیم کا لایا ہوا ہے۔
 
Top