مرتی ہوئی زبانیں، عالم گیریت کا شاخسانہ - ڈاکٹررؤف پاریکھ

محمداحمد

لائبریرین
653044_8391501_languages_magazine.jpg

دنیا کی سات ہزار زبانوں میں سے سو سال بعد صرف چھے سو زبانیں باقی رہ جائیں گی ... زبان تہذیب کا حصہ ہوتی ہے، جس زبان کو لوگ بولتے رہیں گے وہ زندہ رہے گی

آج دنیا میں تقریباً سات ہزارزبانیں بولی جاتی ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ان سات ہزار زبانوںمیں سے نصف یعنی ساڑھے تین ہزار کے قریب زبانیں ایسی ہیں جن کا ایک صدی کے بعد وجود مٹ جائے گا۔ لیکن کولمبیا یونی ورسٹی کے ایک ماہر لسانیات جان میک ورتھر (John McWorther) نے تو گویا دنیا کی بیشتر زبانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ انھوں نے ۲۰۱۵ء میں ایک تحقیق کی اور خیال ظاہر کیا تھا کہ سو سال بعد یعنی ۲۱۱۵ ء میں سات ہزار میں سے صرف چھے سو (600) زبانیں باقی رہ جائیں گی اور اس کی بڑی وجہ عالم گیریت یعنی گلوبلائزیشن ہوگی۔ماہرین کا خیال ہے کہ جس زبان کے بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور جو زبانیں ٹیکنالوجی ، عالمی سیاسی بالا دستی اور معیشت کے لحاظ سے طاقت ور ہوں گی اگلی صدیوں میں وہی زندہ رہ سکیں گی۔

دنیا کی موجودہ سات ہزار زبانوں میں سے بھی آج تقریباً ایک سو (100) زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے اب مٹھی بھر ہی رہ گئے ہیں،ان زبانوں کو معدومی کے خطرے سے دوچار قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان زبانوں کے بولنے وا لوں کی تعداد میں کمی سے یہ زبانیں بھی غائب ہوتی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’الاسکا‘‘ (Alaska) میں ایک زبان بولی جاتی تھی جس کو’’ ایاک‘‘ (Eyak)کہتے تھے ۔ اس کو بولنے والی صرف دو معمر بہنیں باقی رہ گئی تھیں اور جب ان میں سے ایک کا انتقال ہوگیا تو دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں رہ گیا تھا جس سے وہ خاتون بات کرسکتیں۔ ان خاتون کا نام میری اسمتھ جونز تھا ، 2008ء میں ان کا بھی انتقال ہوگیا اوران کے ساتھ اس زبان کا بھی، گویا وہ یہ زبان اپنے ساتھ ہی لے گئیں۔کسی زبان کا مرجانا ایک افسوس ناک امر ہے، کیونکہ زبان تہذیب کا حصہ ہوتی ہے اور کسی زبان کے مرنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی تہذیب کا ایک حصہ مرگیا۔ دنیا کی تہذیبی خوب صورتی رنگا رنگی سے ہے اور زبانوں کا تنوع بھی اس خوب صورتی کا ایک حصہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ زبان جو بنیادی طور پر رابطے قائم کرنے اور قربت بڑھانے کا ذریعہ ہے اسے نفرت کی وجہ بنا لیا جائے اور زبان کی بنیاد پر دوری اورتفریق پیدا کی جائے۔ اس کی ایک دل چسپ لیکن افسوس ناک مثال یہ ہے کہ مرتی ہوئی زبانوں میں سے ایک زبان ایاپینکو (Ayapaneco) نامی ہے ۔جنوبی امریکا کی اس قدیم مرتی ہوئی زبان کے صرف دو بولنے والے دنیا میں باقی رہ گئے ہیں اور ان دونوں کے درمیان بات چیت ناراضی کی وجہ سے برسوں تک بند رہی تھی۔یہ بات بیک وقت مضحکہ خیز بھی ہے اور الم ناک بھی۔

یونی ورسٹی اوف شکاگو کے ایک ماہرلسانیات سیلی کوکو مف وین (Salikoko Mufwene) نے بتایا کہ، ان کا تعلق افریقی ملک کانگو سے ہے اور ان کی مادری زبان کیانسی (Kiyansi)کے بہت کم بولنے والے باقی رہ گئے ہیں، جب وہ چالیس سال بعدپنے آبائی وطن واپس گئے تو انھیں اپنی مادری زبا ن میں کچھ کہنے کی کوشش کی تو انھیں بہت سے الفاظ بہت کوشش پر بھی یاد نہیں آتے تھے ۔ اس سے انھیں احساس ہوا کہ اگر مادری زبان بھی بولی نہ جائے تو وہ بھی بھولی بسری ہوسکتی ہے، گویا زبان بولنے سے زندہ رہتی ہے۔ جب تک ہم اپنی زبانیں بولتے رہیں گے وہ زندہ رہیں گی، انھیں کوئی مٹا نہیں سکتا۔

سیکڑوں زبانوں کوماہرین نے پہلے ہی معدومی کے خطرے سے دوچار زبانوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے، جبکہ کئی زبانوں کو vanishing languages یعنی غائب ہوتی ہوئی زبانیں یا مرتی ہوئی زبانیں کہا جاتا ہے۔یونیسکو کی ایک رپورٹ Atlas of the world languages in danger (یعنی خطرے سے دوچارعالمی زبانوں کا اٹلس) نے دنیا کی ہزاروں زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار قرار دی ہیں، جبکہ پانچ سو چھہتر (576) زبانوں کو critically endangered یعنی معدومی کے شدید خطرے سے دوچار قرار دیا ہے۔ ان مرتی ہوئی زبانوں میں سب سے زیادہ تعداد بر اعظم شمالی امریکا اور جنوبی امریکا کی زبانوں کی ہے، اس کے بعد براعظم آسٹریلیا میں خطرے سے دوچار زبانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔جب یورپی اقوام آسٹریلیا پہنچیں تو وہاںکے اصلی اور قدیمی باشندوں (جنھیں ایب اوریجنیز aboriginis کہتے ہیں) کی تقریباً تین سو زبانیں تھیں، جن میں سے سو (100)فنا ہوچکی ہیں اور بقیہ دو سو میں سے کوئی پچانوے فی صد ختم ہونے کو ہیں، کیونکہ ان کی نئی نسل ان زبانوں کو نہیں بولتی اور سیکھنے میں دل چسپی نہیں لیتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشی ضروریات کے تحت انھیں انگریزی تک محدود ہونا پڑتا ہے، کیونکہ ان کی مادری زبانیں انھیں روزی روٹی کا سامان مہیا کرنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتیں۔

پاکستان میں بولی جانے والی کئی زبانیںبھی ایسی ہیں جو معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں ۔ زبانوں کے اس قتلِ عام میں عالم گیریت یا گلوبلائزیشن کا بڑا ہاتھ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم گلوبلائزیشن کے اصل ایجنڈے کو فراموش کرکے’’ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے‘‘ کا راگ الاپتے رہتے ہیں ، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ گلوبلائزیشن کا اصل ایجنڈا دنیا کی تمام معیشتوں ، ثقافتوں اور زبانوں کی تباہی اور پوری دنیا میں ایک معیشت، ایک کلچر اور ایک زبان کی بالا دستی ہے۔ وہ زبان کون سی ہے اور وہ کون سا کلچر ہے جسے پوری دنیا پر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے ؟ آپ سب واقف ہیں ، نام کیا لینا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 
Top