مراقبہ

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
مراقبہ (1)
مراقبہ پر لکھی جناب محمد الطاف گوہر کی تحریر نظر سے گذری ۔
اور میں ذاتی طور پر جناب محمد الطاف گوہر جی کا مشکور و ممنون ہوں ۔
جن کی تحریر سے مجھے آگہی ملی۔۔
اور آپ دوستوں سے یہ تحریر شٰیر کرنا چاہتا ہوں ۔۔
کوٰیی غلطی ہو تو کم علم سمجھ کر رہنماٰیی کر دیجیے گا۔
مراقبہ اک روحانی نورانی علم ۔،،
اک چھوٹا سا تجربہ کریں جو انتہائی دلچسپی کا حامل ہے اور آپ کے لئے اس (میں ) سے شناسا ئی کا ذریعہ بنے گا۔جو آپ کو انفرادیت اور اک کامل پن کا احساس دلاتی ہے۔ ’’آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کوئی ایک لفظ، کسی کا نام یا اللہ کا نام 25 مرتبہ اپنے ذہن میں دہرائیں مگر گنتی دل ہی دل میں ہونی چاہیے مگر گنتی کرتے ہوئے ذھن میں کسی اور خیال کو جگہ نہ دیں اور اگر گنتی میں کوئی غلطی ہو تو دوبارہ سے گنتی شروع کردیں۔ مگر گنتی ذہن میں ہی رہے ناکہ ہاتھوں یا انگلیوں پہ‘‘
اس تجربہ کے کرنے کے بعدہوسکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ25 مرتبہ ایک لفظ اپنےذہن میں گنتے رہے ہوں اور خیال بھی ذہن میں آتا رہا ہو ۔ یاہو سکتا ہے کہ چند خیالات ذہن سے گزرے ہوں۔ یا پھر پہلی کوشش ناکام ہو گئی ہو اور کئی مرتبہ اس تجربہ کو کرنا پڑا ہوں تو پھر جاکر 25 مرتبہ کی گنتی پوری ہوئی ہو یا پھر خیالات بھی آرہے ہوں اور گنتی بھی جاری رہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا میابی کے ساتھ یہ تجربہ نہ کر پائے ہوں کہ آپ 25 مرتبہ کوئی ایک لفظ دہرائیں اور کوئی خیال بھی ذہن میں نہ آئے ۔
معاملہ کچھ بھی، تجربہ کچھ بھی ہو، بات حقیقت ہے کہ آپ اپنے اندورنی خودی (Self ) کے وجود کا انکارنہ کرپائیں گے۔ کیونکہ جب آپکا ذہن گنتی میں مصروف تھا تو وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن سے خیالات گزر رہے ہیں؟
وہ کون تھا جو ایک ہی وقت میں مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن میں خیالات بھی آرہے ہیں اور گنتی بھی ہورہی ہے؟
کیونکہ آپ کا ذہن تو یقینا گنتی میں مصروف تھا۔
یقینا آپ کہیں گے کہ وہ میں تھا جو دیکھ رہا تھا کہ کوئی خیال ذہن میں آ رہا ہے اور گنتی بھی صحیح ہو رہی ہے۔
وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا؟ آپ کا جسم یا پھر آپ کا ذہن؟ یا پھر آپ خود؟
اگر آپ یہ سارا عمل دیکھ رہے تھے تو آپ کو اپنے ذہن اور جسم سے علیحدہ ہونا چاہیے۔
جی ہاں! دراصل یہ حس آگاہی ہی تو خودی (Self) ہے جو آپکو اپنے خیالا ت تصورات سے آگاہ کرتی ہے۔
اور صرف اور صرف خودی (Self) ہی ہے جو آپکو بتلاتی ہے کہ آپکے اندر اور باہر کیا ہو رہا ہے؟ کہاں ہو رہا ہے ؟
اس جاننے والے کو جاننے کا عمل ہی مراقبہ ہے۔ مراقبہ دراصل اپنی ذات سے شناسائی کا عمل ہے اس تجربہ سے یقیناآپ اپنے اندر اپنی ذات، خودی ) Self ( سے آگاہ ہوئے ہونگے ۔
نایاب​
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
مراقبہ (2)

تجسس انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور اس کے بل بوتے پر انسانی ذہن نے مختلف ادوار میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسکے باعث امکانات کے اسرار کھلتے ہیں اورانسانی سوچ کو بلند فضاؤں میں پرواز کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اب جبکہ شعوری بالیدگی کا دوردورہ ہے اور نئے نئے انکشافات نے پرانے تصورات کی جگہ لے لی ہے دور حاضر کے مسلسل سائنسی انکشافات نے حقائق بیان کر کے شعوری پستی کی آنکھیں چکاچوند کر دی ہیں ۔ ارتقا ء کا دھارا ا ب کسی دوسری طر ف گامزن ہے ۔یہ شعو ری بالیدگی کا دور ہے اب بہت سے طلسمات کا جادو ٹوٹ چکا ہے۔
اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگو ں کا چند ایک سوالات سے واسطہ پڑتا رہا ہے جیسا کہ
اس کائنات کا بنانے والا کون ہے ۔؟
زمین پر زندگی کا آغازکسیے ہوا ۔؟
زندگی کا مقصد کیا ہے ۔؟
ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیو ں مر جاتے ہیں۔؟
آیا ان سب معمالات کے پس پردہ کو ئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے ۔؟؟
ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے کا جوش وخروش پایا جاتا ہے ۔یہ جاننے کیلئے کہ اس کائنات کا خالق کو ن ہے ۔لوگوں نے اس کائنات (آفاق)کی تخلیق سے متعلق تخقیق کرنا شروع کر دی۔ کائنات کے راز کو جاننے کیلئے مختلف روش اختیار کیں گیں۔
لوگو ں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مر کز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے کیلئے اسکاظاہری مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قد رت کوجانا بلکہ انتہائی مفید مشینری،الیکٹرونکس کے آلات و د یگر ایجادات کا ایک دھیڑ لگا دیا ۔ان تحقیقات کی بد ولت سانئس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical) اورزیستی (Biological)قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دئے۔سانئس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آجکا جد ید دور ان لوگوں کی مستقل تخقیقات اور جدو جہد کا نیتجہ ہے جنہوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا۔یہ تخقیق اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازں کو مسخر کرنے پرگامزن ہے ۔
علاوہ ازیں لوگوں کے دوسرے گروہ نے بجائے اس کے کہ زندگی کی حقانیت کو آفاق میں تلاش کیا جائے خود انہوں نے ایک دوسری روش اختیار کی۔ ان لوگوں کی سوچ تھی کہ اگراس ظاہری کائنات کا کو ئی خا لق ہے تو انکے وجود (جسم )کا بھی کوئی خالق ہو گا ؟ لہذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہیں ۔ اپنی تو جہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجو د ( نفس) کے اسرار کی کھوج میں لگا دی۔ اس طرح انہوں نے آفاق سے ہٹ کہ مطالعہ نفس میں دلچسپی لی اور اپنی ذات پہ تجربات کاایک سلسلہ شروع کیا تا کہ اپنے اند ر کے رازِحقیقت کو سمجھا جائے
نایاب​
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
مراقبہ (3)
اس طرح سے علم نورانی (مراقبہ) اورتصوف کے سلسلے نے وجود پکڑا ا ن لوگوں کے بارے میں جنہوں نے مسلسل آفاق کی تخقیق سے زندگی کے چند اسرار کا اندازہ لگایا اور ہمیں ہستی کے نئے میدان میں لاکھٹرا کیا ۔
اب ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے نفس کو اپنی تخقیق کا مرکز بنایا اور اپنے جسم وذات پر یہ تخقیق شروع کر دی اورانہوں نے اپنی توجہ اپنے ا ند ر مرکوز کر دی جسکے نتیجہ میں نفوذ کرنے کے بہت سے طریقہ کار دریافت کیے تا کہ ا پنے اندر کا سفر کرکے اس اکائی (جز)کو تلاش کیا جا سکے جو کے انکو اس کائناتی حقیقیت سے مربوط کرتا ہے ۔اس کوشش نے علم نوارنی (علم مراقبہ) کے عمل کو تقو یت دی ۔
تمام طریقہ کار جو کہ مختلف طرح سے مراقبہ کے عمل میں نظرآتے ہیں وجود پائے۔ جس کا عمل دخل کم وبیش ہر مذہب کی اساس معلوم ہوتا ہے۔ آ ج مراقبہ کے عمل میں جو جدت اور انواع واقسام کے طریقہ کار نظر آتے ہیں انہی لوگوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے نفس کو تخقیق کیلئے چنا۔
ان تخقیقات اور مراقبہ کی مختلف حالتوں میں لوگوں نے محسوس کیا کہ اس سارے نظام عالم وجود میں شعوری توانائی کا نفوذ اور منسلکہ رشتہ ہے ۔ اس فطرت کی ہر شے کچھ نہیں سوائے ایک مطلق حس آگاہی کے ۔یہ ایک اعلی مطلق خبر آگاہی جسکا ہر طرف نفوذہے اور یہی وہ اللہ ہے جو کائنات میں ہمیں اپنی ذات کے اندر اور باہر محسوس ہوتا ہے ( اللہ نور السموات ولارص) کبھی ہم اپنی ذات (خودی ) سے تعلق ہمیں ایک رابطہ ملتاہے کہ ہم اپنے اللہ کو جانیں (من عرفہ نفسہ فقد عرفہ رب)۔ مراقبہ ایک عمل ہے جو اپنی گہری حالتوں میں کسی بھی شخص کیلئے وجود حقیقی سے روابط کا ذریعہ بنتاہے۔۔ اور یہ کلمہ اپنی آگاہی دے دیتا ہے۔۔۔۔ ھو ا ول و آخرظاہر و باطن
علم نورانی مراقبہ کیا ہے ؟
مراقبہ انسان کا اپنی حقیقی خودی (ذات) کی طرف ایک گہراسفرہے جس میں ایک انسان اپنے اندر (باطن)میں اپنا اصلی گھر تلاش کر لیتاہے چاہے کسی بھی مذہب اور روحانی سلسلہ سے منسلک ہوں مراقبہ سب کے لئے ایک جیسا عمل ہے مراقبہ انسان کی توجہ اس کے باطن کی طرف لے جانے کا موجب بنتا ہے اس کا ذہن اس طرح سے سکون پہ مقیم ہو جاتاہے اس طرح اسکی توجہ بھٹکے ہو ئے شعور کی حدود سے نکل کر حقیقی مرکزسے مربوط ہو جاتی ہے ۔ مراقبہ ذہن کی وہ طاقت ہے جو اسکو نورانی پہلو کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ باندھ دیتی ہے اس پہلو سے ذہن زندگی کا اعلی مقصد آشکار ہوتا ہے مراقبہ کو نورانی علم " سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ یہ نور کے چشمہ سے کام کرتا ہے ۔ حقیقی مراقبہ کا راز صرف ذہنی تصور کے ساتھ منسلک ہے جو اسکی ابتدائی اور انتہائی سطحوں پر کام کر تاہے ۔ مراقبہ علم کی وہ قسم ہے جو انسانی شخصیت ،روح اور ذات کو آپس میں یکجا کر دے اور سب کو ایک نقطہ سے مربوط کر کے کثرت و دوئی سے آزادی کا احساس پیدا کر دے ۔ مراقبہ ایک علمی تجربہ ہے جو ذہنی کشمکش سے خالی پن اور ظاہر ی زندگی کے مستقل نہ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے۔مراقبہ ایک عملی نمونہ ہے زندگی کو قریب سے دیکھنے پر اسکے ظاہری نا پائداری کے احساس کا۔ مراقبہ کواک ذہنی ورزش کا نام دے سکتے ہیں ۔جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ جتنا زیادہ اس عمل کو کیا جائے اتنی زیادہ اس میں مہارت حاصل ہو گی ۔یہ اس طرح کا عمل ہے جیسے ایک باڈی بلڈر یا پہلوان اپنے جسم کے عضلات کوجسمانی ورزش کے باعث مضبوط و خوبصورت بناتا ہے۔ مراقبہ کرنے کی عادت سے باطنی اعضاء کی ورزش ہوتی ہے اور باطنی حواس طاقتور ہو جاتے ہیں
نایاب​
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
مراقبہ (4)
عبادت اورمراقبہ میں فرق
عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی ہے اوراپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتاہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھا ہ گہرائیوں میں جاکر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کیحقیقت سے ناصرف آگاہی حاصل کی جاتی ہے بلکہ مشاہدۂ قدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کانصب العین (مقصد)صرف اور صرف انسان کے جسم، جذ بات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلی درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو کر آگہی کا گوہر تلاش کرنا ہوتا ہے ۔ یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں ۔ اسطرح ایک انسان کا رابطہ کائنات کی اصل سے جڑ جاتا ہے اور علم و عر فان کے چشمے پھو ٹ پڑ تے ہیں ۔ کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ اور انسان پستی کے گرداب سے نکل کر ہستی کے نئے میدان میں آجاتا ہے جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔بہار بھی ایسی کہ جس میں خزاں نہیں ہوتی اور سوچ انسانی آسمان کی بلندی کو چھوتی ہے اور لذت بھی ایسی کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے ۔۔۔
یہی زندگی کا موسم بہار ہے جسکے آجانے کے بعد ہر طرف کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیںاور انسانی سوچ کا سفر ایک نئی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔ جسکے سامنے ایک وسیع واریص میدان عمل ہے اور یہاں کی سلطنت میں صرف آج کی حکمرانی ہے ۔ گذشتہ کل کی کسی تلخی کا دکھ نہیں اور آنے والے کل کی خوشبوکادور دورہ ہے۔یہاں لذت وسرور کا وہ سماں ہے جو کہ دنیا کے کسی نشے میں نہیں ۔ اور خواب حقیقت کے روپ میں بدل جاتے ہیں جبکہ زندگی سوچوں کی تنگ و تاریک گلیوںمیں دھکے کھانے کے بجائے روشن اور وسیع میدانوں میں سفر کرتی ہے۔ اب اسکا سفرکوئی سڑاند والا جوہڑ نہیں کہ جس میں وہ عوطے کھائے بلکہ ایک بحربیکراں ہے جسکے سفینے صرف کامیابی،خشحالی اور سکون کی منزل تک لے جاتے ہیں۔
ہر دور میں مختلف افراد اپنی بساط کے مطابق ’میں‘(self )کی تلاش میں نکلے، کسی نے کہا ’کی جاناں میں کون؟‘اور کوئی ’ان الحق‘ کا نعرہ لگا کر چلا گیا کسی نے خودی کا تصور دیا۔ غرض ہر نظرنے اپنے اپنے زاوئیے سے حق کو دیکھا۔ ہرشے کو دیکھنے کے360 زاوئیے ہوتے ہیں البتہ ضروری نہیں کہ ہر زاویہ ٹھیک ہو مگر ایک زاویہ ضرور حقیقت بتلاتا ہے۔ زاویہ، نظریہ، ترکیب بہر حال ایک تو ضرور ایسی ہوتی ہے جوحقیقت شناسا ہوتی ہے۔
نایاب​
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
مراقبہ (5)
تخلیق کاخاصہ ہے کہ وہ ان طاقتوں کو (جوایک دوسرے کیلئے قربت کا مزاج رکھتی ہوں)ایک خاص نسبت (ترکیب)پہ ملا کر ایک نئی چیز معرض وجود میں لاتی ہے۔ قدرت کس طرح عدم (غائب) سے کسی چیز کو ظاہر وجود میں لاتی ہے۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن نظر نہ آنے والی گیسیں ہیں مگر جب دونوں ایک خاص ترکیب (H20) کی نسبت کے ساتھ ملتی ہیں تو ایک نئی چیز (پانی ) وجود میں آتا ہے جوکہ ایک جدا گانہ خاصیت رکھتا ہے اور دیکھا اور چکھا بھی جا سکتا ہے۔
اس دنیا کو ہم اپنی اپنی نظر اور زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ اور جو اخذ کرتے ہیں وہ ہماری اندرکی دنیا کا عکس ہے۔ ورنہ باہر کی دنیا ایک ہی ہے مگر نقطہ نظر اور تجربات زندگی مختلف۔ کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین کسی کو دنیا (زندگی ) حسین و دلفریب نظر آتی ہے اور کسی کو خادار جھاڑی یعنی ہر کوئی دنیا کے بارے میں اپنا علیحدہ ہی نقطہ نظر رکھتا ہے۔
ہر شٰے میں تغیر برپا ہوتا ہے مگر مشاہدہ کرنے والی اکائی (میں - SELF ) کبھی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ شہادت دیتی ہے کہ اب بچپن ہے اور یہ جوانی ہے اور یہ بڑھاپا ہے غور کریں تو وہ تمام شناختیں جو ہم رکھتے ہیں ہمارا نام، ہمارا مذہب، ہماری جسمانی ساخت، اور خیالات وغیرہ یہ تمام ایک مجموعہ ہے اِن حالات کا جن کے اندر ہم پیدا ہوئے اور پروان چڑھے .. یہی ہماری ظاہری شناخت ہوتی ہے ۔ لیکن ان سب باتوں سے ہٹ کر ہم علیحدہ ایک پہچان رکھتے ہیں۔ یہی میں یا انا ہمیں اس دنیا میں اپنی اک الگ پہچان سے آشنا کرتی ہے۔
مراقبہ کا مقصد ہے کہ ہم اپنی اس حقیقی شناخت کو جان سکیں جو اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتی ہے حالات خواہ کچھ بھی ہوں اس میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔ وہ شناخت کیا ہے؟ اور ہم حقیقت میں کون ہیں؟
مراقبہ ایک خودی (Self )کو اپنے اندر جاننے کاعمل ہے۔ ا مراقبہ ایک ایسا عمل ہے۔ جو ہمیں اپنے اندر موجود خودی (Self) سے ملانے کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراؤ والی اور از سرنو زندگی بخشنے والی ہے۔ لہٰذا مراقبہ کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے اپنے اندر موجود خودی (Self) کو جاننا ہوتا ہے ۔ ۔ اس خودی کو اور بھی نام دے سکتے ہیں۔ مثلا، نفس، میں (مثلاSelf, I, Ego) وغیرہ
اللہ حافظ
محتاج دعا
نایاب​
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
جسم کوزمین سے پیدا کیا گیا ہے اور روح کوآسمان کی بادشاہت سے سو جب جسم اس روح کو کم کھانے کم سونے اور عبادت کی چکی میں پیستا اور اسے مسلسل بیدار رکھ کرجہان رنگ و بو میں مستغرق ہو کر خالق کی تخلیق میں غور کرتا ہے تو روح توانا ہو جاتی ہے۔اورروح کو وقت مقررہ پر اس جسم کو الوداع کہہ کر واپس اس جگہ چلی جانے میں جہاں سے نکلی تھی ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی ..
ایسی ہی ہستیوں کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَآ اَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُo ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً
مَّرْضِیَّۃًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo
(الفجر: 89/ 27 تا 30)
ترجمہ: اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی اور وہ
تجھ سے راضی، پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو اور میری جنت میں آ۔ (کنز الایمان)
اور جب جسم اسے اپنے نفس و شہوت کی خواہشوں میں الجہھ کر اپنی پسندیدہ خوراک کھلائے اوربنا عبادت کی چکی میں پیسے اسے آرام دے توروح کمزور ہو کر جسم کی نفسانی خواھشات کی تابع ہو جاتی ہے اور دنیا سے محبت کرنے لگتی ہے اور وقت مقررہ پر جب روح کو جسم چھوڑنے کا حکم ملتا ہے۔تو روح جسم سے نکلتے ہويے جسم کو بہت ناگواری سے الوداع کہتی ہے۔ اور جسم کواک اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
”وقت اللہ کی امانت ہے۔ اس کا صحیح استعمال عبادت ہے۔“
اللہ کا ولی اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھتا ہے اور اس امانت کی
حفاظت اور بر وقت فرائضِ منصبی کی ادائیگی اس کی عبادات کا ایک حصہ ہیں۔​
محتاج دعا
نایاب
 
Top